• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

سینیٹ کمیٹی نیب کے اختیارات میں کمی پر متفق

شائع January 15, 2016

اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انصاف اور قانون نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے اختیارات میں کمی پر اتفاق کرلیا ہے، جس کے تحت نیب کا ادارہ صوبائی محکموں اور صوبائی معاملات میں دخل نہیں دے گا۔

تاہم کمیٹی کے چیئرمین محمد جاوید عباسی نے اس معاملے پر حمتی فیصلے کو 27 جنوری کو ہونے والے آئندہ اجلاس تک کے لیے ملتوی کردیا۔

سینیٹ میں قومی احتساب ترمیمی بل-2015 پیش کرنے والے پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے اجلاس کے بعد کہا کہ 'محمد جاوید عباسی کا رویہ بتارہا ہے کہ وفاقی حکومت صوبوں کو اپنے ماتحت رکھنا چاہتی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ نیب کے غیر قانونی اختیارات میں کمی کے لیے تیار نہیں'۔

مزید پڑھیں: وفاقی حکومت نے سندھ پر حملہ کیا: زرداری

ڈان سے بات کرتے ہوئے تاج حیدر کا کہنا تھا کہ اجلاس کے دوران نیب کے اختیارات میں کمی کے حوالے سے پیش کیے جانے والے بل پر اتفاق رائے قائم ہوگیا تھا لیکن معاملے کو آئندہ اجلاس تک کے لیے موخر کردیا گیا۔

انھوں نے کہا 'میں سمجھتا ہوں کہ سیاسی انتقام کے لیے احتساب قوانین کا غلط استعمال کرپشن کی اعلی ترین مثال ہے'۔

تاج حیدر کا مزید کہنا تھا کہ سیاست دانوں کی جانب سے کی جانے والی کرپشن سے کوئی انکار نہیں کررہا، لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ 'اسٹیبلشمنٹ کرپشن کا اصل سرچشمہ ہے'۔

کمیٹی کے اراکین کی اکثریت نے اتفاق کیا تھا کہ نیب کے قوانین کرمنل قوانین میں شمار نہیں ہوتے، جیسا کہ وزارت قانون کی جانب سے ذیلی کمیٹی کو پیش کیے گئے ایک بیان میں بتایا جارہا ہے۔

سینیٹر فاروق ایچ نائیک کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ 'ملک میں پینل قوانین اور کرمنل پروسیجر قوانین کے علاوہ کوئی مجرمانہ قانون موجود نہیں ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: 'کراچی آپریشن پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا'

انھوں نے کہا کہ آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاق کے قوانین صوبوں پر لاگو نہیں ہوتے۔

فاروق ایچ نائیک کا مزید کہنا تھا کہ وفاق کوئی ایسا قانون نہیں بنا سکتا جو آئین سے متصادم ہو۔

سینیٹر نے کہا کہ کمیٹی کے چیئرمین نے معاملے کو آئندہ اجلاس تک کے لیے اس لیے ملتوی کردیا کیونکہ (ن) لیگ کے سینیٹر راجہ ظفر الحق اجلاس میں موجود نہیں تھے۔

بابر اعوان نے کہا کہ پی پی پی کے گذشتہ دورِحکومت میں نواز شریف نے اپوزیشن لیڈر کے طور پر اس بات سے اتفاق کیا تھا کہ نیب کے قوانین سیاسی انتقام کے طور پر استعمال ہوتے ہیں، ساتھ ہی انھوں ںے وعدہ کیا تھا کہ وہ نیب قوانین منسوخ کردیں گے۔ 'لیکن حکومت میں آنے کے بعد وہ ان قوانین کا دفاع کررہے ہیں'۔

واضح رہے کہ گذشتہ اجلاس میں خیبر پختون خوا حکومت نے نیب کے اختیارات میں قانون سازی کے ذریعے کمی کرنے کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے موقف کی تائید کی تھی، تاکہ ان کرپشن کیسز پر نیب کارروائی کرنے سے گریز کرسکے، جو صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں.

خیبر پختون خوا حکومت کے ایک نمائندے کا کہنا تھا کہ نیب اُن مقدمات پر کارروائی عمل میں نہ لائے جو مکمل طور پر صوبائی محکموں اور عوامی دفاتر کے افسران کے حوالے سے ہوں اور یہ بھی کہ ہر صوبہ اپنے محکموں کے احتساب کے لیے خیبر پختون خوا کی طرز پر ادارہ تشکیل دے.

یاد رہے کہ سابق وزیر پیٹرولیم اور پیپلز پارٹی کے رہنما ڈاکٹر عاصم حیسن کی گشتہ سال نومبر میں گرفتاری کے بعد ایک نجی رکن کی جانب سے سینیٹ میں قومی احتساب ترمیمی بل-2015 پیش کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: 'ایک شخص کیلئے کراچی آپریشن متنازع بنایا جا رہا ہے'

یہ بھی یاد رہے کہ اِن دنوں ڈاکٹر عاصم مبینہ طور پر میگا کرپشن اسکینڈلز میں شمولیت کے الزام میں نیب کی حراست میں ہیں۔

مذکورہ بل کا مقصد قومی احتساب آرڈیننس 1999 کی مختلف دفعات میں ترمیم کرنا اور اس کے اختیارات کو وفاقی اداروں اور وزارتوں تک محدود کرنا ہے۔

یاد رہے کہ ابتدائی طور پر حکومت نے قرار داد کی مخالفت نہیں کی تھی اور اس کے چیئرمین کو اجازت دی تھی کہ وہ اس معاملے کو کمیٹی کے حوالے کردیں، لیکن اس وقت ایسا محسوس ہورہا ہے کہ حکومت اپوزیشن کے اس اقدام کی حمایت کرنے میں تذبذب کا شکار ہے۔

سیاسی ماہرین کا ماننا ہے کہ مذکورہ بل حکمران جماعت اور پی پی پی کے درمیان اختلافات کا سبب بنے گا جیسا کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے حکومت پر نیب کو سیاسی انتقام کے طور پر استعمال کرنے کا الزام لگایا جارہا ہے، جس میں خاص طور پر پیپلز پارٹی کے اراکین اور سندھ حکومت کے عہدیداروں کے خلاف کرپشن مہم شامل ہے۔

یہ خبر 15 جنوری 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں.

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024