• KHI: Maghrib 5:51pm Isha 7:08pm
  • LHR: Maghrib 5:12pm Isha 6:35pm
  • ISB: Maghrib 5:14pm Isha 6:39pm
  • KHI: Maghrib 5:51pm Isha 7:08pm
  • LHR: Maghrib 5:12pm Isha 6:35pm
  • ISB: Maghrib 5:14pm Isha 6:39pm
کتاب صرف حروف کا مجموعہ نہیں بلکہ نصابِ زندگی ہوتی ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ کس کتاب کو اپنی زندگی کا حصہ بناتے ہیں۔ — Creative Commons
کتاب صرف حروف کا مجموعہ نہیں بلکہ نصابِ زندگی ہوتی ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ کس کتاب کو اپنی زندگی کا حصہ بناتے ہیں۔ — Creative Commons
شائع January 19, 2016 اپ ڈیٹ September 6, 2017

شعور کے زینے پر قدم رکھتے ہی پہلا تعلق جس شے سے بنتا ہے، وہ کتاب ہے۔ مذہب، سیاست، معاشرت اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں کتاب ہی وہ واحد راستہ ہے جس سے ہو کر سب گزرے۔ کتاب نے تاریخ انسانی میں ذہن کے دریچوں کو کھولا اور افکار کی آبیاری کی۔ یہی وجہ ہے کہ کتاب سے انسان کا رشتہ پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہوا اور اب عہدِ حاضر میں یہ مراسم انسانی شعور کی ضرورت بن چکے ہیں۔

کتاب صرف حروف کا مجموعہ نہیں بلکہ نصابِ زندگی ہوتی ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ کس کتاب کو اپنی زندگی کے نصاب کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ یہ جستجو اور ضرورت کتابوں کی طرف لے جاتی ہے۔ رسمی تعلیم سے تخلیقی علم تک کتاب ہمارے ساتھ ہوتی ہے اور ہم اس سے اپنا طرزِ زندگی حاصل کرتے ہیں۔ زندگی کے ابتدائی دور سے ارتقائی مراحل تک، مشاہدے کی بلندی سے تخیل کی گہرائی تک، کتاب ہم سفر ہوتی ہے اور ہم خیال بھی۔

دنیا میں کتابوں کے ذریعے شعور حاصل کر لینے کی روایت پر انسان ہمیشہ سے عمل پیرا رہا، اور اب بھی موجودہ دور میں دنیا کی بہت ساری معروف شخصیات کتاب کے مطالعے کو اپنی زندگی کا لازمی جزو سمجھتی ہیں۔ اس شوق سے ان کے مزاج اور فکری پرواز کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

مغرب میں روز بروز ترقی کرتی ٹیکنالوجی کے باوجود کتب بینی کی مقبولیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی، اور آج بھی وہاں ایسی کتابیں شائع ہوتی ہیں جن کی فروخت کے اعداد و شمار لاکھوں میں ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے جیسے ترقی پذیر معاشروں میں جہاں ٹیکنالوجی کی آمد ابھی نیا واقعہ ہے، یہاں کتب بینی کے رجحان میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ کتاب کا پہلا ایڈیشن، جس کی تعداد پانچ سو یا ایک ہزار ہوتی ہے، اگر وہ فروخت ہوجائے، تو بڑی بات سمجھی جاتی ہے لیکن مغرب میں صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔

میں نے اس رویے کو سمجھنے کے لیے انتہائی باریک بینی سے مغربی شخصیات کے ذوق مطالعہ کا تجزیہ کیا اور مختلف ویب سائٹس پر موجود فہرستوں کو جانچا، معروف شخصیات کے انٹرویوز پڑھے اور اس ریاضت کے بعد 50 ایسی شخصیات کی فہرست مرتب کی، جن کا تعلق ہالی وڈ سے ہے۔

دنیا ان کو پسند کرتی ہے، مگر وہ کس طرح کی کتابیں پڑھنا پسند کرتے ہیں، اس لیے اس فہرست کو قلم بند کیا تاکہ ان کتابوں سے واقف ہوا جاسکے۔ اس فہرست میں موجود کتابوں کو پسند کرنے والی شخصیات کا تعلق ہالی وڈ کی فلمی صنعت سے ہے۔ ان میں 25 اداکار اور 25 اداکارائیں شامل ہیں۔ اس تحقیق کے مطابق درج ذیل فہرست میں شامل پچاس شخصیات کی پسندیدہ 50 کتابیں درج ذیل ہیں۔

