اُدھو داس کی گردن زنی
موضوع پڑھتے ہی آپ کے دل میں یہ گمان پیدا ہوگا کہ شاید کوئی ہندو مذہبی انتہاپسندی کی بھینٹ چڑھ گیا۔ ایسا ہے بھی اور نہیں بھی کیونکہ جب اُدھو داس کی گردن ماری گئی وہ زندہ نہیں تھا۔
اگر وہ زندہ نہیں تھا تو گردن کیسے اُڑائی گئی؟ جواب یہ ہے کہ سر قلم تو ہوا لیکن زندہ اُدھو داس کا نہیں بلکہ ان کے سنگ مرمر کے مجسمے کا۔ اس کے باوجود وہ آج تک لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ 1979 میں گردن مارے جانے کے 36 اور 19 جنوری 1943 کو اُدھو داس کے انتقال کے ٹھیک 73برس بعد شکارپور کے ہندو اور مسلمانوں نے رائے بہادر کے شکارپور میں قائم ہسپتال میں ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ایک جلسہ منعقد کیا۔ جلسے کے شرکاء میں ہندو کم مسلمان زیادہ تھے۔
آخر رائے بہادر اُدھو داس کون تھے۔ رائے بہادر اُدھو داس شکار پور کے ایک معروف تاجر تھے، جنہوں نے شکارپور میں اپنی مدد آپ کے تحت تقسیم ہند سے قبل 1933 میں شہریوں کے لیے ایک ہسپتال کا سنگ بنیاد رکھا اور اس کے لیے ذاتی طور پر ایک لاکھ روپے کا عطیہ دیا۔ اس وقت کے ایک لاکھ روپے کی مالیت اب کیا ہوگی یہ کوئی ماہر معاشیات ہی بتا سکتا ہے۔
اُدھو داس کے دل میں یہ خیال کیوں آیا، اس حوالے سے شکار پور سے تعلق رکھنے والے کالم نگار نسیم بخاری 20 جنوری 2016 کو سندھی روزنامے عبرت میں شائع ہونے والے اپنے کالم ”آئیں ایک محسن کو یاد کریں“ میں لکھتے ہیں کہ:
”ایک بار رائے بہادر کی والدہ بیمار ہوگئیں۔ شکارپور میں علاج کی مناسب سہولتیں میسر نہ ہونے کی وجہ سے ان کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ شکارپور میں ایک اچھا ہسپتال ہونا چاہیے، اسی بنیاد پر انہوں نے شکارپور ہسپتال کی تعمیر کا ڈول ڈالا۔“
ہسپتال کی تعمیر کے پس منظر میں ایک ہی جذبہ کار فرما تھا اور وہ تھا انسان دوستی کا۔ معروف دانشور ڈاکٹر انور فگار کے مطابق یہی وجہ تھی کہ 30 اپریل 1933 میں ہسپتال کا سنگ بنیاد رکھنے کے بعد ہسپتال کی تعمیر و ترقی میں انہوں نے اپنا تن، من، دھن سب وقف کر دیا۔
ایک طرف تو تقسیم ہند کے معاملات عروج پر تھے تو دوسری جانب اُدھو داس ہسپتال کے لیے سندھ میں انہیں چندے کے حصول میں دشواری کا سامنا تھا۔ اسی سلسلے میں انہوں نے اپنا رخ بمبئی کی جانب کیا اور وہیں چل بسے۔ اپنے ہسپتال کے لیے چندہ جمع کرنے والے اُدھو داس کی موت ان جیسے کسی اور سماجی کارکن کے نام سے منسوب ہسپتال میں ہوئی۔ اُدھو داس ہسپتال شکارپور کے باہر آویزاں دو انگریزی اور ایک سندھی تختیوں پر ایک سا ہی مضمون درج ہے۔ جس کا متن یوں ہے:
