نیا سال، نیا بیانیہ اور عالمی تناظر
ہر نئی صدی کے پہلے دو عشرے ہمیشہ غیر معمولی اہمیتوں کے حامل ہوتے ہیں۔ کم از کم 18ویں، 19ویں اور 20ویں صدیوں کے تجربات یہی بتا رہے ہیں۔ کیا دنیا اک بار پھر بدل رہی ہے؟ یہ ہے وہ سوال جس پر میں گذشتہ تین سال سے لکھ رہا ہوں۔
21 ویں صدی کے پہلے 15 سال گواہ ہیں کہ آج بہت سے ملکوں کے درمیان دیرینہ تعلقات اب ویسے نہیں رہے جیسے پچھلی صدی میں تھے۔ وہ حکمران جو گذشتہ صدی کے بیانیوں کو سینوں سے لگائے بیٹھے ہیں انہیں حسب معمول بدلتے موسموں کی سمجھ نہیں آرہی۔
ایران کو تنہا کرنے اور مرگ بر امریکا کے نعرے لگانے والے آج کل امریکا سے تعلقات کے بارے میں صفحوں پر صفحے کالے کر رہے ہیں۔ انقلابی کیوبا 'نیا بیانیہ' اپنا چکا ہے۔ سوشلزم کو تاریخ کا سب سے بڑا ولن قرار دینے والے امریکا و برطانیہ آج کل اس دوڑ میں رجھے ہیں کہ عوامی جمہوریہ چین اور حکمران چینی کمیونسٹ پارٹی سے زیادہ تگڑے تعلقات کون بناتا ہے۔
کون سوچ سکتا تھا کہ پاکستان اپنے مربی سعودی عرب کی مرضی کے خلاف 'جنگِ یمن' میں شامل ہونے سے انکاری ہوجائے گا۔ روس سے دوستی کا دم بھرنے والے ہندوستانی 21ویں صدی میں امریکی حاشیہ بردار ہو جائیں گے۔ یہ سب دنیا کے بدلنے کی علامات ہیں جس میں نہ کوئی مستقل دوست ہوتا ہے نہ ہی کوئی مستقل دشمن۔ مگر لگتا ہے بالعموم سعودی عرب اور بالخصوص مغربی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے حکمران دیوار پر لکھا پڑھنے سے بوجوہ قاصر ہیں۔
ڈوبتے کو تنکے کا سہارا بھی غنیمت لگتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ تنکا اپنے ہلکے وزن کی وجہ سی خود تو پانی پر تیر سکتا ہے مگر وہ ڈوبنے والے کو بچا نہیں سکتا۔ یہ بات سعودی عرب کے بنائے 34 ممالک کے اتحاد کی خبر کو پڑھ کر زیادہ سمجھ آئی کہ کہیں یہ اتحاد سعودی عرب ہی کو نہ لے ڈوبے۔ 1970 کی دہائی کے اولین سالوں میں عالمی سیاست کے بدلتے تناظر میں سعودی عرب کو خطے کی سیاست میں اہم مقام ملا تھا۔ اس سے قبل یہی مقام دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ایران کو حاصل تھا۔
1960 کے عشرے کے دوسرے نصف میں ایران کی بدلتے عالمی تناظر پر نظر تھی، چنانچہ اس نے 'خطے کی چوکیداری' جیسے اہم مقام کو بچانے کی سرتوڑ کوششیں کیں۔ مگر بقول معروف صحافی و مصنف ڈیویڈ پیٹرک اراکوس جب 1960 کے عشرے کے دوسرے نصف میں ایران نے از خود علاقائی طاقت بننے کے لیے پر تولنے شروع کیے اور امریکا بہادر کو اپنی خدمات پیش کیں تو جواب میں واشنگٹن کے کان کھڑے ہوئے۔ یوں 1968 میں ایران پر پہلی بار ایٹم بم بنانے کا الزام لگا۔
مگر شاہ ایران نے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ 1969 میں ایران اک نیا اتحاد بنانے میں پیش پیش تھا تاکہ کسی طرح اس نومولود اتحاد کے صدقے اس کو خطے کی چوکیداری پر معمور رکھا جا سکے۔
