ہماری اس تحریر کا موضوع غالب کی ایک خواہش پر ہے جو مذہبی رواداری کی ایک خوبصورت اور اعلیٰ دلیل ہے۔ غالب برہمن کو کعبے میں دفنانا چاہتے تھے۔ ان کی یہ خواہش ان کی زندگی میں پوری نہ ہو سکی اور اب ممکن بھی نہیں، کیوں کہ برہمن تو کیا اب کوئی اہلِ کتاب غیر مسلم بھی کعبے کے شہر میں داخل تک نہیں ہو سکتا، وہاں دفن ہونا تو دور کی بات ہے۔
لیکن میرپور خاص کے لُنڈ بلوچوں نے غالب کو پڑھا ہو یا نہ ہو لیکن غالب کی خواہش کے مطابق ایک برہمن کو کعبے میں نہ سہی اپنی امام بارگاہ میں دفن کر دیا۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ برہمن اس وقت تک مسلمان ہو چکا تھا، لیکن اس کے باوجود علاقے میں بسنے والے دیگر افراد کو نومسلم برہمن کی امام بارگاہ اور مزار کے احاطے میں تدفین پر تحفظات تھے۔ یہ تحفظات کیوں تھے، گو کہ یہ ایک طویل داستان ہے لیکن ہم کوشش کریں گے کہ اپنی اس مختصر تحریر میں پوری صورتحال سے آپ کو آگاہ کردیں۔
میرپور خاص کے علاقے نائی پاڑے میں سُکھ دیو نام کا ایک نوجوان اپنے خاندان کے ہمراہ رہائش پذیر تھا۔ ان کے گھر کے قریب ایک مندر بھی تھا جہاں وہ اور اس کے اہل خانہ پوجا پاٹ کیا کرتے تھے۔ مندر کے قریب ہی ایک مزار اور امام بارگاہ بھی تھی۔ سُکھ دیو تقسیمِ ہند کے بعد اپنے بڑے بھائی کے ساتھ انڈیا چلے گئے تھے، لیکن جنم بھومی کی یاد نے انہیں چین سے نہ رہنے دیا اور وہ کچھ ہی عرصے بعد دوبارہ پاکستان لوٹ آئے اور نائی پاڑے میں دوبارہ سکونت اختیار کر لی۔
اس پاڑے میں سُکھ دیو کا قدیم مندر غیر آباد ہو چکا تھا، لیکن مزار پر اب بھی کچھ لوگ آتے تھے اور محرم میں وہاں پر چھوٹی چھوٹی مجالس عزاء بھی منعقد ہوتی تھیں۔ مندر میں تقسیم ہند کے بعد انڈیا سے ہجرت کر کے آنے والے مسلمان آباد ہیں۔ انہوں نے کمالِ مہربانی سے مندر کی ظاہری حیثیت کو بالکل نہیں چھیڑا، حتیٰ کہ اس کے مرکزی دروازے پر لگی تختی بھی اب تک محفوظ ہے۔ لیکن مندر کے مرکزی حصے سے متصل تمام رقبے پر، جو ہمارے اندازے کے مطابق تقریباً تین ہزار گز ہوگا، مکانات بن چکے ہیں، جن میں مسلمان رہائش پذیر ہیں۔
جب ہم اپنے دوستوں واحد پہلوانی اور عمران شیخ کے ساتھ مندر کی تصویریں بنا رہے تھے تو ایک نوجوان ہماری جانب آیا اور دھیمے لہجے میں بولا ”بھائی یہ اب صرف نام کا مندر ہے، یہاں کوئی نہیں آتا۔ بنا لو پھوٹو (فوٹو)، ہمارے پاس تو کاگج (کاغذات یا دستاویزات) ہے۔ ہم جانے والے نہیں۔" لیکن ان کی مہربانی کہ انہوں نے مندر کی تصویریں بنانے پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔
ہم ابتداء میں ہی بتا چکے ہیں کہ یہ مندر میرپور خاص کے محلے نائی پاڑہ میں ہے، لیکن سُکھ دیو جہاں مدفون ہیں وہاں خوب رونق لگی رہتی ہے۔ جہاں مزار ہے وہاں ایک امام بارگاہ بھی ہے جس کا نام ”درگاہ عارب شاہ بخاری“ ہے۔ درگاہ پر ہر روز لوگ منتیں مانگنے آتے ہیں اور مراد پوری ہونے پر نذر و نیاز بھی کرتے ہیں۔