”سرگواسی، رائے بہادر اُدھو داس تارا چند 73 برس کی عمر میں اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ اس قربانی کے مجسمے نے شکارپور میں اپنے ہسپتال روپی مندر پر اپنی جان قربان کی۔ صاحب اس ہسپتال کے لیے چندہ جمع کرنے بمبئی گئے، جہاں طویل جدوجہد اور جانفشانی کے باعث بیمار ہوگئے اس لیے انہیں سر ہری کشن ہسپتال علاج کے لیے منتقل کیا گیا۔ جہاں 17 جنوری1943 وہ یہ جہان چھوڑ گئے۔“
اُدھو داس کے اس نیک کام میں ہندوؤں کے علاوہ مسلمان بھی شامل تھے گو کہ ان کی تعداد ہندوؤں کے مقابلے میں بہت کم تھی۔ ان مسلمانوں میں نمایاں نام لیڈی نصرت حاجی عبداللہ ہارون کا ہے جنہوں نے ہسپتال کے لیے 7000روپے کا چندہ دیا۔ خان بہادر عبدالستار آف کوئٹہ نے ایک ہزار روپے، حاجی مہربخش مولا بخش اینڈ سنز کراچی والا نے پانچ سو روپے کا عطیہ دیا۔ لیڈی نصرت حاجی عبداللہ ہارون کے نام سے ہسپتال کے داخلی دروازے کے دائیں جانب ایک قدیم عمارت موجود تھی۔ یہ عمارت میں نے دیکھی تھی لیکن اب اس عمارت کو مسمار کر دیا گیا ہے۔
آئیے اب ذکر کرتے ہیں اُدھو داس کے مجسمے کا۔
یہ مجسمہ سفید سنگ مرمر کا بنا ہوا تھا جو ان کی خدمات کے صلے میں ہسپتال کے بیرونی دروازے کے چبوترے پر لگایا گیا تھا۔ ضمیر اعوان کے مطابق مجسمے کو سب سے پہلے اس وقت نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی جب مسجد منزل گاہ کا واقعہ شروع ہوا۔ شر پسندوں کی نظریں اُدھو داس کے مجسمے پر تھیں کہ کسی بھی طرح اس مجسمے کو زمین بوس کیا جائے، اس لیے مجسمے کو سفید رنگ کے کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا۔
تقسیمِ ہند کے بعد اس مجسمے پر وقتاً فوقتاً کئی حملے ہوتے رہے۔ حملہ آوروں کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ کسی بھی طرح مجسمے کے ناک کان کاٹے جائیں، لیکن اس حوالے سے انہیں کوئی خاص کامیابی نہیں ہوئی۔ مجسمے کو مسمار کرنے کا آخری حملہ 1979 میں ہوا۔ شکارپور کے مقامی صحافی زاہد نون کے مطابق ایک مذہبی تنظیم کی جانب سے شکارپور میں ایک ریلی منعقد کی گئی۔ ریلی کے شرکاء کے ہاتھوں میں مختلف قسم کے آہنی اوزار تھے ان افراد نے مجسمے پر ہلا بول دیا اور بالآخر مجسمے کو گرا کر دم لیا۔
بعدِ ازاں یہ مجسمہ غائب ہوگیا لیکن اب یہ سندھالوجی ڈپارٹمنٹ سندھ یونیورسٹی جامشورو میں موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ مجسمہ وہاں کب، کیوں اور کیسے پہنچا۔ اس حوالے سے معلومات کے لیے ہم نے ڈپارٹمنٹ کے سابق چیئرمین محمد قاسم ماکا سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ مجسمہ ڈاکٹر غلام علی الانا کے دور میں لایا گیا تھا، بہتر ہے کہ ان سے بات کی جائے۔ غلام علی الانا صاحب سے رابطہ ایک ہفتے بعد ہوسکا۔ جب ہم نے انہیں بتایا کہ ہم رائے بہادر ادھو داس کے مجسمے کے حوالے سے بات کرنا چاہتے ہیں تو وہ بہت خوش ہوئے اور انہوں نے مجسمے کی سندھالوجی منتقلی کی کہانی یوں بیان کی:
