• KHI: Fajr 5:37am Sunrise 6:58am
  • LHR: Fajr 5:16am Sunrise 6:42am
  • ISB: Fajr 5:24am Sunrise 6:52am
  • KHI: Fajr 5:37am Sunrise 6:58am
  • LHR: Fajr 5:16am Sunrise 6:42am
  • ISB: Fajr 5:24am Sunrise 6:52am

اعصام الحق پاکستان ٹینس کے مستقبل سے ناامید

شائع January 7, 2016
اعصام الحق نے گرینڈ سلام کے فائنل میں دودفعہ پاکستان کی نمائندگی کی۔ فوٹو اے ایف پی
اعصام الحق نے گرینڈ سلام کے فائنل میں دودفعہ پاکستان کی نمائندگی کی۔ فوٹو اے ایف پی

عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کرنے والے ٹینس اسٹار اعصام الحق نے اے ٹی پی کے 11 ڈبلز ٹائٹل، ماسٹرز 1000 فائنلز ڈبلز کے دو مقابلے اور سنگلز میں 16 چیلنجرز اور فیوچر فائنلز اپنے نام کیے۔

تاہم ان کے کیریئر کا سب سے یادگار لمحہ 2010 کا یو ایس اوپن ڈبلز فائنل تھا جب اعصام اور روہن بوپنا کی ہندوستان اور پاکستان کی اس جوڑی کا مقابلہ امریکی برائن برادرز سے ہوا۔ اس میچ میں انہیں سخت مقابلے کے بعد شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن دونوں عالمی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا۔

اس واقعے کو اب پانچ سال گزر چکے ہیں اور افسوس کی بات یہ پاکستان اس دوران عالمی سطح پر ٹینس میں کوئی مقام حاصل نہ کر سکا، خود اعصام کا کہنا ہے کہ اس وقت انہیں اور ان کے ڈیوس کپ پارٹنر عقیل خان کا ملک میں کوئی متبادل نہیں جبکہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دونوں کھلاڑی 36 سال کے ہو چکے ہیں اور زیادہ عرصے تک عالمی مقابلوں میں ملک کی نمائندگی نہ کر سکیں گے۔

ڈان سے خصوصی گفتگو میں اعصام نے ملک میں ٹینس کے کھیل کی صورتحال، ثانیہ مرزا کے ساتھ کھیلنے کے امکانات اور ڈبلز مقابلے میں راجر فیڈرر کو شکست دینے کے یادگار لمحات پر اظہار خیال کیا۔

سوال: موجودہ صورتحال میں آپ ٹینس میں پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے کس حد تک پرامید ہیں؟

بدقسمتی سے مجھے اس وقت تو ایسا کھلاڑی نظر نہیں آرہا جو مستقبل میں میری طرح بین الاقوامی ٹینس میں پاکستان کی نمائندگی کرسکے اور طویل عرصے کھیل سکے۔ ڈیوس کپ سطح پر بھی میرے اور عقیل خان کے بعد کوئی متبادل نظر نہیں آرہا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومتی یا فیڈریشن کی سطح پرایسے اقدامات نہیں کیے جاسکے کہ ٹینس میں کوئی آگے بڑھے، اب فیڈریشن میں نئے لوگ آئے ہیں امید کرتا ہوں کہ اب کوئی بہتر منصوبہ بندی کرسکیں، اگر ابھی سے محنت شروع کی جائے تو پانچ یا سات سال بعد ہی کوئی کھلاڑی ابھر کر سامنے آ سکے گا۔

سوال: ہمسایہ ملک ہندوستان نے ٹینس میں کئی مشہور کھلاڑی پیدا کیے، ہندوستان کے مقابلے میں پاکستان کے ٹینس میں پیچھے رہنے کی بنیادی وجہ کیا ہے؟

پاکستان میں ٹینس کا سرکٹ زیادہ وسیع نہیں لیکن تشویشناک بات یہ ہے کہ جو کھلاڑی ملکی سطح پر اچھا کھیل کر تیار ہوتے ہیں وہ بعد میں غیر ملکی یونیورسٹیوں میں کھیلنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ٹینس کی بنیاد پر اسکالر شپ لے کر وہ امریکا جاتے ہیں اور کھیل کی پروفیشنل سطح سے دور ہوجاتے ہیں، جو درست نہیں۔ اس دوران جو کھلاڑی ڈومیسٹک سطح پر تیار ہوتے ہیں ان کا بھی پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