25 مسلمان ممالک نے مل کر ستمبر 1969 میں نیا اتحاد 'اسلامی ممالک تنظیم' (او آئی سی) بنا ڈالا مگر اس اتحاد کے دوسرے اجلاس منعقدہ لاہور (1974) تک خود ایران پچھلی صفوں میں دھکیلا جا چکا تھا جبکہ اس اتحاد کی باگ ڈور لیبیا کے معمر قذافی اور سعودی عرب کے شاہ فیصل کے ہاتھ آچکی تھی۔ یہی نہیں بلکہ شاہ ایران کو مقام عبرت بنا کر ایران کو مذہبی بنیاد پرستوں کے حوالے کر دیا گیا اور ذوالفقار علی بھٹو نے اس موقع کو پاکستان کے حق میں بخوبی استعمال کیا۔
خطے کی سیاست میں جو اہم مقام سعودی عرب کو 1970 کے عشرے کی ابتداء میں ملا تھا، اس کے اختتام کا وقت قریب ہے۔ ایران کی طرح آج سعودی عرب کو بھی یہ تطہیر منظور نہیں۔ ایران اپنے کھوئے ہوئے مقام کو دوبارہ حاصل کرنے کا طلبگار ہے مگر عالمی سیاسی شطرنج کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ خطے کی چوکیداری کا تاج اب ترکی کے سر پر سجایا جائے گا۔ یمن کی جنگ میں اس کا ٹریلر چل چکا ہے کہ جنگ بندی کے معاملے میں ایران، سعودی عرب اور یمن تینوں نے ترکی کے کردار کو تسلیم کیا۔
34 ممالک کا اتحاد ویسی ہی کوشش ہے جیسی او آئی سی بناتے وقت ایران نے کی تھی۔ عالمی اتحادوں کی روایت کے برعکس، اس اتحاد کا اعلان سعودی عرب کو تن تنہا ہی کرنا پڑا جو اپنی جگہ اک مذاق سے کم نہیں۔ بہت سے ممالک کو اتحاد میں شمولیت کی اطلاع بذریعہ میڈیا ہوئی۔ کچھ نے تو برملا اس بارے میں اپنے تحفظات کا بھی اظہار کیا۔ اس اتحاد میں سعودی عرب کے علاوہ جو ممالک شامل ہیں ان میں قطر، اردن، متحدہ عرب امارات، بحرین، بنگلہ دیش، لیبیا، مصر، لبنان، سوڈان، صومالیہ، سینیگال، مالدیپ، ملائیشیا، یمن، موریطانیہ، مراکو، نائیجر، نائیجیریا، چاڈ، ترکی اور پاکستان جیسے ممالک شامل ہیں۔
علاوہ ازیں اس اتحاد میں چھوٹے چھوٹے جزیرہ نما ملک بھی شامل ہیں جن میں کامروس (Comoros) جیسا افریقی جزیرہ بھی ہے جس کی کل فوج 500سپاہیوں پر مشتمل ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس اتحاد میں بینن (Benin) اور Cote d’Ivoire جیسے غیر اہم ممالک بھی شامل ہیں جن میں مسلمانوں کا تناسب بالترتیب 25 اور 39 فیصد ہے۔ اس اتحاد کو مسلمانوں میں متنازع بنانے کے لیے بہت سے لکھاریوں نے اسے 'سنی اتحاد' کا گمراہ کن لقب بھی عطا کیا ہے۔
اتحاد میں ایران، شام اور عراق کی غیرموجودگی نے اس گمراہ تاثر کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، مگر اس 'سنی اتحاد' کا بھانڈا اس وقت ٹوٹ جاتا ہے جب ہماری نظر ان 23 مسلمان ممالک پر پڑتی ہے جو اس اتحاد میں شامل نہیں۔ اس اتحاد میں افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں سمیت جو ممالک شامل نہیں ہیں وہاں بھی سنیوں ہی کی اکثریت ہے۔
سعودی عرب کے نوجوان وزیر دفاع محمد بن سلمان نے اس قدر جلد بازی میں اس اتحاد کا اعلان کیا ہے جو بذات خود کسی اندرونی دباﺅ سے بچنے کی کہانی کا پتہ دیتا ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ نومولود اتحاد خود کو دولتِ اسلامیہ کہلانے والے گروپ داعش سے دو دو ہاتھ کرنے کا اعلان نامہ ہے۔ لگتا یوں ہے کہ سعودی عرب ایک تیر سے دو شکار کرنے چلا ہے اور اس اتحاد کا اندرون ملک مقصد کچھ اور ہے اور عالمی منظر نامہ میں اس کو ایک دوسرے مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ مگر کہیں وہ ایران کی طرح اس تیر کا خود شکار تو نہیں ہو جائے گا؟ اس کے امکانات زیادہ ہیں۔
