عزیر بلوچ 90روز کیلئے رینجرز کے حوالے
کراچی: لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ کو سندھ رینجرز نے گرفتار کرکے عدالت میں پیش کر دیا.
عذیر بلوچ کو سندھ ہائی کورٹ میں انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کے منتظم جج فاروق شاہ کی عدالت میں پیش کیا گیا.
لیاری گینگ وار کے سرغنہ کی عدالت میں پیشی کے موقع پر میڈیا پر ہائی کورٹ کے احاطے میں ویڈیو بنانے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی.
رینجرز کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ کی بنیاد پر عزیر بلوچ کو 90 روز کے ریمانڈ پر رینجرز کے حوالے کر دیا گیا.
قبل ازیں رینجرز کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز کے مطابق عزیر بلوچ کی گرفتاری کے لیے رات گئے کراچی کے مضافاتی علاقے میں ٹارگٹڈ کارروائی کی گئی، جس وقت لیاری گینگ وار کے سرغنہ کو گرفتار کیا گیا اس وقت وہ کراچی میں داخل ہو رہے تھے.
بیان میں مزید کہا گیا کہ عذیر بلوچ سے اسلحہ بھی برآمد ہوا.
مزید پڑھیں:عزیر بلوچ کون ہے؟ ایک تعارف
واضح رہے کہ عزیر بلوچ کو لیاری گینگ وار کا مرکزی کردار کہا جاتا ہے اور ان پر کراچی کے علاقے لیاری کے مختلف تھانوں میں قتل، اقدام قتل اور بھتہ خوری سمیت دیگر جرائم کے درجنوں مقدمات درج ہیں۔
عذیر بلوچ 2013 میں حکومت کی جانب سے ٹارگٹ کلرز اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن شروع ہونے پر بیرون ملک فرار ہوئے تھے، حکومت سندھ متعدد بار عذیر جان بلوچ کے سر کی قیمت مقرر کر چکی ہے جبکہ اس کے عدالت میں پیش نہ ہونے پر ریڈ وارنٹ بھی جاری ہو چکے ہیں۔
پولیس کو مطلوب عزیر بلوچ کو مسقط سے بائے روڈ جعلی دستاویزات پر دبئی جاتے ہوئے انٹر پول نے 29دسمبر 2014 کو گرفتار کیا تھا۔
مزید پڑھیں : عزیر بلوچ دبئی میں گرفتار
عزیر بلوچ کو پاکستانی حکومت کے حوالے کرنے کے لیے سندھ پولیس کے ایس ایس پی انویسٹی گیشن نوید خواجہ کی سربراہی میں ایس ایس پی سی آئی ڈی عثمان باجوہ، ڈی ایس پی کھارادر زاہد حسین پر مشتمل ٹیم دبئی گئی تھی، تاہم وہ خالی ہاتھ واپس آگئی تھی۔
دوسری جانب وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے گذشتہ برس اگست میں عذیر بلوچ کے ساتھ کسی قسم کے رابطے کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ عذیر بلوچ کو نہیں جانتے.