اعصام اور ہندوستان سے تعلق رکھنے والے ان کے پارٹنر روہن بوپنا 2010 کے یو ایس اوپن مین ڈبلز مقابلوں میں رنر اپ رہے تھے. فوٹو اے ایف پی
اعصام اور ہندوستان سے تعلق رکھنے والے ان کے پارٹنر روہن بوپنا 2010 کے یو ایس اوپن مین ڈبلز مقابلوں میں رنر اپ رہے تھے. فوٹو اے ایف پی

سوال: اعصام آپ نے پاکستان ٹینس کی جو خدمت کی اس میں فیڈریشن کا کوئی کرداد ہے یا پھر پاکستان میں ٹینس میں آگے آنے کے لیے انفرادی محنت درکار ہوتی ہے؟

جہاں تک میرا تعلق ہے تو میرے کیرئیر کے آغاز سے لے کر آج تک فیڈریشن کا کوئی کردار نہیں۔ اپنے طور پر ٹینس شروع کی اور والدین کی مدد سے آگے بڑھا۔ فیڈریشن نے اسپانسر شپ کے لیے بھی کبھی کوئی سپورٹ نہیں کی۔ عقیل خان کو چند بین الاقوامی ایونٹس کھیلنے کے لیے مدد فراہم کی گئی جس کے وہ حق دار بھی تھے۔

سامر افتخار کی فیڈریشن نے شاید ابتدا میں مدد کی لیکن اب وہ بھی امریکا میں اپنی مدد آپ کے تحت ٹریننگ کررہے ہیں۔ پاکستان میں ٹینس میں آگے بڑھنے یا سیکھنے کی کوئی اکیڈمی نہیں جہاں کھلاڑی اپنے کھیل کا معیار بہتر بناسکے، میں انتہائی خوش قسمت ہوں کہ مجھے اپنے والدین کی حمایت حاصل تھی۔

سوال: ان تمام مسائل کا حل کیا ہے ؟ ٹینس ایک مہنگا کھیل ہے، تو ملک میں کھیل کی ترقی کیلئے کس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے؟

پاکستان میں کوچنگ کا طریقہ کار درست نہیں کیونکہ آپس میں کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں، باصلاحیت کھلاڑی پیدا کرنے کے بجائے صرف پیسہ بنانے پر توجہ مرکوزہے اور کوشش یہی ہے کہ بس اکیڈمی چلتی رہے، اس نظام کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ فیڈریشن کو بھی کوچز کی مدد کرنی چاہیے اور ساتھ ہی کھلاڑیوں کو ایک ہدف دیا جانا چاہیے کہ اگر مقرر کردہ رینکنگ حاصل کی تو بیرون ملک کھیلنے بھیجا جائے تاکہ کھلاڑیوں میں اسپرٹ پیدا ہوسکے. بس یہی چیز کوچز کو بھی اپنی منصوبہ بندی میں شامل کرنی ہوگی۔

کوچنگ کیمپس لگا کر کھلاڑیوں کو کھیل کی معلومات اور پھر کھیل کا معیار بہتر بنانا ضروری ہے۔ اس کے بعد منصوبہ یہ ہونا چاہیے کہ نوجوان کھلاڑی سینیئر کے ساتھ کھیلیں جس سے ان کے کھیل کا معیار بہتر ہوگا اور اچھا تجربہ حاصل ہوگا۔

ان میچوں میں جو نوجوان اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے، فیڈریشن اسے خود ٹورنامنٹ کے لیے بھیجے کیونکہ کھیلے بغیر کوئی کھلاڑی آگے نہیں بڑھ سکتا۔

سوال: آپ کافی عرصے سے بین الاقوامی سطح پر ٹینس میں پاکستان کی نمائندگی کررہے ہیں، مزید کتنا عرصہ آپ کھیلیں گے؟

میرا ابھی ریٹائرمنٹ کا کوئی ارادہ نہیں، فٹنس پر بہت محنت کررہا ہوں اور میرے خیال میں چار سے پانچ سال مزید کھیل سکتا ہوں۔ میں خود کو پہلے کی طرح ہی فٹ اور تازہ دم محسوس کرتا ہوں۔ ریٹائرمنٹ سے پہلے یہ خواہش ہے کہ گرینڈ سلیم ٹائٹل جیت سکوں اور اس کے ساتھ درجہ بندی میں ایک مرتبہ پھر ٹاپ 10 پوزیشن حاصل کرنا چاہوں گا۔

