سچائی کا جھوٹ
تقریباً پوری دنیا میں، سچ کو اخلاقی قدروں میں 10/10 نمبر دے جاتے ہیں- قدیم کتابیں ہمیں سچائی کی تلقین کرتی ہیں- منبر پہ بیٹھا مولوی، ہمارے والدین، حتیٰ کہ ہم سب-
اور میرا یہ کہنا ہے کہ یہ تصور بلکل جھوٹ ہے-
میں ابھی سے اپنے خلاف ہونے والا ازخود ردعمل دیکھ سکتا ہوں، جو میری ڈان.کوم کے شریف قارئین کو بگاڑنے کی کوشش کے نتیجے میں ہوگا- اور اس میں جناب احسان اللہ احسان، کی ٹیلی فون کال کا بھی اضافہ کرلیں کہ ایک بارود سے بھری موٹر سائیکل میرے لئے روانہ ہو چکی ہے-
الودع اے پیاری دنیا !!!
میرا کہنا یہ ہے کہ دروغ گوئی، جسے عام طور پر جھوٹ بھی کہا جاتا ہے، ایک منظم، تہذیب یافتہ اور انسان صفت سماج کی سچی بنیاد ہے-
میری پہلی مثال کے لئے میں محبت اور شادی کی دنیا کو استعمال کروں گا- ایک پیاری سی لڑکی ، ایک بہت ہی عمدہ شخص کو جانتی ہے- جس میں بہت سی مثبت باتیں ہیں- وہ شریف ہے، اچھی ملازمت ہے، اور ایک شریف خاندان سے تعلق ہے وغیرہ وغیرہ-
لیکن مسلہ یہ ہے کہ خوبصورتی کے مقابلے میں بیچارہ تیسرے نمبر پر ہے، ایک ایسا مقابلہ جس میں صرف دو ہی فریق تھے، بشمول اس کے-
وہ شخص جسکا ذکر کیا جا رہا ہے، لڑکی سے محبت کرتا ہے اور شادی کے لئے اسکا ہاتھ مانگتا ہے- اس پیاری سی لڑکی کے انکار کی واحد وجہ اس شخص کی واجبی شکل ہے-
وہ بڑی نرمی کے ساتھ انکار کر دیتی ہے- وہ کم نصیب پوچھتا ہے "اے حسین خاتون، آپ نے مجھے کیوں مسترد کر دیا-"
اب میں سوال کرتا ہوں سچائی کے علم برداروں سے کہ لڑکی کا کیا جواب ہونا چاہیے؟
کیا لڑکی کو یہ کہنا چاہیے کہ جناب آپ خوبصورتی کے معاملے میں ناکام ہیں یا کوئی جھوٹ کہنا چاہیے کہ میں نے ابھی تک فیصلہ نہیں کیا یا میں ابھی شادی کے لئے تیار نہیں ہوں وغیرہ وغیرہ؟
میرا قیاس ہے کہ آپ میں سے بہت سے شریف لوگ یہ کہیں گے کہ لڑکی کو اس شخص سے یہ نہیں کہنا چاہیے کے آپ بد صورت ہیں- کیوں کہ ایک شریف آدمی سے ایسی بات کہنا ٹھیک نہیں ہے-
چناچہ یہاں انسانیت ہونا شرط ہے سچائی کی جیت نہیں- دروغ گوئی جیت گئی!!
دوسری مثال: آپ ایک آفس میں کام کرتے ہیں اور اپنے باس کے حوصلے سے سخت نفرت کرتے ہیں- لیکن آپ کو برسرروزگار بھی رہنا ہے- سالانہ جانچ کے دوران آپ سے کہا جاتا ہے کہ آپ اپنے باس کی درجہ بندی کریں-
حقیقت تو یہ ہے کہ آپ اپنے باس کے منہ پر تھوکنا اور اسے ایک لات رسید کرنا چاہتے ہیں، لیکن آپ کہیں گے کہ وہ آم کی آئس کریم کے بعد دوسری بہترین چیز ہیں- آپ کے پاس آپ کی جاب رہے گی، آپ کی فیملی خوش رہے گی، آپ کا باس خوش رہے گا- دروغ گوئی نے ایک بار پھر سب کو بچا لیا!!