نائی پاڑے کا نام بارہا تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن علاقے میں تاحال رہائش پذیر ہندوؤں کی جانب سے یہ کوششیں ناکام بنا دی گئیں۔ نائی پاڑے میں ہندو، اہلِ تشیع اور سنی مسلمان آباد ہیں۔ جب سُنی مسلمانوں کی جانب سے علاقے کو ”فیصل ٹاؤن“ کا نام دیا گیا تو سندھی اہلِ تشیع نے اس علاقے کو ”عباس ٹاؤن“ بنا دیا۔ لیکن دونوں فرقوں کی کوششیں دھری کی دھری رہ گئیں اور نائی پاڑہ اب بھی نائی پاڑہ ہی ہے۔ یہ محلہ نہ تو فیصل ٹاؤن بن سکا اور نہ ہی عباس ٹاؤن۔
نائی پاڑے کے نام کی کہانی بھی بہت دلچسپ اور عجیب ہے۔ تقسیم سے قبل اس پاڑے کے رہائشیوں کی کثیر تعداد ہندو برادری سے تعلق رکھتی تھی، جو حجامت کے پیشے سے وابستہ تھے۔ لیکن چونکہ شہر میں مسلمان بھی بڑی تعداد میں آباد تھے اور حکمرانوں کا تعلق بھی میرانِ سندھ کے خاندان سے تھا، اس لیے وہ چاہتے اور نہ چاہتے ہوئے بھی مسلمانوں کے گھر پیدا ہونے والے بچوں کا ختنہ بھی کرتے تھے۔ غالباً ہندو حجام اسے خالص کاروباری معاملہ سمجھتے تھے اور ان کے نزدیک اس کا دین دھرم سے کوئی تعلق نہ تھا۔
تقسیم ہند کے بعد نائی پاڑے میں بسنے والے ہندو حجاموں کی اکثریت انڈیا منتقل ہوگئی۔ انڈیا سے پاکستان ہجرت کرنے والوں کا پہلا پڑاؤ میرپور خاص ہی ہوتا تھا۔ حجاموں کی اکثر دکانیں خالی ہو چکی تھیں۔ انڈیا سے آنے والی شیخ برادری کے افراد نے باقی ماندہ ہندو حجاموں کے پاس ملازمت کر لی اور ان سے حجامت کا کام سیکھنا شروع کر دیا۔ حالات زیادہ خراب ہوئے تو باقی رہ جانے والے ہندو حجام بھی میرپور خاص کا نائی پاڑہ چھوڑ گئے لیکن مسلمان شیخوں کو اپنا کام سکھا گئے، یوں شیخ برادری کے لوگوں کی شناخت بھی نائی کی حیثیت سے ہونے لگی۔
ان مسلمان شیخوں کی دکانیں اب نائی پاڑے اور اس کی اطراف میں موجود آبادیوں میں ہیں گو کہ اس برادری کے حاجی ظفر صاحب میرپور خاص کے ناظم رہے اور یہ خاندان آج بھی میرپور خاص کی سیاست میں فعال کردار ادا کر رہا ہے، لیکن ان کے ناقدین شہر کے لیے ان کی خدمات کو موضوع بنانے کے بجائے ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ یہ شیخ صاحبان اب بھی نائی کے نام سے پکارے جاتے ہیں۔ معاف کیجیے، بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ ہمارا موضوع ہندو برہمن کا مندر اور مزار تھا۔ آئیے موضوع پر بات کرتے ہیں۔
میں نے اپنی کتاب ”تیسری جنس: خواجہ سراؤں کی معاشرت کا ایک مطالعہ“ کے حوالے سے میرپور خاص کے بلوچوں کی فراخ دلی کے بارے میں لکھا تھا اور وہ خواجہ سرا سُکھ دیو کے بارے میں تھا۔ اس محلے میں ایک خواجہ سرا جس کا نام سُکھ دیو تھا، وہ برہمن تھا لیکن بعد میں وہ وہ مسلمان ہوا تو اس کا اسلامی نام عبداللہ رکھ دیا گیا۔ عبداللہ بہت زیادہ خوبصورت تھا، اس لیے علاقے کے لوگ اسے ’سوہنی‘ پکارتے تھے اور آہستہ آہستہ اس کا نام ’سوہنی فقیر‘ ہوگیا۔