”یہ غالباً 81-1980 کی بات ہے، مجھے شکارپور سے کسی صاحب نے فون کیا۔ مجھے ان کا نام یاد نہیں لیکن وہ ذات کے آغا تھے۔ انہوں نے بتایا کہ شکارپور کے ہسپتال کے باہر اُدھو داس کے مجسمے پر ایک مذہبی تنظیم کے لوگوں نے حملہ کر کے اس کی گردن اُڑا دی اور ہاتھ پیر توڑ دیے، برائے مہربانی اس مجسمے کو سندھالوجی منتقل کر کے اس کی اصل شکل میں بحال کریں۔
"میں نے محکمے کے کچھ دوستوں کے تعاون سے مجسمے کو، جو بہت ہی شکستہ حالت میں تھا، سندھالوجی منتقل کر دیا۔ منتقل کرنے کے بعد بھی مجھے ایک خوف یہ تھا کہ ہوسکتا ہے کہ اس مجسمے پر سندھالوجی میں بھی حملہ ہوجائے۔ ہم نے مجسمے کو روشن شاہ راشدی میوزیم میں ایک دروازے کے پیچھے رکھ کر کپڑے سے ڈھانپ دیا تاکہ کوئی اسے دیکھ نہ پائے۔
"جب بھی میوزیم میں کوئی پروگرام ہوتا تھا تو ہم اس حوالے سے خاصے محتاط ہوتے تھے کہ کوئی اس طرف نہ جا پائے۔ ایک بار معروف قانون دان اے کے بروہی سندھالوجی کے دورے پر تشریف لائے۔ بروہی کے ضیاء الحق سے خصوصی مراسم تھے۔ یہ 1980 کی بات ہے۔ ہم نے ان کو میوزیم کا دورہ کروایا اور پوری کوشش کی کہ کپڑے میں ڈھکا مجسمہ ان کو نظر نہ آئے لیکن قسمت نے ہمارا ساتھ نہ دیا۔ بروہی کی نظر کپڑے سے ڈھکے مجسمے پر پڑ گئی۔ وہ مجھ سے بولے یہ کیا چھپایا ہے؟ مجھے دکھاؤ۔
"میں نے کہا آپ سے اور مذہبی جماعتوں سے ڈر لگتا ہے۔ انہوں نے کہا میں ہر صورت میں دیکھنا چاہوں گا۔ مجبوراً مجسمے سے کپڑا ہٹایا گیا۔ وہ مجسمے کی حالت دیکھ کر خاصے رنجیدہ ہوئے اور بولے یہ تو اُدھو داس ہے۔ یہ تو بہت عظیم انسان تھے۔ ان کے مجسمے کو جلد از جلد اصلی شکل میں بحال کرو۔ اس کے اخراجات میں ادا کروں گا۔ ان کے اس فرمان کے بعد ہم نے مجسمے کی بحالی کی ذمہ داری عظیم چانڈیو اور علی نواز پھلپوٹو کو سونپ دی۔
"ایک اور اہم بات یہ کہ ضیاء الحق کے دور میں سندھ کے ایک صوبائی وزیر صحت احد یوسف جو میری بڑی عزت کرتے تھے مجھ سے ملنے آئے اور کہا آپ سے ایک مشورہ کرنا ہے۔ احد یوسف نے بتایا کہ مذہبی تنظیموں کی جانب سے ان پر دباؤ ہے کہ رائے بہادر اُدھو داس ہسپتال کا نام تبدیل کیا جائے۔
غلام علی الانا کے مطابق "مجھ پر ایک لمحے کے لیے سکتہ طاری ہوگیا۔ میں نے احد یوسف کو کہا ایک شخص جس نے ہسپتال کی تعمیر کے لیے اپنی جان قربان کی، اب اس کے نام سے منسوب ہسپتال کا نام بھی بدلا جائے گا۔ تمہارے پاس اختیار ہے تم یہ کرسکتے ہو۔ لیکن یاد رکھو تاریخ میں تمہیں کبھی بھی اچھے لفظوں سے یاد نہیں کیا جائے گا۔ احد یوسف خاموشی سے چلے گئے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ میری گفتگو تھی یا کوئی اور وجہ، احد یوسف نے ہسپتال کا نام تبدیل نہیں کیا۔"
