جعلی رانی مکھرجی اور بیوقوف پاکستانی میڈیا
سماجی رابطوں کی ویب سائٹس نے جہاں دنیا کے ایک کونے میں موجود شخص کو دوسرے کونے میں موجود شخص سے ملانے میں اہم کردار ادا کیا ہے تو وہیں اس کا غلط استعمال بھی بہت عام ہوچکا ہے۔
آئے روز ہم اس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ جعلی فیس بک اکاؤنٹس سے شرارت یا کسی اور نیت کے تحت جہاں ایک دوسرے کو بیوقوف بنایا جاتا ہے تو وہیں اس کے غلط استعمال سے معاشرے میں خرافات بھی جنم لے رہی ہیں اور جرائم پیشہ افراد اس کا استعمال اپنا پروپیگنڈا عام کرنے کے لیے بھی کرتے ہیں اور والدین کی نگرانی کے بغیر سوشل میڈیا استعمال کرنے والے بچے ان عناصر کا آسان ہدف ٹھہرتے ہیں.
بات جب ’ٹوئٹر‘ کی ہو تو یہ معاملہ زیادہ حساس ہوجاتا ہے کیونکہ آج کے ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے دور میں ٹوئٹر ایک ایسا ذریعہ ہے جو دنیا بھر سے تازہ ترین معلومات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ کئی نئی خبروں کو بھی جنم دیتا ہے اور محض ایک ٹوئیٹ کے ذریعے سامنے آنے والی بات دیکھتے ہی دیکھتے ’بریکنگ نیوز‘ کی شکل اختیار کرلیتی ہے (قطع نظر اس کے کہ بات بریکنگ نیوز بننے کے قابل ہے بھی یا نہیں)۔
ٹوئٹر کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے آج دنیا بھر کے کروڑوں عام انسانوں کے علاوہ سیاست، شوبز، کھیل، معیشت غرض ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات یہاں موجود ہیں جو اس کے ذریعے اپنے پیغامات اور جذبات عام لوگوں تک پہنچارہے ہیں۔
لیکن اگر عمومی طور پر دیکھا جائے تو بدقسمتی سے ان شخصیات کے اصل اکاؤنٹ سے زیادہ جعلی اکاؤنٹس موجود ہوتے ہیں۔ آپ کسی بھی نامور شخصیت کے نام سے ٹوئٹر اکاؤنٹ سرچ کریں تو ڈھیروں اکاؤنٹس کی فہرست آپ کے سامنے آجاتی ہے اور اگر ٹوئٹر انتظامیہ کی جانب سے اصلی اکاؤنٹ کی تصدیق نہیں کی گئی ہو تو آپ کے لیے یہ پہچاننا بہت مشکل ہوجاتا ہے ہے کون سا اکاؤنٹ اصلی ہے اور کون سا جعلی۔
جیسا کہ میں نے کہا کہ ٹوئٹر پر کسی معروف اور جانی پہچانی شخصیت کی ایک ٹوئٹ بھی بڑی خبر بن جاتی ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ افراتفری اور دوسروں پر بازی لے جانے کے اس جنون میں ہمارے چند میڈیا ادارے اس بات کی صداقت یا اس اکاؤنٹ کی اصلیت جاننے کی زحمت کیے بغیر ریٹنگ حاصل کرنے اور اپنے چینل کا نام اونچا کرنے کے لیے چلادیتے ہیں، جس کا اکثر اس بیچاری شخصیت کو علم تک نہیں ہوتا۔
اگرچہ کسی تصویر کی تصدیق مشکل کام ہے مگر کسی خبر کی تصدیق کرنا کسی صحافی کے کام کا بنیادی جزو ہے اور اسی کی اس سے توقع کی جاتی ہے۔
گزشتہ اپریل چند اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ 90 کی دہائی میں مشہور ٹی وی سیریل 'عینک والا جن' سے شہرت حاصل کرنے والے 'زکوٹا جن' یعنی مطلوب الرحمنٰ عرف منّا لاہوری انتقال کر گئے ہیں، حالانکہ وہ بیمار ضرور مگر زندہ تھے۔ اس خبر کی تصدیق لاہور کے الحمرا آرٹ کونسل کو صرف ایک فون کر کے باآسانی کی جاسکتی تھی۔ اس سے نہ صرف لوگوں کے میڈیا پر سے اعتماد کو ٹھیس پہنچی بلکہ منّا لاہوری کو بھی شدید ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر یہ بات اخبارات یا ٹی وی چینلز کی زینت نہ بنتی تو شاید لوگ اس کا یقین نہیں کرتے لیکن اکثریت ایسی ہے جو بڑے اخبارات اور ٹی وی چینلز کا یقین کرتی ہے۔ قارئین کو شاید یاد ہو کہ ہمارے میڈیا نے معروف شاعر احمد فراز صاحب کی وفات کی خبر بھی بغیر تصدیق کیے چلا دی تھی، جس پر ان کے صاحبزادے شبلی فراز کو ٹی وی پر تردید کرنی پڑی تھی.
