• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

کیا صحت کارڈ ہی مسائل کا حل ہے؟

شائع January 5, 2016 اپ ڈیٹ January 8, 2016
اس مالی مدد سے غریب سکھ کا سانس تو لیں گے، مگر اس سے پاکستان کے نظامِ صحت میں موجود بڑے مسائل حل نہیں ہو پائیں گے۔ — اے پی/فائل
اس مالی مدد سے غریب سکھ کا سانس تو لیں گے، مگر اس سے پاکستان کے نظامِ صحت میں موجود بڑے مسائل حل نہیں ہو پائیں گے۔ — اے پی/فائل

چند دن قبل وزارتِ صحت نے ملک کے غریب شہریوں کو صحت کی بہتر سہولیات کی فراہمی ممکن بنانے کے لیے ہیلتھ کارڈ جاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔

وزیرِ اعظم کارڈ کا اجراء ان افراد کے لیے ہوگا جو یومیہ دو سو روپے سے کم کماتے ہیں۔ ایک کارڈ میں فی کس پچاس ہزار روپے عام بیماریوں کے طبی معانے کے لیے مختص کیے جائیں گے، جن میں بخار، زکام، کھانسی، نزلہ اور ہیپاٹائیٹس شامل ہیں۔

اس کے علاوہ تین لاکھ روپے سنگین بیماریوں جیسے کہ بائی پاس، اینجیوپلاسٹی اور ڈائیلائسز کے لیے بھی فراہم کیے جائیں گے۔

اس مالی مدد سے غریب سکھ کا سانس تو لیں گے، مگر اس سے پاکستان کے نظامِ صحت میں موجود بڑے مسائل مثلاً ڈاکٹروں کی کمی اور غیر معیاری سہولیات (یا عدم دستیابی) حل نہیں ہو پائیں گے۔

پاکستان میں نظامِ صحت کا بنیادی ڈھانچہ انتہائی کمزور ہے، اکثر سرکاری ہسپتالوں میں اسٹاف کی کمی ہے، جبکہ وہاں موجود اسٹاف مریض کی نگہداشت، صفائی ستھرائی اور سامان کی دستیابی وغیرہ کا خیال نہیں رکھتا۔

ڈاکٹر نہیں تو علاج نہیں

مجھے یاد ہے کہ میں اپنے ایک عزیز کو اسلام آباد کے ایک سرکاری اسپتال لے کر گیا تھا، اور پھر میں نے بلیوں اور لال بیگوں کے درمیان ان کا علاج ہوتے ہوئے دیکھا۔

مریضوں کو بغیر تشخیص کیے غیر متعلقہ بیماری کے کمروں میں بھیجا جا رہا تھا، جبکہ طبی سہولیات تاخیر سے اور افراتفری کے عالم میں فراہم کی جارہی تھیں۔ جب میں نے وہاں موجود فزیشن کو آگاہ کیا کہ میں خود ایک ڈاکٹر ہوں اور مجھے بہتر معیار کی توقع ہے، تو جواب میں انہوں نے معذرت کی۔

پڑھیے: علاج اچھا، پر غریب کے لیے نہیں

ان کے چہرے پر موجود ناامیدی اور پچھتاوے کی جو تصویر ابھر آئی تھی، اسے میں کبھی نہیں بھول سکتا۔

ڈاکٹروں کی کمی اور مریضوں کی دیکھ بھال میں لاپرواہی کی وجہ سے غریبوں کو اکثر علاج میسر نہیں ہوپاتا، جس کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔ کسی بھی مرض کا بہتر علاج اس وقت ہی ممکن ہے جب مریض کی بروقت اور درست دیکھ بھال کی جائے۔

مجھے یاد ہے کہ ایک مریض، جسے بیکٹیریل انفیکشن تھا، اور وقت پر اینٹی بائیوٹکس نہ ملنے کی وجہ سے اس کے اندرونی اعضاء ناکام ہوگئے تھے، جس سے اس کی موت واقع ہوگئی۔ زخمی اعضاء والے مریضوں کی اگر فوراً سرجری نہ کی جائے، تو ان کی موت ہو سکتی ہے۔