اس فہرست کو مکمل نہیں کہا جاسکتا۔ ابھی بہت ساری شخصیات اور کئی مقبول کتابوں کا ذکر اس میں نہیں ہے، مگر ایک واضح اندازہ لگانے کے لیے یہ فہرست بہت معاون ثابت ہوگی۔ اس فہرست میں شامل کی گئی کئی کتابیں ایسی ہیں، جو ایک سیریز کی شکل میں لکھی گئیں، جیسا کہ ہیرسن فورڈ کی پسندیدہ کتاب ”رائڈرز اِن دی لوسٹ آرک“ ہے۔ اس کتاب کی تھیم پر مشہور زمانہ فلم ”انڈیانا جونز“ بنی اور پھر اس کے بھی کئی پارٹ بنائے گئے۔

اسی طرح نکولیس کیج کی پسندیدہ کتابوں میں ”سپرمین اِیکشن کومکس“ کی سیریز شامل ہے۔ ان کتابوں کی تھیم پر فلمیں، کارٹونز اور ویڈیو گیمز بھی بنائے گئے۔ بہت سارے اداکاروں کو کلاسیکی ادب پسند ہے، جس میں ایک بہت بڑی تعداد روسی ادب کے ماسٹرز کو پڑھنا پسند کرتی ہے، مثال کے طور پر جم کیری کے پسندیدہ ناول کا نام ”کرائم اینڈ پنشمنٹ“ ہے، جو روس کے معروف ادیب دوستوفوسکی کا شاہکار ہے۔

بہت سارے فنکار ایسے بھی ہیں، جن کو ایک سے زیادہ کتابیں پسند ہیں مگر یہاں ان کی صرف ایک پسندیدہ کتاب کو شامل کیا گیا ہے۔ ان میں جونی ڈیپ، ڈینیئل ریڈ کلف، کیٹ ونسلیٹ اور کیرا نائٹلی جیسے مطالعے کے رسیا لوگوں کے نام شامل ہیں۔

شوبز کے علاوہ دیگر شعبہ ہائے زندگی کی بھی بہت ساری معروف شخصیات ہیں، جن کو کتابوں سے بے حد لگاؤ ہے۔ ان میں سے چند ایک کی پسندیدہ کتابوں میں، امریکی صدر بارک اوباما کی پسندیدہ کتاب "سونگ آف سولومون“ جبکہ سابق برطانوی وزیراعظم اور سیاست دان گورڈن براؤن کی پسندیدہ کتاب ”دی سنیل اینڈ دی وہیل“ ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی پسندیدہ کتابوں میں سے ایک عمر خیام کی ”دی وائن آف دی وزڈم“ ہے۔

ہالی وڈ کے معروف ہدایت کار اور فلمساز اسٹیون اسپیل برگ کی پسندیدہ کتاب کا نام ”دی لاسٹ آف دی موہیکینز“ ہے، جس کی تھیم شمالی امریکا کے قدیم جنگجو قبیلے سے متعلق ہے۔ مقبول ترین میزبان لیری کنگ کی پسندیدہ کتاب ”دی بریس ورڈیکٹ“ ہے جبکہ معروف میزبان ”اوپرا ونفرے“ کی پسندیدہ کتاب ”دی فور ایگریمنٹس“ ہے۔

معروف برازیلن ادبیب پائلو کوہیلو کی پسندیدہ کتابوں میں سے ایک ”مکالمات افلاطون“ جبکہ فیس بک کے بانی ”مارک زکربرگ“ کی پسندیدہ کتاب ”دی اینیڈ“ ہے۔ معروف سائنسدان آئن اسٹائن کی پسندیدہ کتاب کا نام ”برادرکرامازوف“ تھا، جو روسی ماسٹر دوستوفوسکی کا شاہکار ناول ہے۔

ایپل کے بانی اسٹیو جابز کی پسندیدہ کتابوں میں سے ایک ”موبی ڈک“ جبکہ دنیا کے امیر ترین شخص اور مائیکروسوفٹ کے بانی بل گیٹس کی پسندیدہ کتابوں میں سے ایک ”دی کیچر اِن دی رِے“ ہے، یہ کتاب اور بھی بہت ساری مقبول شخصیات کی پسندیدہ کتاب ہے۔ ٹوئیٹر کے بانی ایوان ولیمز کی پسندیدہ کتاب ”دی پاور آف ون“ ہے۔

