• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

آئن اسٹائن تھیوری کی تصدیق میں پاکستانی نژاد سائنسدان کا کردار

شائع February 13, 2016
کراچی میں پیدا ہونے والی  آسٹروفزسٹ اور ایم آئی ٹی کے شعبہ طبیعیات کی ایسوسی ایٹ ڈپارٹمنٹ ہیڈ نرگس ماول والا—۔ بشکریہ میک آرتھر فاؤنڈیشن
کراچی میں پیدا ہونے والی آسٹروفزسٹ اور ایم آئی ٹی کے شعبہ طبیعیات کی ایسوسی ایٹ ڈپارٹمنٹ ہیڈ نرگس ماول والا—۔ بشکریہ میک آرتھر فاؤنڈیشن

کراچی میں پیدا ہونے والی آسٹروفزسٹ اور میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے شعبہ طبیعیات کی ایسوسی ایٹ ڈپارٹمنٹ ہیڈ نرگس ماول والا بھی سائنسدانوں کے اُس گروپ میں شامل ہیں، جنھوں نے خلاء میں کشش ثقل کی لہروں کی موجودگی کا اعلان کیا.

گذشتہ 20 سال سے اس شعبے سے وابستہ ماول والا کی خدمات تحقیق کے میدان میں شاندار ہیں، وہ 2002 سے ایم آئی ٹی سے منسلک ہیں.

ماول والا نے ویلزلے کالج سے 1990 میں بی اے کیا اور 1997 میں میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے پی ایچ ڈی کیا.

اس سے قبل انھوں نے کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (کالٹیک) میں پوسٹ ڈاکٹورل ایسوسی ایٹ اور ریسرچ سائنسدان کی حیثیت سے کام کیا.

ماول والا، Laser Interferometer Gravitational-Wave Observatory (لیگو) سے ایم آئی ٹی میں اپنے ابتدائی سالوں کے دوران منسلک ہوئیں، ان کی ابتدائی تحقیق انٹرفیرومیٹرک کشش ثقل کی لہروں کی دریافت کے لیے آلات بنانے سے متعلق تھی.

انھیں 2010 میں میک آرتھر فاؤنڈیشن ایوارڈ سے بھی نوازا گیا.

نرگس ماول والا—۔فوٹو/ بشکریہ میک آرتھر فاؤنڈیشن
نرگس ماول والا—۔فوٹو/ بشکریہ میک آرتھر فاؤنڈیشن
کراچی میں پیدا ہونے والی نرگس ماول والا نوعمری میں کالج کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکا گئیں.

سائنس میگ نامی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ان کے انٹرویو میں ماول والا کا کہنا تھا کالج کے دنوں میں اپنی بائیک کی مرمت کے لیے وہ دوسرے لوگوں سے آلات اور پرزے ادھار لیا کرتی تھی.

ان کا کہنا تھا کہ ان کی والدہ کو کپڑوں پر لگے گریس کے داغوں پر اعتراض ضرور ہوتا تھا لیکن ان کے والدین نے کبھی بھی ان اسکلز کو حدود سے متجاوز قرار نہیں دیا.

تاریخ سازدریافت

اگرچہ اسپیس ٹائم میں کشش ثقل کی لہروں کی موجودگی کی یہ تاریخ ساز دریافت ستمبر 2015 میں کی گئی تھی تاہم سائنسدانوں کو اس کی تصدیق کرنے میں کئی ماہ لگ گئے اور بالآخر 11 فروری 2016 کو اس کا اعلان کیا گیا.

کشش ثقل کی یہ لہریں 750 ملین سے 1.86 ارب نوری برسوں کے فاصلے پر واقع ایک اور کہکشاں سے اُس وقت آئیں جب اتنے ہی سال قبل 2 بلیک ہولز ایک دوسرے سے ٹکرا گئے جس سے اسپیس ٹائم ہل کر رہ گیا۔

اس سے پیدا ہونے والی لہریں روشنی کی رفتار سے سفر کرتی ہوئیں ستمبر 2015 میں کرہ ارض کے پاس سے گزریں، جنہیں سائنسدانوں نے دریافت کیا.

مزید پڑھیں:ایک صدی بعد آئن اسٹائن کا خیال درست ثابت ہوگیا

دریافت اور اعلان کے درمیان کے عرصے میں متعدد بار نتائج ٹیسٹ کیے گئے اور ہر بار ایک ہی نتیجہ ملنے پر سائنسدانوں نے دریافت میں کامیابی کا اعلان کیا.

اس دریافت کا اعلان واشنگٹن میں کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور Laser Interferometer Gravitational-Wave Observatory (لیگو) نے کیا.

یہ وہ خیال ہے جو ایک صدی قبل یعنی 1915 میں معروف سائنسدان البرٹ آئن اسٹائن نے پیش کیا تھا، جس کی تصدیق 100 سال بعد ہوئی.

اپنے نظریہ عمومی اضافیت میں البرٹ آئن اسٹائن نے پیشگوئی کی تھی کہ کائنات میں ہونے والے بڑے واقعات جیسے ستاروں کے ٹکراﺅ کے نتیجے میں کششِ ثقل کی لہریں پیدا ہوتی ہیں اور انتہائی دور تک توانائی کو منتقل کرتی ہیں۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (4) بند ہیں

علی Feb 13, 2016 01:34pm
پاکستانی نژاد کہنے کا فائدہ. اب میڈم امریکن ہے اور امریکا انکی صلاحیتوں سے فائدہ اٹها رہی ہے.(اللہ انکو مزید کامیابیاں دے) ہمیں پاکستان میں موجود اپنے قابل نوجوانوں کی باهر جانے سے پہلے قدر کرنی چاہیے. سوچیئے ذرا.......
MASOOD AKHTER Feb 13, 2016 04:49pm
Congratulation to Nargis Mavalvala and for all PAKISTANIS
solani Feb 14, 2016 02:40am
Apni betio ko sirf char diwari me rakhne ka hukum kis ne diya hai. Kisi ne bhi nahi. Hamaray Nabi(pbuh) nay kha hai kay (parhai kay leye Chin jana ho to jao). Nargis nay apnay maa baap kay nam kay sath Pakistan ka bhi naam roshan kiya hai. Ye hota hai (the power of education).
avarah Feb 14, 2016 12:49pm
@علی Bring her to Pakistan if you can

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024