قائم علی شاہ کا کہنا تھا، 'عذیر بلوچ کو دبئی میں گرفتار کیا گیا، پھر ہماری پولیس ٹیم اسے اپنی حراست میں لینے کے لیے وہاں گئی لیکن چند نامعلوم وجوہات کی بنا پر ایسا ممکن نہیں ہوسکا. اب میں نہیں جانتا کہ وہ دبئی میں ابھی بھی گرفتار ہے یا اُسے رہا کیا جاچکا ہے'
عزیر بلوچ کو پاکستان واپس کب لایا گیا، اس حوالے سے اب تک کچھ واضح نہیں ہوسکا۔
عزیر نے 2001 کے انتخابات میں لیاری کے ناظم کی حیثیت سے سیاست میں اپنی قسمت آزمانے کی کوشش کی لیکن انہیں پیپلز پارٹی کے کٹر کارکن حبیب کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
مزید پڑھیں:عزیر بلوچ کو پاکستان لانے کی اجازت مل گئی
ٹرانسپورٹر فیض محمد عرف فیضو ماما کے بیٹے عذیر نے 2003 میں محمد ارشد عرف ارشد پپو کے ہاتھوں اپنے والد کے قتل کے فوراً بعد جرائم کی دنیا میں قدم رکھ دیا تاکہ اپنے والد کے قتل کا بدلہ لے سکیں۔
ارشد پپو، عزیر بلوچ کے کزن عبدالرحمٰن عرف عبدالرحمٰن ڈکیت کے حریف سمجھے جاتے تھے۔
عبدالرحمٰن اور ارشد پپو گینگ کے درمیان لیاری میں منشیات اور زمین پر ایک طویل عرصے تک گینگ وار جاری رہی۔
عدالت میں والد کے مقدمے کی پیروی کے دوران عزیر بلوچ کو ارشد پپو گینگ سے دھمکیاں موصول ہوئیں جس پر عبدالرحمٰن ڈکیت نے انہیں اپنے گینگ میں شامل کر لیا۔
اس حوالے سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ عزیر نے ابتدائی طور پر رحمٰن کے گینگ میں شمولیت سے انکار کردیا تھا لیکن جیسے ہی انہیں اس بات کا ادراک ہوا کہ دونوں کا دشمن مشترک ہے تو انہوں نے رحمٰن کے گینگ میں شمولیت اختیار کر لی۔
پولیس ان کاؤنٹر میں عبدالرحمٰن ڈکیت کی موت کے بعد عزیر گینگ میں مرکزی کردار کے طور پر ابھر کر سامنے آئے اور تمام گینگ کے باہمی اتفاق رائے سے بلامقابلہ گینگ کے نئے سربراہ مقرر ہوئے۔
غیر اعلانیہ طور پر پیپلز امن کمیٹی سے وابستگی رکھنے والی پاکستان پیپلز پارٹی 2012 تک عزیر بلوچ کو تحفظ فراہم کرتی رہی لیکن اس موقع پر حالات نے کروٹ لی۔
ٹپی کے نام سے مشہور اویس مظفر لیاری سے انتخابات میں حصہ لینا چاہتے تھے لیکن عزیر بلوچ نے ان کی اس خواہش کو مسترد کردیا، اس موقع پر پیپلز پارٹی اور امن کمیٹی کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے اور نتیجتاً ہنگامی بنیادوں پر اپریل 2012 میں آپریشن شروع کردیا گیا جو مقامی لوگوں اور اندرونی ذرائع کے مطابق مکمل سیاسی مقاصد کی وجہ سے کیا گیا۔
ایک ہفتے یہ آپریشن ختم کردیا گیا اور پیپلز پارٹی کو عزیر کے مطالبات کے آگے سرخم تسلیم کرنا پڑا، عذیر نے مطالبہ کیا تھا کہ 2013 کے عام انتخابات میں ان کے منتخب کردہ امیدواروں کو پیپلز پارٹی ٹکٹ دے گی۔
تاہم اگر لیاری میں ان کی موجودگی کی بات کی جائے تو ذرائع کے مطابق اندرونی طور پر مستقل جاری لڑائیوں کے باعث یہ مختلف دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے اور پیپلز امن کمیٹی کا اب کوئی وجود نہیں۔
عزیر بلوچ دہشتگردی، قتل اور بھتہ سمیت 20 سے مقدمات میں مطلوب تھے لیکن جو کارروائی انہیں انہیں منظر عام پر لے کر آئی وہ سپریم کورٹ کی جانب سے لیا گیا سوموٹو نوٹس تھا جو اعلیٰ عدلہ نے عذیر کے ارشد پپو قتل کیس میں ملوث ہونے پر لیا۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔
تبصرے (2) بند ہیں