• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

پی آئی اے بحران: ملازمین ذمہ دار؟

شائع February 12, 2016
لکھاری ڈان اخبار کے اسٹاف ممبر ہیں۔
لکھاری ڈان اخبار کے اسٹاف ممبر ہیں۔

پی آئی اے ملازمین کی ہڑتال کے دوران بہت سی باتیں کہی گئیں جنہیں درست کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے بڑی غلط فہمی جسے درست کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ ایئر لائن کو درپیش مسائل کی وجہ ملازمین ہیں۔

نہیں، وہ ان مسائل کے ذمہ دار نہیں ہیں۔

کم از کم 2003 سے ایئر لائن کے ملازمین کی تنخواہوں اور منافع کے درمیان تناسب مستقل طور پر 10 سے 13 فیصد رہا ہے۔ یہ تناسب 2008 اور 2009 کے آس پاس تب بھی تبدیل نہیں ہوا جب مبینہ طور پر ایئر لائن میں سیاسی بھرتیاں کی گئی تھیں۔

ملازموں پر آنے والی لاگت پی آئی اے کا سب سے بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ ملازموں کو، چاہے وہ ایئر لائن کے ہوں یا کسی اور سرکاری ادارے کے، غیر مناسب طور پر مسائل کی اہم وجہ ہونے کا الزام دیا جاتا ہے۔ بلاشبہ ائیر لائن میں کچھ کالی بھیڑیں کام کر رہیں ہیں اور یونین کے سربراہوں نے بھی غیر متعلقہ دائروں میں اپنا اثر و رسوخ قائم کیا ہوا ہے، لیکن یہ چیزیں بھی ایئرلائن کو اس حد تک نہیں گرا سکتیں، جس جگہ پر یہ آج موجود ہے۔

دو مختلف شخص، جو کمپنی کی مالی حالت جاننے کی صلاحیت رکھتے ہیں، نے مجھ سے ایک ہی بات کہی۔ ایک شبر زیدی، جن کی فرم پی آئی اے کے دو آڈیٹرز میں سے ایک ہے۔ ان کے مطابق ''پی آئی اے کا مسئلہ ملازمین پر آنے والے اخراجات نہیں ہیں۔ ایئر لائن منافع کی کمی کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے۔''

دوسرے شخص نے اپنا نام ظاہر کیے بغیر بات کرنے کو ترجیح دی، مگر چونکہ وہ ماضی میں بطور چیف فنانشل آفسر فرائض انجام دے چکے ہیں، اس لیے مالی معاملات کے بارے میں کافی کچھ جانتے ہیں۔ انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ ''ملازموں پر آنے والی لاگت پی آئی اے کا سب سے بڑا مسئلہ نہیں'' مگر اس کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ یونین کا معاملات کے حل پر سخت اور غیر لچکدار رویہ اور اس کے ساتھ ساتھ ملازمین جن کئی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں، ان سے نمٹنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔

ایک اور مفروضہ جو گردش میں ہے، وہ یہ کہ ایئر لائن میں بہت سے لوگوں کو سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیا گیا۔ ثبوت کے طور پر لوگ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کے ابتدائی سالوں میں ہونے والی بھرتیوں کا حوالہ دیتے ہیں اور ان کی تعداد 4 ہزار سے 9 ہزار بتاتے ہیں۔ اگر یہ بات سچ ہے، تو اتنے وقت سے ایئر لائن میں ملازمین کی وہی تعداد برقرار کیسے ہے، جبکہ بعد کے سالوں میں یہ تعداد صرف کم ہوئی ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ اس سال 3 ہزار 5 سو کانٹریکٹ ملازمین جو پہلے سے ہی پی آئی اے کے پے رول پر کام کر رہے تھے انہیں مستقل کردیا گیا تھا۔ وہ نہ تو نئی تقرریاں تھیں اور نہ ہی انہوں نے پے رول پر اضافی بوجھ ڈالا۔ مگر ان کی مستقل تقرریوں کو پیپلز پارٹی کے خلاف پروپیگنڈا کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اس چیز کو پی آئی اے کی موجودہ حالت کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔

تو پھر اگر ملازمین مسئلے کی وجہ نہیں ہیں تو کون ہے؟ آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں۔

پی آئی اے بھی اسی مرکزی مسئلے سے دوچار ہے جو باقی سرکاری اداروں کے ساتھ ہے۔ اتنے سالوں سے حکومت ان وسائل کو متحرک کرنے میں ناکام رہی ہے جن سے ایئر لائن میں مزید طیاروں کی شمولیت اور جدت کی ضرورت کو پورا کیا جا سکتا تھا۔ ایئر لائن کو چلائے رکھنے کے لیے سرمایہ کاری میں اضافے میں ناکامی وہ بنیادی وجہ ہے جس سے منافع میں کمی آنے لگی۔