آپ اپنی بیگم سے پوچھتے ہیں، "کیا تم مجھ سے پیار کرتی ہو ڈارلنگ؟" یہ حقیقت ہے کہ زیادہ تر شادیاں محبت کے نام پر نہیں بلکہ معقول انتخابات پر ہوتی ہیں- ممکن ہے کہ وہ اپنے دل میں یہ کہہ رہی ہو،"نہیں ڈارلنگ، یہ گھر اور یہ کار ہے جس سے مجھے حقیقت میں پیار ہے-"
لیکن اس کے منہ سے کیا نکلے گا؟ "بلکل، میں تم سے پیار کرتی ہوں-" جواب میں وہ بھی آپ سے یہی سوال کرتی ہے، اگر حقیقت میں ایسا ہے کہ آپ اس سے نفرت کرتے ہیں، تو کیا آپ ایسا کہنے کا خطرہ مول لیں گے؟
اور ایک سیکنڈ میں اپنی سوہنی سی ازدواجی زندگی کا بیڑا غرق کریں گے؟ ساتھ ہی اس کے بعد جو ہوگا اس کا سامنا کرنا چاہیں گے؟
جیسا بھی سچ کہا جاۓ، کوئی بھی نام نہاد منظم/تہذیب یافتہ سماج، زیادہ سچائی کا متحمل نہیں ہو سکتا-
پورا معاشرہ ایک دن میں تہس نہس ہو جاۓ گا اگر کبھی "سچ بولنے کا" دن منایا گیا-
زیادہ تر شادیوں کا انجام طلاق پر ہوگا- آدھے ملازمین کو نکال باہر کیا جاۓ گا، پولیس والے ان کریہہ لوگوں کو گولی مار دیں گے جن کی حفاظت انکو کرنی ہوگی، ایک مخصوص ریٹائرڈ جنرل، چیف جسٹس پر لعن طعن کی بوچھاڑ کر دے گا-
پاکستان کے اپنے دوست ممالک سے تعلقات ختم ہو جائیں گے کیوں کہ دوست ملک کا صدر اپنی استقبالیہ تقریر میں بتاۓ گا کہ وہ ہمارے عالی مرتبت ریاست کے سربراہ کے بارے میں واقعی کیا سوچتے ہیں-
اور آخر میں جب میں یہ تحریر ڈان.کوم کی ایڈیٹر کو بھیجوں گا تو وہ یہ دیکھیں گی کہ ان کے پاس اب تک بھیجی جانے والی تمام تحریروں میں یہ سب سے ناگوار تحریر ہے- وہ مجھے ایک شائستہ نوٹ بھیجیں گی کہ ابھی بہت سی تحریریں قطار میں ہیں وغیرہ وغیرہ ، کیوں کہ عام طور پر انہیں میرے بلاگ پسند آتے ہیں-
جب مجھے جواب موصول ہوگا، تو میں ایڈیٹر پر لعنت بھیجوں گا کہ اسے میرا ماسٹر پیس پسند نہیں آیا- لیکن میں جواب میں انکو اتنا ہی شائستہ نوٹ بھیجوں گا کہ میں سمجھتا ہوں اور یہ امید کرتا ہوں کہ اگلی تحریر ضرور شائع ہو گی-
مصنف انجنیئر اور پارٹ ٹائم صحافی ہیں ، جنہیں مزاروں، ریلوے سٹیشن اور بس اسٹاپ جیسی خلاف رواج جگہوں پر گھومنا پھرنا پسند ہے-
ترجمہ : ناہید اسرار
تبصرے (4) بند ہیں