اب ہمیں تلاش تھی عظیم چانڈیو صاحب کی۔ ان کا نمبر غلام علی الانا صاحب کے پاس نہ تھا۔ انہوں نے ہماری معلومات میں یہ اضافہ کیا کہ وہ کراچی میں رہتے ہیں، شاید محکمہ ثقافت والوں کو ان کے بارے میں معلوم ہو۔ ہم نے محکمہ ثقافت سے وابستہ محمد علی قادری سے رابطہ کیا تو انہوں نے عظیم چانڈیو صاحب کے بھتیجے جمیل چانڈیو کا نمبر دیا، اور بالآخر جمیل کے ذریعے عظیم چانڈیو صاحب سے رابطہ ہوا۔ چانڈیو صاحب نے مجسمے کی منتقلی کی کہانی یوں بتائی:
”جب میں مجسمے کی باقیات کے حصول کے لیے شکارپور پہنچا تو کوئی یہ بتانے کو تیار نہ تھا کہ رائے بہادر کا مفتوحہ مجسمہ کہاں ہے۔ ہسپتال سے نکل کر میں میونسپل کمیٹی کے دفتر پہنچا۔ وہاں بھی معلومات حاصل کرنا بے سود رہا۔ اس دوران میں نے ایک بات نوٹ کی کہ میرے ہمراہ ملازمین دانستہ طور پر مجھے ایک حصے میں جانے سے روک رہے ہیں۔ میں نے اصرار کیا تو وہ نہ چاہتے ہوئے مجھے وہاں لے گئے، لیکن وہاں کچھ بھی نہ تھا۔
”میرے ہمراہ ملازمین ایک کمرے کے سامنے اس طرح کھڑے ہوگئے کہ کمرہ میری نظروں سے اوجھل رہے۔ میں نے ان سے پوچھا اس کمرے میں کیا ہے؟ انہوں نے بتایا یہ کاٹھ کباڑ کے لیے ہے۔ میں نے کہا اسے کھولا جائے۔ بادلِ ناخواستہ انہوں نے کمرہ کھولا۔ کمرے میں کاٹھ کباڑ تو نہیں تھا، لیکن ایک کے بجائے دو مجسمے تھے (دوسرے مجسمے کا ذکر شکارپور کی اگلی کہانی میں کریں گے)۔ یہ مجسمے بہت شکستہ حالت میں تھے۔ کسی کی گردن الگ تھی تو کسی کا ہاتھ یا پیر۔ لیکن دونوں مجسموں میں ایک بات مشترک تھی ان کے ناک اور کان کٹے ہوئے تھے اور ان کے چہروں پر کالک ملی ہوئی تھی۔
”خیر میں یہ مجسمے لے کر جامشورو آگیا۔ اگلا مرحلہ اُدھو داس کے مجسمے کی بحالی کا تھا۔ یہ ایک انتہائی مشکل کام تھا لیکن مجھے ہر صورت کرنا تھا۔ سب سے پہلے میں نے مجسمے کا پورا ناپ لے کر ٹوٹے ہوئے ٹکڑوں کی تعداد لکھی۔ دوسرا مرحلہ اس کیمیکل کا حصول تھا جس کی مدد سے مجسمے پر خصوصاً چہرے پر تارکول اور دیگر محلولوں کے ذریعے جو کالک ملی گئی تھی اسے صاف کیا جائے۔ میں نے یہ تمام چیزیں جمع کرنے کے بعد مجسمے کی بحالی کے کام کا آغاز کیا۔ مجھے سب سے زیادہ مشکل اس کے ناک اور کان جوڑنے میں پیش آئی۔ یہ اتنی صفائی اور جذبہ ایمانی سے کاٹے گئے تھے کہ بڑی مشکل سے جُڑ پائے۔“
جب ہم نے عظیم چانڈیو صاحب کو بتایا کہ مجسمے کے ایک ہاتھ میں تو کوئی دستاویز ہے لیکن دوسرا ہاتھ کلائی سے الگ ہے، تو انہوں نے بتایا کہ اُدھو داس کے ایک ہاتھ میں جو دستاویز ہے وہ رائے بہادر کا اعزاز ملنے کی سند ہے۔ جہاں تک دوسرا ہاتھ کلائی سے غائب ہونے کا تعلق ہے تو جب انہوں نے مجسمہ بحال کیا تھا تو اس کی صرف ایک انگلی ٹوٹی ہوئی تھی، کلائی کیسے غائب ہوئی، شاید ایک بار پھر کسی نے جذبہ ایمانی سے مغلوب ہو کر توڑ دی ہوگی۔
