ادبی میلے کے مضحکہ خیز سیشن کی روداد
اس سال غیر معمولی طور پر کراچی ادبی میلے میں کچھ چیزیں ٹھیک نہیں رہیں، جن میں سیشنز کی غیر اعلانیہ ری شیڈولنگ اور مائیکرو فونز کا ٹھیک کام نہ کرنا شامل ہے۔
مگر جہاں تک اردو ڈائجسٹ اور ڈائجسٹ رائٹرز کے سیشن میں ہونے والی غلطیوں کی بات ہے، تو ان کا زیادہ تعلق انتظامی لاپرواہی سے محسوس ہوا.
مثال کے طور پر سیشن کی کارروائی کا مضمون سے تعلق مشکل سے ہی دیکھنے میں آیا اور موڈریٹر نے تو حالات اور بھی خراب کر دیے.
ایسی غلطیاں کراچی کے ادبی میلے کی 7 سالہ تاریخ میں ہوتی رہی ہیں، لیکن اتنی بڑی نہیں جتنی کہ اس سیشن میں ہوئیں۔
اور ان غلطیوں کے آثار آغاز میں ہی نظر آنے لگے تھے۔ موڈریٹر زاہدہ حنا ادبی میلے کی گائیڈ بک کی مدد سے مقررین کو اسٹیج پر دعوت دے رہیں تھیں۔ جب انہوں نے حسیب آصف کا نام پکارا تو تھوڑا ٹھہر کر سوچنے لگیں کہ آیا حضرت ہال میں موجود بھی ہیں یا نہیں، پھر اسٹیج کی طرف آتے ہوئے ایک شخص سے آصف کے بارے میں پوچھنے لگیں۔
پڑھیے: کراچی ادبی 'تماشا'
پتہ چلا کہ وہ حسیب ہی سے ان کے بارے میں پوچھ رہیں تھیں۔
جیسے ہی حاضرین ہنسنے لگے تو موڈریٹر نے اپنی خفت چھپاتے ہوئے حسیب سے کہا کہ وہ ان کے بارے میں کچھ نہیں جانتیں اور ان کو رضا کار سمجھ بیٹھیں۔
ایک دفعہ پھر قہقہے گونج اٹھے۔
گھبرائی ہوئی حنا نے دو منٹ بعد حسینہ معین، جو کہ ایک سینئر اور مشہور ٹی وی ڈرامہ نویس ہیں، سے پوچھا کہ ان کا ''بطور ڈائجسٹ رائٹر'' تجربہ کیسا رہا تھا۔
''میں نے کبھی بھی کسی ڈائجسٹ کے لیے نہیں لکھا۔۔۔۔ مجھے پتہ نہیں کہ میں کیا کہوں۔''
تب تو قہقہے گرج رہے تھے۔
اب موڈریٹر نے ایک بار پھر زخموں پر اور زیادہ نمک چھڑکتے ہوئے حاضرین کو بتایا کہ وہ بھی سیشن میں اسکرپٹ رائٹر کی موجودگی پر حیران تھیں اور منتظمین پر مہمانوں کے غلط انتخاب کا الزام لگا ڈالا۔
اتفاقاً ہال میں ادبی میلے کے شریک بانی آصف فرخی بھی موجود تھے۔ پھر وہ بھی اس گفتگو کا حصہ بن گئے جو اب تک حاضرین کے لیے تکلیف دہ حد تک طویل مضحکہ خیز تماشا بن چکی تھی۔
اگلی بار موڈریٹر نے ایک اور مہمان نیلوفر علیم، جو کہ 1970 کی دہائی کی مشہور اداکارہ تھیں، سے پوچھا وہ کہ ڈائجسٹ اور اس کے مواد کے بارے میں کیا سوچتی ہیں۔
''انسانی تاریخ میں موجود انسان، الفاظ اور عقل کے عالمی تکون'' پر کچھ منٹوں کی لفاظی کے بعد ان کو یاد دلایا گیا کہ انہیں اردو ڈائجسٹ پر بات کرنی ہے۔
''ہاں میں نوجوانی کے دور میں پڑھا کرتی تھی''، ان کے اس تبصرے پر سب ہنس پڑے۔
مہمان کے ساتھ نوک جھونک، جو کہ پرلطف تھی، کے بعد موڈریٹر نے نورالہدیٰ شاہ جو کہ دور حاضر کی مشہور ٹی وی ڈرامہ نویس ہیں، کی جانب رخ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ''مجھے پتہ نہیں کہ میں کیا کہوں۔۔۔ بلکہ میں نے تو ایک دو کے علاوہ ڈائجسٹ کبھی پڑھے ہی نہیں۔”
بلاشبہ وہ تعریف کی حقدار ہیں، جنہوں نے نہایت خوبصورتی سے اردو ڈائجسٹ کے موضوع کو اردو ڈرامہ اسکرپٹ سے جوڑنے کی کوشش کی، جس میں وہ شاید کامیاب بھی ہوجاتیں لیکن ان کی رائے کو حسینہ معین غلط سمت میں لے گئیں۔
جس سے ایک بحث کی شروعات ہوگئی، جو کہ ٹی وی کے کسی ٹاک شو کے لیے اچھی ریٹنگز کا باعث بن سکتی تھی، مگر حاضرین کے لیے اسے (مذاقاً) ڈائجسٹ (ہضم) کرنا مشکل ہو گیا تھا جو کہ غیر متوقع مزاح کے ساتھ چلنے والے سیشن کا تین چوتھائی حصہ گزرنے تک بہت بور ہوچکے تھے۔
یقیناً ہر طرف ہنسی پھیلی ہوئی تھی لیکن حاضرین وہاں ہنسنے کے لیے نہیں آئے تھے۔
سب سے زیادہ مضحکہ خیز اور قابل مذمت حصہ وہ تھا جب شکیل عادل زادہ، جو کہ غیر متنازع طور پر اردو ڈائجسٹ کا بڑا نام ہیں، انہوں نے دو منٹ سے بھی کم وقت تک بات کی، جس کی وجہ سے ان حاضرین کو بہت مایوسی ہوئی جو کافی عرصے سے ادبی نفاست کے ساتھ کردار اور کہانیاں لکھنے والے شخص کو سننے کے لیے وہاں جمع تھے۔
اگر منتظمین سیشن کے مضمون اور مہمانوں کی فہرست کو ٹھیک سے ترتیب دیتے اور موڈریٹر تیاری کے ساتھ آتیں تو وہاں کا منظر کچھ اور ہوتا۔
اس سیشن نے اسٹینڈ اپ کامیڈینز کو تو متاثر کیا ہوگا لیکن ادبی ذوق رکھنے والوں کو بالکل بھی نہیں۔
تبصرے (3) بند ہیں