سوہنی کا قد چھ فٹ تھا۔ سرخ و سپید رنگ، چوڑی پیشانی اور بڑی بڑی آنکھیں تھیں جن میں شفقت کا تاثر واضح ہوتا تھا۔ یا پھر اگر یوں کہا جائے کہ سوہنی ایک شفیق انسان تھا تو بھی غلط نہ ہوگا۔ بچوں سے محبت کرنا اس کی خصوصیت تھی۔ اولاد کی نعمت سے محروم عورتیں اس سے دھاگہ بندھوانے جاتی تھیں اور تعویذ بھی لیتی تھیں۔ محلے کی مکین خواتین انہیں دعوتوں کے پیغام بھی بھیجتی تھیں۔ شادی بیاہ کی دعوت ہو یا کسی کے گھر ختنہ ہو، سوہنی فقیر کو لازمی بلایا جاتا تھا، نیز ان سے بچوں کے نام بھی رکھوائے جاتے تھے اور چھٹھی پر مٹھائی بھی دی جاتی تھی۔ بدلے میں سوہنی فقیر ڈھیر ساری دعائیں دیتے ہوئے رخصت ہوتی تھی۔
سوہنی فقیر نے اپنے مندر کی دیکھ بھال تو نہ کی لیکن محلے میں موجود امام بارگاہ، جو عارب شاہ بخاری کی درگاہ کے نام سے مشہور تھی، کی تزئین و آرائش اور ہر سال میلہ لگانے کا کام اپنے ذمے لے لیا اور یہ تمام اخراجات خواجہ سراؤں کی جانب سے ادا کیے جاتے تھے۔ لُنڈ بلوچوں کے معزز چاچا اللہ رکھیو اور مرتضیٰ لُنڈ نے ہمیں بتایا کہ ایک دن سوہنی فقیر نے انہیں پیغام بھیجا کہ وہ شدید بیمار ہے اور ان سے ملنا چاہتی ہے، چنانچہ وہ نماز پڑھ کر ان سے ملنے کے لیے ان کے ڈیرے پر گئے۔
سوہنی فقیر نے ان سے پوچھا ”کیا میں نے عارب شاہ بخاری کی درگاہ اور امام بارگاہ کی کوئی خدمت کی ہے؟“ تو چاچا نے کہا کہ درگاہ اور امام بارگاہ کی رونق آپ سمیت تمام خواجہ سراؤں کی بدولت ہے۔ سوہنی فقیر نے کہا ”کیا مجھے مرنے کے بعد درگاہ میں دفنایا جا سکتا ہے؟“۔ اس سوال پر چاچا اللہ رکھیو اور مرتضیٰ حیران رہ گئے اور انہوں نے کہا کہ ہمیں اس معاملے پر بلوچ برادری کی رائے لینی ہوگی۔
دو دن بعد چاچا کو اطلاع ملی کہ سوہنی فقیر اس دارِ فانی سے کوچ کر چکی ہیں۔ چاچا نے اسی وقت برادری کے نوجوانوں اور معززین کو طلب کیا اور ان کے سامنے سوہنی کی وصیت بیان کی۔ سب کی متفقہ رائے تھی کہ چونکہ سوہنی فقیر کی درگاہ کے لیے بے شمار خدمات ہیں، اور ان کی خواہش بھی تھی کہ انہیں درگاہ کے احاطے میں دفن کیا جائے، اس لیے انہیں وہاں دفن کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
اس پر محلے کے بعض لوگوں نے دبے دبے الفاظ میں اعتراض کیا کہ ایک خواجہ سرا کو صوفی کی درگاہ میں دفن کرنا مناسب نہ ہوگا۔ مگر لُنڈ بلوچوں نے ان کی باتوں کو رد کر کے سوہنی فقیر کی تدفین اُس کی وصیت کے مطابق درگاہ کے احاطے میں ہی کر دی۔
جب آپ عارب شاہ غازی کی درگاہ میں کبھی جائیں، تو دیکھیں گے کہ درگاہ پر منت مانگنے والے پہلے سوہنی فقیر خواجہ سرا کی قبر پر فاتحہ پڑھتے ہیں اور اس کے بعد عارب شاہ بخاری کے مزار پر حاضری دے کر فاتحہ خوانی کرتے ہیں۔
— تصاویر بشکریہ عمران شیخ۔
اختر بلوچ سینیئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے تبصروں سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (27) بند ہیں