سانحہ چارسدہ: جب اساتذہ کو ہتھیار اٹھانے پڑے
چارسدہ: خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ کی باچا خان یونورسٹی پر دہشت گردوں کے بزدلانہ حملے نے جہاں سانحہ پشاور کی یاد تازہ کی، وہیں حملے کے دوران اپنی جان کی پروا کیے بغیر طلبہ کی جان بچانے کے لیے اساتذہ کی قربانیوں کی کئی داستانیں بھی رقم کرگیا۔
اسی طرح کی ایک تلخ یاد باچا خان یونیورسٹی کے ڈائریکٹر محمد شکیل کے ساتھ بھی جڑ گئی، جو حملے کے دوران 15 طلبہ کے ہمراہ عمارت کی تیسری منزل پر پھنس گئے۔
حملے دوران محمد شکیل نے جب حملہ آوروں کو اوپر کی جانب آتے دیکھا تو قریب موجود ایک پولیس اہلکار سے درخواست کی کہ وہ انہیں ایک بندوق دے دیں، تاکہ وہ دہشت گردوں کے خلاف مزاحمت کرسکیں۔
یہ بھی پڑھیں : چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی پر حملہ، 20 ہلاک
محمد شکیل اُس وقت پیش آنے والے حالات و واقعات کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ہم غیر مسلح اور چھپے ہوئے تھے، مجھے بچوں کی بہت فکر ہورہی تھی اور اسی دوران ایک حملہ آور ہمارے قریب آگیا۔
انہوں نے بتایا کہ اس نازک موقع پر میرے بار بار درخواست کرنے پر پولیس اہلکار نے میری جانب ایک بندوق پھینک دی جس سے میں نے حملہ آور پر کچھ فائر کیے۔
واضح رہے کہ دو روز قبل چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی پر 4 دہشت گردوں کے حملے کے نتیجے میں یونیورسٹی کے عملے کے 2 ارکان سمیت 20 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
یونیورسٹی کے حفاظتی گارڈز اور دیگر سیکیورٹی اداروں کی کارروائی کے بعد چاروں حملہ آوروں کو ہلاک کردیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں : چارسدہ حملے کی اہم معلومات مل گئیں، فوج
دہشت گردوں کے حملے میں شعبہ کیمسٹری کے پروفیسر حامد حسین بھی طلبہ کو بچاتے ہوئے جان کی بازی ہارے.
شعبہ انگریزی کے لیکچرار شبیر احمد خان کا کہنا تھا کہ حامد حسین نے حملے کے دوران طلبہ اور چند اساتذہ کے ہمراہ خود کو ایک کمرے میں بند کرلیا، لیکن جب حملہ آور کمرے کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے تو حامد حسین نے اپنی بندوق سے اُن پر چند راؤنڈز فائر کیے۔
شبیر احمد خان نے جان بچانے کے لیے قریبی واش روم میں پناہ لی تھی۔
وہ اُس اندوہناک لمحے کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ حملہ آور اندھا دھند فائرنگ کر رہے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ بس اب میری موت قریب ہے، لیکن پھر حملہ آور واش روم میں داخل ہوئے بغیر ہی واپس چلے گئے۔
حملے میں بچ جانے والوں نے میڈیا کو بتایا کہ بعد ازاں حامد حسین نے وہاں سے بچوں کو نکالنے کے لیے ایک بار پھر حملہ آوروں پر فائر کیے، تاہم پھر وہ حملہ آوروں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔
یہ بھی پڑھیں : سانحہ چارسدہ: مقدمہ ہلاک دہشت گردوں پر درج
یونیورسٹی پر حملے کے بعد یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ کیا اساتذہ کو مسلح ہونا چاہیے، کیونکہ یہ ان کے پیشے کے آداب اور اصولوں کے خلاف ہے۔
خیبر پختونخوا یونیورسٹی کی ٹیچنگ اسٹاف ایسویس ایشن کے صدر جمیل چترالی کا کہنا تھا کہ 'صوبے میں امن و امان کے مخدوش حالات کے پیش نظر اب کئی اساتذہ اپنے ساتھ بندوق رکھتے ہیں، لیکن یہ ہمارے شعبے کے آداب کے خلاف ہے، میں کلاس میں بچوں کو اصول اور اخلاقیات کا درس دیتا ہوں اس لیے میں کیسے اپنے ساتھ بندوق رکھ سکتا ہوں۔'
خیال رہے کہ دسمبر 2014 میں پیش آنے والے سانحہ پشاور کے بعد خیبر پختونخوا کے تعلیمی اداروں سے وابستہ اساتذہ کو اسلحہ چلانے کی تربیت دی گئی تھی، تاکہ وہ ایسے حالات میں اپنی حفاظت خود کرسکیں۔
یہ خبر 22 جنوری 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔
تبصرے (1) بند ہیں