اعصام الحق اپنی ساتھی پارٹنر کویٹا پچکے کے ساتھ 2010 مکس ڈبلز کی رنر اپ ٹرافی کے ہمراہ. فوٹو اے پی
اعصام الحق اپنی ساتھی پارٹنر کویٹا پچکے کے ساتھ 2010 مکس ڈبلز کی رنر اپ ٹرافی کے ہمراہ. فوٹو اے پی

سوال: ٹینس کے کورٹ میں اب تک ملنے والی کامیابیوں پر کیا کہیں گے؟ کیا آپ اپنی کامیابیوں سے مطمئن ہیں؟

اللہ کا شکر ہے کہ محنت کے بعد بین لاقوامی سطح پر بھی اچھی کارکردگی رہی۔ گرینڈ سلیم کے دو فائنل کھیلے لیکن بدقسمتی سے جیت نہ سکا تاہم پوری کوشش ہے کہ پاکستان کے لیے پہلا گرینڈ سلیم ٹائٹل جیت کر لاؤں۔ اس کے علاوہ ڈبلز مقابلوں میں راجر فیڈرر کے خلاف کامیابی بہت یادگار ہے اور میں اسے کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتا۔

فیڈرر کا شمار ٹینس کے عظیم کھلاڑیوں میں ہوتا ہے اور ان کے خلاف کھیلنا اعزاز سے کم نہیں ۔

سوال: روہن بوپنا کے ساتھ آپ کی جوڑی زبردست رہی، ہندوستانی کھلاڑیوں کے ساتھ مل کر کھیلنے کا تجربہ کیسا رہا، کیا کھیل پاکستان ہندوستان کے تعلقات کو بہتر بنا سکتے ہیں؟

روہن کے ساتھ بہترین تجربہ رہا، وہ اب بھی میرے بہترین دوست ہیں، اچھا کھیلنے کے بعد ہم دونوں کی رینکنگ گری جس کی وجہ سے ہم ایک ساتھ بڑے ٹورنامنٹس نہیں کھیل سکے، ان سے پہلی بار تب الگ ہونا پڑا جب اولمپکس کا سال تھا اور روہن کو کوالیفائی کرنے کے لیے کسی ہندوستانی کھلاڑی کی ضرورت تھی جس کا میں نے احترام کیا۔ بدقسمتی سے اس وقت میرے پاس کوئی ایسا پاکستانی کھلاڑی نہیں تھا جس کے ساتھ مل کر میں اولمپکس میں کوالیفائی کرسکتا جس کا بہت افسوس ہے۔

سوال: ثانیہ مرزا ڈبلز رینکنگ میں عروج پر ہیں، کیا مستقبل میں کبھی ان کے ساتھ کھیلنے کا ارادہ ہے؟

ابتدا میں پوچھا تھا لیکن انہوں نے دوسرے غیر ملکی کھلاڑیوں کو ترجیح دی، اگر مستقبل میں کبھی موقع ملا تو ضرور ان کے ساتھ کھیلنا چاہوں گا، اس سے پاک و ہند ٹینس کو بہت فائدہ ہو گا۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کھیلوں کے بارے میں یہ کہوں گا کہ یہ رحجان ہی غلط ہے کہ دونوں ملکوں میں وزیراعظم کھیلوں کی اجازت دیں تو مقابلے ہوں، یہ نہیں ہونا چاہیے، کھیل اور سیاست کو الگ رکھنا چاہیے، کرکٹ سیریز کا انعقاد بھی ضرور ہونا چاہے کیونکہ دونوں ملکوں کے عوام کھیلوں سے محبت کرنے والے ہیں۔

سوال: ریٹائرمنٹ کے بعد کیا کریں گے، کوئی منصوبہ بندی کی ہے؟

میں نے بالکل منصوبہ بندی کی ہے اور میں ٹینس اکیڈمی بنانا چاہتا ہوں جہاں بچوں کو ٹینس کی تربیت دی جاسکے، اکیڈمی کے لئے میں زمین حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میری کوشش ہوگی کہ پاکستان کی وجہ سے دنیا بھر میں جو میرا نام بنا ہے اس کے بعد میں اپنے ملک کو کچھ واپس لوٹا سکوں اور کوئی دوسرا اعصام الحق یا اس سے بھی بہتر کھلاڑی تیار کر سکوں۔

کارٹون

کارٹون : 27 نومبر 2024
کارٹون : 26 نومبر 2024