جب خسارہ بڑھنے لگا تو ایک کے بعد ایک آنے والی انتظامیہ کے پاس ایئرلائن کو چلانے کے لیے دوسرے طریقے ڈھونڈنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ ایک واضح راستہ تھا کہ قرض لیے جائیں۔ دوسرا یہ کہ ایئر لائن کے اثاثے بیچ دیے جائیں۔ تیسرا تھا کہ اخراجات میں کمی کر دی جائے۔ منافع جیسے جیسے زیادہ خسارے کا شکار ہوتا گیا، ان میں سے ہر حکمت عملی پر زیادہ سے زیادہ اور مزید شدت سے عمل کیا گیا۔

بین الاقوامی معیار کی ایئر لائن کو چلانے کے لیے ضروری سرمایہ کاری کو متحرک کرنے میں حکومتی نااہلی سے ایئر لائن کی مالی حالت پر انتہائی برے اثرات مرتب ہوئے۔ اس نے کمپنی کو مہنگے راستوں پر گامزن کردیا جس میں نئے جہازوں کو کرائے پر لینا شامل ہے۔ مہنگے راستے پر ایک بار گامزن ہونے کے بعد انتظامیہ کے پاس اثاثوں کو بیچنے اور اخراجات میں کمی کے سوائے اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ سب سے پہلے جو اثاثے بیچے گئے ان میں دوسری ایئرلائن کو روٹس اور لینڈنگ حقوق شامل ہیں، جبکہ ان کے بدلے میں حقوق کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔ آخر کار بات مادی اثاثے جیسے روزویلٹ ہوٹل بیچنے تک آ پہنچی، جس کے بعد اس معاملے میں سیاست اتر پڑی۔

اور جب اخراجات میں کمی کی تلوار نے ملازمین کا رخ کرنا شروع کیا، تو مسئلے نے موجودہ شکل اختیار کرنی شروع کی۔ انتظامیہ نے تصویر کا اپنا رخ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملازمین اب ناقابلِ برداشت بوجھ بنتے جا رہے ہیں۔ ملازمین کے رویے کے حوالے سے منفی باتیں پھیلائی گئیں اور ایسا تاثر دیا گیا کہ جیسے ملازمین ہی پورے مسئلے کی بنیادی وجہ ہیں۔

ملازمین نے متحد ہو کر ردِعمل ظاہر کیا، اور سب سے تیز طرار ملازمین کو یونین کی قیادت تھما دی، تاکہ جسے وہ اخراجات کی ان تک غیر منصفانہ منتقلی سمجھتے ہیں، سے نمٹا جا سکے۔

انہوں نے بھی تصویر کا اپنا رخ پیش کیا جن میں انتظامیہ کی اثاثے بیچنے اور جہازوں کو کرائے پر لینے میں کرپشن، بڑے عہدے والوں کو بے تحاشہ تنخواہیں دینے اور اخراجات میں کمی کے لیے نچلے ملازمین پر سختی کی کہانیاں شامل ہیں۔

سیاسی جماعتوں نے اس تنازع کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا۔ جب وہ اپوزیشن میں تھے تو ملازمین کی طرفداری کرنے لگے اور حکومت ملنے پر انہیں تنہا چھوڑ دیا۔ اس دوران خسارہ بڑھتا گیا اور زیادہ سے زیادہ جہازوں کو گراؤنڈ کرنا پڑا۔ طیاروں کی تعداد میں کمی ہوئی، جس سے اس پوری کہانی کے سب سے بتائے جانے والے مگر سب سے گمراہ کن اعداد و شمار نے جنم لیا: فی جہاز ملازمین کی تعداد۔

ہمیں بتایا جاتا ہے کہ پی آئی اے میں فی جہاز سب سے زیادہ ملازمین موجود ہیں۔ یہ سچ ہو سکتا ہے۔ مگر اس کے زیادہ ہونے کی وجہ زیادہ ملازمین کو بھرتی کرنا نہیں ہے۔ یہ اس لیے زیادہ ہے کیونکہ موجودہ منافع پر جتنے جہاز چل سکتے ہیں، ان میں کمی آتی جا رہی ہے۔ اس لیے اس تناسب کو درست کرنے کے لیے ہمیں ملازمین کی تعداد میں کمی کرنے کے بجائے طیاروں کی تعداد بڑھانی چاہیے۔

سرکاری اداروں کے ملازمین کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ نجی شعبے کے ملازمین برے سلوک کا شکار ہیں۔ یہ بنیادی انسانی سطح پر انتہائی غلط رویہ ہے اور اس سے ایسا کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا جس کا شکار پی آئی اے یا کوئی اور سرکاری ادارہ ہے۔

انگلش میں پڑھیں.

لکھاری ڈان اخبار کے اسٹاف ممبر ہیں۔

[email protected]

ٹوئٹر: khurramhusain@

یہ مضمون ڈان اخبار میں 11 فروری 2016 کو شائع ہوا.

خرم حسین

صحافی ماہر معیشت اور کاروبار ہیں

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : khurramhusain@

ان کا ای میل ایڈریس ہے: [email protected]

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Irfan Akram Feb 12, 2016 09:13pm
Sirf khasara wajohat kuch bhi ni bataen ap ne

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024