دیہی پاکستان میں صحت سے متعلق ایک بڑا مسئلہ وقت پر علاج نہ ہونا ہے۔ صحت مراکز کے قریب نہ ہونے کی وجہ سے دیر سے تشخیص اور علاج معمول ہے۔ میرے ایک مریض کو وائرل ہیپاٹائیٹس تھا، مگر اسے اپنی بیماری کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔ اسے جگر کی ناکامی اور آخری حد پر موجود بیماری کی تمام علامات کے ساتھ ایمرجنسی روم میں منتقل کردیا گیا۔ اس موقع پر اس کی حالت کے بارے میں پیشگوئی کرنا ممکن نہیں تھا اور مزید علاج کی گنجائش ہی نہیں بچی تھی۔

سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کی بڑی تعداد کے مقابلے میں اسٹاف انتہائی کم ہے۔ پاکستان اس وقت زچگی کے دوران ماں اور بچے کی موت کے حوالے سے سرفہرست ہے، جبکہ پھیلنے والی بیماریوں کے مریض بھی بڑی تعداد میں ہیں۔ یہ سب صحت کی ناکافی سہولیات کے باعث ہے۔
ہیلتھ کارڈ دینے سے پاکستان میں موجود ڈاکٹروں کی کمی، سہولیات سے عاری ہسپتال یا ہسپتالوں کی غیر معیاری صورتحال جیسے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ بہتر نظامِ صحت صرف ماہر ڈاکٹروں، صحت کی تعلیم اور بروقت علاج سے ہی ممکن ہے۔

مزید پڑھیے: معذوری کی وجہ: ڈاکٹروں کی غفلت

کئی ڈاکٹر انتھک انداز میں مریضوں کی کثیر تعداد کا علاج کرتے ہیں، اور بالآخر تھک جاتے ہیں، جس کی وجہ سے ہر کسی کا علاج ممکن نہیں ہوپاتا۔ پاکستان میں ڈاکٹر میں موجود صلاحیتوں اور قابلیت کے بجائے اس کے تجربے کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔

اس غیر منصفانہ ماحول اور اسٹاف کی کمی کے باعث مریض کو بہتر طبی سہولیات مہیا نہیں ہوپاتیں۔ پاکستان میں مروج میڈیکل کی تعلیم کا معیار بھی دیگر ترقی یافتہ ممالک جیسا نہیں ہے۔

ہیلتھ کارڈ کا اجراء صحیح سمت میں قدم ہے جس سے تمام شہریوں کو نجی ہسپتالوں تک رسائی حاصل کرنے کا موقع ملے گا، مگر حکومت کو اصل مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ملک میں مریضوں کی حالت بہتر نہیں ہوسکے گی۔

نظامِ صحت کی حالتِ زار کو کارڈ سے نہیں بلکہ ہسپتالوں میں بہتر سہولیات کی فراہمی، نئے ہسپتالوں کی تعمیر، تربیت یافتہ ڈاکٹروں کی موجودگی اور بروقت علاج سے ممکن بنایا جا سکتا ہے.

عارف محمود

عارف محمود میڈیکل ڈاکٹر ہیں، اور جنوب ایشیائی آرٹ، کلاسیکل میوزک، فوٹوگرافی، اور ادب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (5) بند ہیں