دنیا کی ایسی ہی اور کئی کتابیں ہیں، جن کی وجہ سے علم و حکمت کے خزینے انسانی اذہان میں اترتے ہیں اور انسان کی طرزِ زندگی یکسر تبدیل ہو کر رہ جاتی ہے، اگر ابھی تک آپ نے اس تبدیلی کا لطف نہیں لیا، تو ان شہرت یافتہ شخصیات کی کتابوں کا انتخاب آپ کے لیے پیش خدمت ہے، ان کتابوں کو کھولیے اور حیرت کدے میں داخل ہوجائیے۔


بلاگر فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے تبصروں سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

خرم سہیل

بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (4) بند ہیں

نجیب احمد سنگھیڑہ Jan 19, 2016 06:51pm
جب غم کے پہاڑ ٹوٹتے ہیں، جب دنیا کی بےوفائی سے دل بیزار ہو جاتا ہے، جب مخلص اور دکھ درد کو سمجھنے والا دوست چراغ لیکر بھی ڈھونڈنے سے نہیں ملتا، جب ہجوم میں تنہائی کا اثر حد سے بڑھ جاتا ہے، جب دکھ درد کی کہانی کا نتیجہ یار بیلیوں کے قہقوں کی صورت میں نکلتا ہو تو ایسے قیامت خیز وقت میں صرف کتاب ہی وہ واحد سہارا بچتا ہے، دل کو حوصلہ دیتی ہے، غم غلط کرتی ہے، امید کی کرن دکھاتی ہے۔ جہاں میں کوئی نہیں ہے اپنا یہ میں نے جانا یہ میں نے پرکھا سہارے بےآسرا ہیں سارے سہارا تیرے سوا نہیں ہے مجھ کو جو کتابیں پسند ہیں ان کی ایک طویل لسٹ ہے۔ چند کتابوں کے نام بطورنمونہ درج کر رہا ہوں۔“آپ سوچتے کیوں نہیں“ از شہزاد احمد۔“باتوں کی پیالی میں ٹھنڈی چائے“ از خُرم سہیل۔“ایک معاشی غآرت گر کی کہانی۔اسکی اپنی زبانی“ از جان پرکنز،مترجم پروفیسر ظفرالحسن پیرزادہ۔ “مائی سٹرگل“از ایڈولف ھٹلر۔مصنفین علی عباس جلالپوری،عبداللہ حسین،مظہرالاسلام، پروین شاکر، فرانز کافکا، چےگویرا،شہزاد احمد، ٹالسٹائی، فیودور دستوئیفسکی، میلان کنڈیرا، شوکت صدیقی، لینن،مارکس اور ماوزے تنگ کی کتابیں پسند ہیں کہ یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔
راشداحمد Jan 19, 2016 11:58pm
بہت اعلی ،عمدہ اور معلوماتی مضمون ڈان کا گوگل سلائیڈ جیسی نئی ٹیکنالوجی کا مثبت اور بھرپور استعمال کرنا بہت خوشکن عمل ہے۔ڈان اردو فروغِ اردو میں بھرپور کردار ادا کررہا ہے۔
سید مہتاب شاہ Jan 20, 2016 01:10am
محترم سہیل بھائی ماشااللہ،زبردست ،بہت ھی مفید اور معلوماتی تحریر آپ نے ہم تک پہنچائی ھے ،اللہ کرے زورِ قلم اور ذیادہ ،بہت ھی خوب
سید مہتاب شاہ Jan 20, 2016 01:20am
سہیل بھائی واقعی یہ ایک شاندارکام ھے آپ کا،گزارش یہ ھے کہ اگراسی طرح کاکام آپ لالی ووڈ کے حوالے سے بھی کوشش کریں تو بڑی مہربانی ھوگی،جانتا ہوں کہ یہ آپ کے متذکوہ کام سے گوکہ ذیادہ مشکل کام ھوگا لیکن آئندہ آنے والے سٹارزکیلیئے ایک نئی سوچ ضروردے جائیگا،شکریہ