حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا
'یار آزاد صاحب اب آپ کی صحت کافی بہتر نظر آ رہی ہے اور آپ کی کمی کو شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے. آپ واپس آ جائیں تو میری بہت سی پریشانیاں کم ہو جائیں گی۔'
'نہیں یارا ۔۔ ابھی فوری طور پر تو ممکن نہیں، کیمو کا 14واں سیشن ابھی ہوا ہے. جو وزن کم ہو کر 37 کلو پر آ گیا تھا اب واپس 62 کلو ہو گیا ہے، مگر اب بھی شدید تکلیف ہے، جس کی وجہ سے واپس جوائن نہیں کر سکتا۔ مجھے خود بھی ابھی بہت کچھ کرنا ہے مگر بیماری اور تکلیف کی وجہ سے کچھ بھی نہیں کر پا رہا۔'
یہ الفاظ آزاد قلمدار نے 23 دسمبر 2015 کو ایک تقریب میں ملاقات کے دوران مجھ سے کہے۔ اگرچہ آزاد قلمدار تکلیف میں ضرور تھے مگر ان کی صحت میں بہتری کے آثار سے ہمیں یقین ہو چلا تھا کہ بہت جلد اپنے دوست سید امتیاز احمد جسے دنیا 'آزاد قلمدار' کے نام سے جانتی ہے، کا شمار ان لوگوں میں کرنے لگیں گے، جنہوں نے واقعی میں کینسر کو شکست دی۔
لیکن یہ بات وہم و گمان میں بھی نہیں تھی کہ ٹھیک ایک ماہ بعد 23 جنوری 2016 کو آزاد قلمدار کچھ کر دکھانے کی بہت سی حسرتیں اور منصوبے دل میں ہی لیے اس دنیا سے رخصت ہو جائے گا۔ آزاد جو کچھ کرنا چاہتا تھا، اگر اس پر بات کی جائے تو کئی صفحات بھرے جا سکتے ہیں کیونکہ وہ شخص نہیں بلکہ خیالات اور منصوبوں کا ایک سمندر تھا۔ وہ ایک آزاد سوچ کا مالک تھا جس کے لیے رنگ، نسل، مذہب اور سرحدیں کوئی معنی نہیں رکھتی تھیں۔
دیگر سینکڑوں لوگوں کی طرح آزاد بھی پاکستان اور ہندوستان کے لوگوں کو قریب لانے کے خواہشمند تھے مگر انہوں نے اس کے لیے عملی طور پر کچھ منفرد کرنے کی ٹھان رکھی تھی اور اسی جہدوجہد میں وہ ہر وقت مصروف رہتے تھے۔
آزاد قلمدار کا ماننا تھا کہ دونوں ملکوں کے لوگ ایک دوسرے کی بولی سمجھتے تو ہیں، مگر ہندوستان کے رہنے والے اردو کا نستعلیق خط نہیں پڑھ سکتے اور پاکستان کے رہنے والے ہندی. اس لیے دونوں کو قریب لانے کے لیے ہمیں رسم الخط بھی ایسا چاہیے جسے دونوں جانب کے لوگ سمجھتے ہوں اور ایک دوسرے کی لکھی ہوئی تحریریں بھی پڑھ سکیں۔ اسی منصوبے کے تحت انہوں نے 'ہماری بولی' کے نام سے ایک پروجیکٹ شروع کیا اور آخری ملاقات میں بھی وہ اسی کے حوالے سے پریشان دکھائی دے رہے تھے۔
آزاد قلمدار نے ہر پلیٹ فارم پر زبان کو آسان بنانے کے لیے نا صرف آواز اٹھائی بلکہ اس کے لیے عملی طور پر بھی اقدامات کیے۔
ہماری بولی کے حوالے سے آزاد کا کہنا تھا کہ اردو اور ہندی دو الگ الگ نہیں بلکہ ایک ہی زبان یعنی 'ہندوستانی' ہے جو کہ دو الگ الگ ناموں سے رجسٹرڈ ہے. اس لیے اردو اور ہندی کے الفاظ پر مشتمل ایک رومن رسم الخط بھی ہونا چاہیے جسے پاکستان اور ہندوستان دونوں میں بسنے والے لوگ سمجھ سکیں۔
بہت سے لوگ شاید آزاد کی اس بات سے اختلاف کریں مگر اس کا مقصد صرف لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنا تھا۔ وہ اس خیال کے حامی تھے کہ زبان کو تحفظ کے نام پر مشکل بنائے رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں اگر لوگ اس کو سمجھنے میں دشواری محسوس کرتے ہوں.
آزاد نے 2009 میں علی مظفر جعفری کے ساتھ مل کر پاکستان اوپن نالج فاؤنڈیشن قائم کی اور اس کے تحت پاکستان کی پہلی مفت انگلش سے اردو کی (آن لائن اور آف لائن) ڈکشنری لانچ کی۔ آزاد نے کبھی ان منصوبوں کو کمائی کا ذریعہ بنانے کی بات نہیں کی اور ہمیشہ کہا کہ وہ وکی پیڈیا کی طرح اپنے تمام منصوبوں کو مفت رکھیں گے۔
اپنی انتھک محنت سے آزاد قلمدار نے ڈان بلاگز کو بہت کم وقت میں ایک منفرد پہچان دی۔ ڈان اردو کے بلاگز ایڈیٹر کی حیثیت سے ان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ ہر معاشرتی، سیاسی، مذہبی اور تاریخی مسئلے پر بلاگز ڈان کے پلیٹ فارم سے شائع کیے جائیں، تاکہ قلمکاروں کی آواز اور خیالات زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ سکیں۔ انہوں نے بلاگز کا طرزِ تحریر اردو اخبارات کے روایتی کالم کی طرز سے ہٹ کر ترتیب دیا، جس میں مقصدیت، اختصار، زبان کی سادگی، اور ہر بات ٹھوس شواہد کے ساتھ پیش کرنے کو ملحوظِ خاطر رکھا، جسے سنجیدہ طبقوں میں بے حد پذیرائی حاصل ہوئی۔
ڈان کی اردو ویب سائٹ کے مدیر کی حیثیت سے مجھے تقریباً ڈیڑھ سال تک ان کے ساتھ کام کا موقع ملا اور بہت ہی کم وقت میں قائم ہونے والے اس بہترین تعلق میں میں نے آزاد قلمدار کو ایک بہترین دوست کے ساتھ ساتھ بے انتہا تخلیقی سوچ کا حامل شخص پایا۔
آزاد سے تعلق رکھنے والے دیگر کئی لوگوں کی طرح ڈان ڈاٹ کام سے وابستہ تمام افراد کے لیے آزاد کی وفات کی خبر انتہائی تکلیف دہ تھی۔ ڈان کی ویب سائٹ کے لیے ان کی خدمات قابل قدر ہیں اور انہیں ہمیشہ پیشہ وارانہ مہارت رکھنے والے ساتھی اور ایک مخلص دوست کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
تبصرے (8) بند ہیں