گزشتہ روز ملک کے دو بڑے میڈیا ہاؤسز کی ویب سائٹس پر بولی وڈ اداکارہ رانی مکھر جی سے متعلق خبریں شائع ہوئیں جن کا وسیلہ ’ٹوئٹر‘ پر موجود ایک اکاؤنٹ ہی تھا۔ ایک ویب سائٹ نے اپنے قارئین کو بتایا کہ رانی مکھرجی پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ سے کافی متاثر ہیں اور ان کی زندگی کو مشعل راہ سمجھتی ہیں جب کہ دوسری ویب سائٹ کے مطابق رانی مکھرجی کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے ’ریفرنڈم‘ کی حامی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں باتیں ’خبر‘ کے معیار پر پوری اترتی ہیں مگر صرف اس صورت میں کہ یہ سچ ہوں۔ یہ خبر دوسروں کی طرح میرے لیے بھی حیران کن تھی جس کی تصدیق کے لیے میں نے فوراً اس ٹوئٹر اکاؤنٹ کی تلاش شروع کردی۔ بولی وڈ کی خبروں کی پاکستان سے تصدیق یقیناً ایک مشکل عمل ہے لیکن ٹوئٹر پر آپ مختلف طریقوں سے جان سکتے ہیں کہ آیا یہ اکاؤنٹ اصل ہے یا جعلی۔
تلاش کرنے پر مجھے بولی وڈ اداکارہ کا وہ ٹوئٹر اکاؤنٹ مل گیا جس کو بنیاد بنا کر اس خبر کو قارئین کے لیے پیش کیا گیا تھا لیکن چند لمحوں میں ہی مجھے یہ علم ہوگیا کہ یہ اکاؤنٹ جعلی ہے اور اس سے کہی گئی کسی بھی بات میں کوئی صداقت نہیں ہوسکتی، کیونکہ وہ اکاؤنٹ نہ تو ٹوئٹر انتظامیہ سے تصدیق شدہ تھا اور نہ ہی اس کے آؤ بھاؤ اور پرانی ٹوئٹس سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ واقعی یہ اداکارہ کا اکاؤنٹ ہے۔
میری اس بات کو تقویت اس وقت ملی جب ایک روز بعد ہی رانی مکھرجی کی مینیجر رونالی بھگت نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایک ٹوئٹ ری ٹویٹ کی جس میں کہا گیا تھا کہ رانی مکھرجی کا سوشل میڈیا کی کسی ویب سائٹ پر کوئی اکاؤنٹ نہیں ہے اور ان سے جوڑی جانے والی باتیں سراسر جھوٹ ہیں۔
لہٰذا میری تمام صحافیوں سے گزارش ہے کہ وہ کسی بھی خبر کو عوام تک پہنچانے سے پہلے اس کی ضرور تصدیق کرلیا کریں اور جب کوئی خبر سوشل میڈیا کے ذریعے گردش کر رہی ہو تو اس کی تصدیق ’فرض‘ کا درجہ اختیار کرجاتی ہے، کیونکہ جلد بازی اور دوسروں پر سبقت لے جانے کا یہ جنون جہاں آپ کے لیے پشیمانی اور ساکھ کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتا ہے، وہیں بہت سے لوگوں کو پریشانی اور مسائل سے بھی دوچار کردیتا ہے۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔
تبصرے (4) بند ہیں