ہمیں یہ معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ مجسمے کی سندھالوجی میں منتقلی کی صحیح تاریخ کیا ہے۔اس سلسلے میں ہمارے دوست ذوالفقار ہالیپوٹو نے ہماری مدد کی اور سندھالوجی کے موجودہ چیئر مین سعید منگی کا نمبر دیا۔ سعید منگی نے رابطہ کرنے پر ہمیں بتایا کہ ادھو داس کا مجسمہ 20 مارچ 1980 کو سندھالوجی منتقل کیا گیا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ رائے بہادر بہت زیرک اور باشعور شخص تھے۔ غالباً ان کی چھٹی حس نے انہیں آگاہ کر دیا تھا کہ مستقبل میں ان کے مجسمے کے ساتھ کیا ہوگا۔ انہوں نے اس مسئلے کا حل یوں نکالا کہ ہسپتال میں آنے والے مریض جب ہسپتال میں داخل ہوتے ہیں، تو انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ جن سیڑھیوں پر پیر رکھتے ہوئے ہسپتال میں داخل ہوتے ہیں وہاں رائے بہادر ادھو داس کا نام لکھا ہوا ہے۔
مذہبی جماعت والوں نے رائے بہادر کا مجسمہ تو گرا دیا لیکن زمین پر لکھا ہوا نام رہنے دیا۔ ہندو کا نام اگر پیروں تلے آ رہا ہے تو کیا مضائقہ ہے بس اس کا مجسمہ نہیں ہونا چاہیے۔ دواؤں کی ایک کمپنی نے ہسپتال کو کچھ اور دیا ہو یا نہ دیا ہو، لیکن اندرونی دروازے کے اوپر کلمہ طیبہ کا بورڈ لگا کر کمپنی کا نام لکھ دیا ہے۔ اس تختی کے اوپر ادھو داس کے اپنے سندھی اشعار تحریر ہیں، جس کا اردو میں ترجمہ کچھ اس طرح سے ہے:
سب کے دکھ دور کر، سب کا کر کلیان
آہیں دکھیوں کی سن کر رب ہوا مہربان
معاف کر میرے مالک، عیب بھرا انسان
عرض ادھو کی سن، دے تندرستی دان
ہسپتال پر لگی تختیاں حالات کی دھند میں دھندلی ہوتی جا رہی ہیں۔ رائے بہادر ادھو داس کا مجسمہ جس چبوترے پر نصب تھا، اس کے نیچے سندھی میں ان کے یہ اشعار درج ہیں:
”دُکھی بیمار آتے ہیں، سکھی ہو کر گھر جاتے ہیں
روتے چلاتے آتے ہیں، دعائیں کرتے جاتے ہیں
پجاری بن کر میں بیٹھوں، اسی مندر کی سیڑھی پر
دُکھی بیمار جو آئیں، بٹھاؤں ان کو آنکھوں پر۔“
واقعی اُدھو داس مندر کی سیڑھی پر پجاری بن کر بیٹھے ہیں۔ ہسپتال میں آنے والا ہر مریض اور تیماردار ان کے نام پر پیر رکھتے ہوئے ہسپتال میں داخل ہوتا ہے۔ لیکن اب شکارپور کے ہندو باسیوں اور ان کی سماجی تنظیموں نے اپنا طریق کار بدل لیا ہے۔ شکارپور کے ایک مندر میں چیزیں دان کرنے والوں کے نام زمین پر نہیں آسمان پر لکھے ہوئے ہیں۔ آسمان کا سن کر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، اس مندر کی چھت پر جو پنکھے لگائے گئے ہیں، دان کرنے والوں کے نام ان پر لکھ دیے گئے ہیں۔
بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے
تبصرے (28) بند ہیں