عالمی منظر نامے میں جومسلمان ملک تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اس کا نام ترکی ہے۔ حالیہ میزائل تنازع میں جس طرح روس جیسی پرانی سپر پاور کو ترکی کے سامنے بے بس کر دیا گیا وہ یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ ترکی کی پشت پناہی کون کر رہا ہے. ترکی کے تیار کردہ ڈرامے عربی، فارسی، اُردو اور افریقی زبانوں میں ڈب کر کے مشرقِ وسطیٰ، افریقا، پاکستان اور دیگر ممالک میں دیکھائے جا رہے ہیں۔ 34 ممالک کے اتحاد میں بھی ترکی اور پاکستان کی موجودگی دیدنی ہے۔ پاکستان میں ترکی کے بڑھتے ہوئے اثر کا زمانہ گواہ ہے۔
اس بدلتے عالمی منظرنامے کو قبول نہ کرنے کی گنجائشیں بھی کم ہیں اور اس کا انجام بھی نئے خطروں کی نوید۔ سعودی شاہی خاندان کو یہ کڑوی گولی نگلنی ہی پڑے گی۔ 34 ممالک کے اتحاد میں Djibouti جیسے بحر احمر کی اہم ترین سمندری گزرگاہ پر موجود جزیرے کی شمولیت سے سعودی عرب یمن جیسی غلطی کو دہرا رہا ہے۔ بدترین آمریتوں اور سرحدی تنازعات کی موجودگی میں سعودی عرب جیسے ممالک تادیر دباﺅ برداشت نہیں کر سکتے۔ عرب سپرنگ کی شکل میں ٹریلر پہلے ہی چل چکے ہیں۔
سعودی عرب 'عزت سادات' بچانے کے لیے تو بہت کچھ کر سکتا ہے۔ اس میں پاکستان اور ترکی بھی اس کی دامے درمے سخنے مدد کریں گے، مگر وقت کے پہیے کو اُلٹا گھمانے کی اس میں استطاعت نہیں ہے۔ کل وقت ایران کے ساتھ نہیں تھا، اور آج سعودی عرب اسی مقام پر کھڑا ہے۔ کچھ ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ دونوں کو مل کر کوئی حکمت عملی بنانی چاہیے مگر محمد بن سلمان نے اس موقع کو رد کرنے کا سامان کر دیا ہے۔
دو عالمی جنگوں میں پے درپے شکستیں کھانے اور سرد جنگ کے نتیجے میں دو حصوں میں منقسم ہونے کے باوجود جرمنی نے سیاسی بصیرتوں کو خیر آباد نہیں کہا تھا۔ ترکی کا تو پہلی عالمی جنگ کے بعد کچومر نکال دیا گیا تھا مگر اس 'مرد بیمار' نے پورے 100 سال کا چلہ کاٹا اور آج ٹھیک 100 سال بعد ترکی کا سورج آسمانوں کی طرف تیزیوں سے بڑھ رہا ہے۔ مگر اس کے لیے ترکی مسلسل جدید جمہوری مراحل سے گزرا۔ کیا ایران، سعودی عرب اور مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک از خود آمریتوں اور بادشاہتوں کو خیر آباد کہتے ہوئے جدید جمہوری رستوں کو اپنانے کے لیے فیصلے کر پائیں گے؟
انتہا پسندی، دہشت گردی، فرقہ واریت اور بیرونی دباﺅ سے نمٹنے کے لیے ان ممالک کو اپنی طرز حکمرانیوں کو بدلنا ہوگا۔ ترکی اور پاکستان اس کایا کلپ پر پہرہ دے سکتے ہیں، کیونکہ بدلتے موسموں کو سمجھنے ہی میں سب کی عافیت ہے۔ 2016 کا یہی پیغام ہے کہ سمجھنے والوں کے لیے اشارے ہی کافی ہوتے ہیں۔
تبصرے (2) بند ہیں