بجیا: ٹھنڈی تھی جس کی چھاؤں
کراچی کے وسط میں واقع اللہ والی چورنگی کو جاتی سڑک پر ہماری گاڑی رواں دواں تھی۔ میرے ہونٹ خشک تھے، دل میں خود کو صلواتیں سنا رہی تھی اور ساتھ ہی دعا مانگ رہی تھی کہ یا اللہ مجھے اور بجیا کو بحفاظت اپنی اپنی منزل تک پہنچا۔
دعا نہ مانگتی تو کیا کرتی، منحننی سی ضعیف بجیا گاڑی ڈرائیو کر کے مجھے بہادر آباد مارکیٹ لے جا رہی تھیں۔ آس پاس کی گاڑیوں والے اندر جھانک رہے تھے کہ ڈرائیونگ سیٹ تو خالی نظر آرہی ہے پھر ڈرائیور کون ہے؟
بجیا کے ساتھ گزاری ایک دہائی کا سایہ شاید عمر بھر مجھ پر رہے۔ کراچی کے وسط میں واقع بہار مسلم سوسائٹی میں کارنر کا سبزے سے گھرا وہ گھر، جہاں میں نے فاطمہ ثریا بجیا کے ساتھ زندگی کو سیکھا۔ لکھنا سیکھا لوگوں کو معاف کرنا اور سب کے لیے دل کھول کر جینا سیکھا۔
کوئی جو پوچھ لے: بجیا کیسی ہیں؟ پھر چاہے بجیا کی طبعیت کیسی ہی کیوں نہ ہو، جواب میں کہتیں: بس بھیا ناک بند ہے، باقی بڑھاپا اپنے جوبن پر ہے۔
بجیا گھر سے جو قدم باہر نکالتی تھیں، وہ کسی اور کے لیے ہوتا۔ کسی نے عرضی ڈال دی، اب سفید ساڑھی والی اس فرشتہ صفت سے "نہیں" کبھی نہیں کہا گیا، چاہے جو حالات ہوئے بجیا نکل کھڑی ہوئیں۔
یہ دسمبر 2010 کی بات ہے۔ رات کے دس بجے بجیا اپنے کمرے میں ہیٹر کے آگے بیٹھی اخبارات کے تراشے سنبھال رہی تھیں۔ میں کامن روم میں ٹی وی کے آگے سکون سے صوفے پر دراز تھی۔ گھر کی گھنٹی بجی۔ بائیس سال سے بجیا کے گھر میں براجمان شیف عبدالوہاب نے مجھے اطلاع دی "عفت باجی، بجیا کو بولے کوئی صاب آیا، کہتا ہے نوکری کا ماملہ اے"۔
میں نے گھڑی دیکھی، لاحول پڑھا اور بجیا کو بتانے گئی۔ بجیا بہت انہماک سے اخبارات تراش رہی تھیں چنانچہ میں نے مخل ہونا مناسب نہ سمجھا۔ میں نے مرکزی دروازے پر جا کر گھر آنے والے صاحب سے کہا کہ بجیا مصروف ہیں، کل علی الصبح آجائیں، ملاقات بھی ہوجائے گی اور کام بھی۔
بحث جاری تھی کہ پیچھے سے بجیا آگئیں "آجاؤ بیٹا اندر آجاؤ"۔
موصوف کوئی سرکاری ملازم تھے۔ شوکاز ملا ہوا تھا۔ نوکری کے لالے پڑے تو بجیا کے گھر راتوں رات آن دھمکے۔ بجیا ان صاحب بہادر کو نہیں جانتی تھیں۔ مدعا سنا، اونی شال کندھے پر ڈالی اور آواز لگائی "عبدالوہاب! بی بی کے لیے الماری سے شال نکال لاؤ، اور گاڑی نکالو گورنر ہاؤس جانا ہے“۔
اب یہ بی بی بیچاری منہ تکے، "ارے بجیا رات کے ساڑھے دس ہونے کو آئے ہیں…" لاکھ عبدالوہاب منمنایا، اس بی بی نے بھی سمجھایا، اگلے چند منٹوں میں ہم گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے سرکاری گھر.. کام کیسے نہ بنتا۔
وہ سب کی بجیا تھیں، مگر میری تو ماں تھیں، وقت کی درویش، اللہ کی ولی، حد درجہ سادہ اور بلا کی درد مند۔
بجیا کا دستر خوان ایسا تھا کہ کھانے والے آتے جاتے اور دستر خوان طویل ہوتا جاتا. عبدالوہاب جس نے ہر سرد و گرم میں بجیا اور ان کی والدہ کا ساتھ نبھایا، روٹیاں توے سے اتارتا جاتا، اور دسترخوان پر اک نئے مہمان براجمان ہوتے جاتے. یقین جانیے بجیا کے ڈرائینگ روم میں بڑے ٹھسے سے بیٹھے نجانے کتنے ہی نامی نامیوں کی اکثریت اپنے ہی کسی کام کی خاطر آئے ہوتی تھی، مگر کیا مجال جو کبھی بجیا کے ماتھے پر شکن نظر آئے۔
میں بجیا کے کارنامے لکھتی جاؤں گی اور دفتر رقم ہوتے جائیں گے، اسی لیے بجیا کی زندگی کی کہانی میں پہلے ہی سوانح عمری کی شکل میں رقم کر چکی۔
بس اک بات ہے جو شاید کتاب میں نہ لکھ سکی اور اب لکھ رہی ہوں۔ بجیا نے جس ہمت و بہادری سے زندگی گزاری ہم اس کا عشر عشیر بھی نہیں سہہ سکتے۔ وہ تناور اور مضبوط خاتون جس نے 1960 میں جنگ اخبار میں کہانیاں لکھ کر پروفیشنل زندگی کا آغاز کیا، جب 2014 میں انہیں فالج کا اٹیک ہوا تو وہ اس سے قبل تک اپنی ضعیفی میں بھی اپنے کپڑے خود دھو لیتیں، واش روم تیزاب سے دھویا اور کمرے کی صفائی کر ڈالی، میں جب رمضان میں بھوک سے نڈھال پڑی ہوتی، تو کچن سے برتنوں کی آوازیں آتیں۔ میں بجیا کو منع کرنے جاتی تو کہتیں "ارے بس بن گیا افطار، تمہارے بہانے میں بھی چکھ لوں گی۔"
تقسیمِ ہند کے فوری بعد بجیا کی شادی ہوئی۔ ان کی دو بیٹیاں پیدائش کے بعد فوت ہوگئیں۔ بجیا انہیں بھی یاد کرتیں اور کہتی جاتیں "دیکھو اللہ نے مجھے کتنے سارے بیٹے بیٹیاں دیے۔"
واقعی بجیا، کتنا درست کہا، آپ کے جانے پر یہ بیٹی اتنی ہی سوگوار ہے جیسا اپنی ماں کو رخصت کرنے کا حق ہے۔
تبصرے (5) بند ہیں