محمد ارشد قریشی ( ارشی) Jan 05, 2016 08:58pm
بہت اچھی تحریر ہے ۔ لیکن اب دیکھنا یہ ہوگا کہ یہ صحت کارڈ کتنی شفافیت سے جاری کیئے جاتے ہیں کیوں کہ ہمیشہ یہی دیکھا گیا ہے کہ اس قسم کے کارڈ حکومت میں شامل با اثر لوگ ایسے لوگوں کو جاری کروادیتے ہیں جو یا تو صاحب حیثیت ہوتے ہیں یا پھر ان کے زاتی ملازم یا ان کی ملز، فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام کرنے والے ہوتے ہیں تاکہ وہ ان کو بھی سرکاری خرچ پر سہولیات فراہم کراسکیں اور اپنے ذاتی کاروبار سے اس خرچ کو بچا سکیں ، بے نظیر انکم سپورٹ اسکییم کے تحت بھی کئی ایسے افراد کو کارڈ جاری ہوئے تھے جو اچھی بھلی ملازمت کرتے ہیں ۔ دوسرا افسوس اس بات کا ہے کہ اس صحت کارڈ سے صوبہ سندہ اور خیبر پختونخواہ کے غریب محروم رہیں گے کیوں کہ ان صوبو﷽ں کے لیئے اس کارڈ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے ۔
محمد ارشد قریشی ( ارشی) Jan 05, 2016 08:58pm
تیسری اہم بات جس کی ڈاکٹر صاحب نے اپنی تحریر میں بھی نشاندہی کی ہے کہ سرکاری اسپتالوں کو بہتر کرنا ہوگا ڈاکٹرز کی تعداد بڑھانی ہوگی ۔ ہسپتالوں کی ضروریات پوری کرنی ہونگی۔ محترمہ بینظیر بھٹو کو جب گولی ماری گئی تھی تو جس اسٹریچر پر انہیں ایمرجنسی میں لے جایا جارہا تھا اس کا ایک وہیل نہیں تھا اور یہ بات تمام سیاسی رہنماؤں کے علم میں ہے لیکن اس اسپتال کی بہتری کے لیئے بھی کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیئے گئے ۔
نجیب احمد سنگھیڑہ Jan 05, 2016 10:12pm
کارڈ شارڈ کوئی بھی ہو چاہے راشن کارڈ ہو، بی آئی ایس پی کارڈ ہو، ھیلتھ کارڈ کو یا کوئی بھی اور حکومتی کارڈ ہو، یہ حکومتوں کا اپنی حکومتیت کو چمکانے کی ایک کڑی ہوتی ہے۔ جو ملک کرپشن کی دلدل میں سر سے پیر تک لبڑا ہوا ہو، وہاں پر ایسے کارڈ روشناس کروانا حقائق سے پردہ پوشی اور ناعاقبت اندیشی ہے۔ کرپشن کو مار مکانے کے بعد کارڈ سسٹم لاگو کیا جائے تو حقداروں تک اس کے فوائد اور ثمرات پہنچنے کا کافی چانس ہوتا ہے۔ سرکاری ھسپتالوں کا حال وہی حیثیت اختیار کر گیا ہے جیسے بینکوں میں پنشنرز دھکے کھاتے ہیں اور گھنٹوں قطار میں کھڑے رہتے ہیں اور جب باری آئے تو کوئی نہ کوئی اوبجیکشن لگا کر یا گھڑ کر پنشنرز کو تنگ کیا جاتا ہے، ان سے بھتہ وصولی کا طریقہ ڈھونڈا جاتا ہے۔
نجیب احمد سنگھیڑہ Jan 05, 2016 10:14pm
جہاں تک بات ہے ڈاکٹروں کی کمی کی، تو مجھے اس سے اتفاق نہیں۔ ڈاکٹری پیشہ آج اپنی اہمیت کھو چکا ہے جو ایک زمانے میں میسحا کا درجہ رکھتا تھا۔ ڈاکٹروں کی بیروزگاری کی شرح بھی آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہے کیونکہ ھسپتال نہیں ہیں کچی آبادیوں، پنڈوں اور چکوں میں۔ کیا اگر ان دور دراز اور شہروں سے کٹے ہوئے علاقوں میں ھسپتال بن جائیں تو ڈاکٹر جائن کریں گے؟ نہیں کریں گے کیونکہ ڈاکٹری کے منہ کو پیسہ لگ چکا ہے جو کہ پنڈوں میں نہیں۔ آج شہروں میں ڈاکٹر بھی اپنے کلینکس کو چلانے کے لیے سرکاری ھسپتالوں کو استعمال کرتے ہیں اور وہاں سے مریضوں کو اپنے کلینکس کے لیے گھیرتے ہیں۔ لیکن غریب عوام کو سرکاری ھسپتالوں ہی میں جانا پڑتا ہے کیونکہ پرائیویٹ ھسپتال اور کلینکس تو نہ صرف مہنگے ترین ہیں بلکہ اکثریٹ ٹھگوں پر مشتمل ہے۔
[email protected] Jan 06, 2016 11:52am
Health Card may not solve all the problems but we must say it is a good idea and a good start. At least we have taken a first step in the right direction. Even if we have 2 to 3 % honest people who want to give better opportunities to poor and neglected lot, we will gradually see some improvement. I am hope full. I don't think we should dismiss an ideal out right, instead we should see how can we improved upon it and finally achieve the real purpose of that idea.

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024