یونس خان نے سال 2015 میں پاکستان کرکٹ میں پیش آنے والے اہم واقعات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
ورلڈ کپ سے قبل قیادت کی کشمکش
جب بھی اس طرح کا موقع آتا ہے توٹیم میں مسائل پیدا ہوتے ہیں اور کھلاڑیوں کو بہت نقصان ہوتا ہے۔ کھلاڑیوں کی توجہ بٹ جاتی ہے اور وہ کام پر پوری توجہ نہیں دے پاتے، اس طرح کی سازشیں ٹیم کے لیے اچھی نہیں ہوتیں۔
ورلڈ کپ میں ناقص کارکردگی
ہماری خراب فارم سے قطع نظر آسٹریلیا میں کنڈیشنز بہت مشکل ہوتی ہیں لیکن میں اس کو ہماری ناقص کارکردگی کی وجہ قرار نہیں دوں گا۔ سری لنکا نے اچھا کھیلا اور ہندوستان نے اسی طرح کی کنڈیشنز میں کافی بہتر کھیلا، اگر ہم ورلڈ کپ میں اپنی ٹیم کو دیکھیں تو ہم مستحکم نہیں تھے اور بہت سی تبدیلیاں ہو رہی تھیں۔ ایک ٹیم کا استحکام کامیابی کی بنیاد ہے۔
مصباح اور آفریدی کی ریٹائرمنٹ
کسی بھی ٹیم سے اگر مصباح الحق یا شاہد آفریدی یا شعیب ملک اور محمد حفیظ جیسے کھلاڑی ریٹائرہوں گے تو جدوجہد کرتی نظر آئے گی، وہ کارکردگی دکھانے والے بڑے کھلاڑی ہیں۔ 2003 کے ورلڈ کپ کے بعد ہماری ٹیم سے بڑے بڑے کھلاڑی ریٹائرہوئے جس کی وجہ سے پاکستان ٹیم کو اگلے تین سے چار سال تک مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، یہ ایک قدرتی امر ہے۔
بنگلہ دیش سے 3-0 کی تاریخی کلین سوئپ
ہمارا کپتان نیا تھا اور ٹیم کے اکثر کھلاڑی نئے تھے لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی ٹیم ماضی جیسی نہیں رہی جو آج سے 15 یا 16 سال پہلے ہوتی تھی لہٰذا ہمیں ان کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ بنگلہ دیش نے بہت ترقی کی ہے اور اپنے ہوم گراؤنڈ پر وہ بہت خطرناک ہیں۔ انھوں نے صرف پاکستان کو نہیں ہرایا بلکہ ہندوستان کو شکست دی اور جنوبی افریقہ کو بھی چاروں شانے چت کیا۔ وہ بلاشبہ مضبوط ہوچکے ہیں اور ہمیں اس کا اعتراف کرنا چاہیے۔ بنگلہ دیش 1999-2000 سے ٹیسٹ کرکٹ کھیل رہا ہے اور ہمیں اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہیے کہ انھوں نے ترقی کی ہے۔ وہ کرکٹ کی دنیا میں اب چھوٹی ٹیم نہیں رہی۔
پاکستان میں عالمی کرکٹ کی واپسی
زمبابوے کی ٹیم کا دورہ پاکستان میرے لیے خوش آئند مرحلہ تھا، ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے پاکستان میں بین لاقوامی کرکٹ کی بحالی بہت ضروری ہے۔ اگر پاکستان میں کرکٹ تسلسل کے ساتھ ہو تو پھر کسی کو نوجوان کھلاڑیوں کے حوالے سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ ایک معمول کا طریقہ کار ہے۔ ہمیں عمران خان، جاوید میانداد اور ظہیر عباس کو پاکستانی گراؤنڈز میں کھیلتا دیکھ کر کرکٹر بننے کی خواہش ہوئی، پاکستان میں کرکٹ کی ترقی کے لیے بین الاقوامی کرکٹ ضروری ہے۔
پاکستان کی جانب سے ریکارڈ ہدف کا حصول
377 رنز کے ہدف کے تعاقب میں ہم 13 رنز پر دو وکٹیں گنوا چکے تھے۔ میری سوچ اس وقت یہی تھی کہ اگر میں یہاں توجہ دے سکا تو پاکستان جیت سکتا ہے اور ریکارڈ بن سکتا ہے۔ میں ایک ایسی اننگز کھیلنا چاہتا تھا جس پر میں اور پاکستان فخر کر سکیں اور میں ایسا کرنے پر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں۔ اس دن شان مسعود کی صورت میں مجھے ایک ایسا شراکت دار ملا جس کی مجھے ضرورت تھی۔ شان مسعود ایچ بی ایل میں میرے ساتھ تھے، وہ اچھا سیکھنے والے کھلاڑی ہیں وہ متحرک اور سنگلز بنانے کے ماہر ہیں، اس لیے میں چاہتا تھا کہ وہ میرے ساتھ وکٹ پر ٹکے رہیں، شان مسعود اس اننگز کو اپنی بہترین اننگز قرار دے سکتے ہیں، مجھے بہت خوشی ہے کہ میں نے وہ اننگز براہ راست دیکھی۔
کولمبو میں حیران کن فتح
حیرت انگیز! 40 رنز پر 5 کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے اور پھر پورے میچ کا نقشہ تبدیل ہو جاتا ہے اور ٹیم میچ جیت جاتی ہے، یہ جوش و جذبہ ثابت کرتا ہے کہ پاکستان کی کرکٹ میں کتنی صلاحیت ہے۔ اس سے قبل 2006 میں کراچی میں ہندوستان کے خلاف میچ جیتا وہ بھی اسی طرح کا ہی میچ تھا، ہمارے نوجوان کھلاڑیوں کو بھرپور رہنمائی کی ضرورت ہے، اگر انھیں رہنمائی مل جائے تو وہ پاکستان کے لیے حیران کن نتائج دے سکتے ہیں۔
سعید اجمل کا باؤلنگ ایکش غیر قانونی قرار
ہم اس طرح کی صورت حال کا ذمے دار ڈومیسٹک نظام کو نہیں ٹھہرا سکتے اور یہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا کام بھی نہیں ہے کہ گراس روٹ لیول میں باؤلنگ ایکشن درست کرے۔ جو نظام ہمارے پاس موجود ہے وہ گزشتہ 60 سے 65 سال پرانا ہے اور اس میں یقیناً بہتری کی گنجائش ہے، وہ کھلاڑی بہترین ہیں جو اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہیں۔ اگر ہم بہترین کوچز اور بائیومیکینک لیب لائیں پر سرمایہ کاری کریں گے تو ناصرف ابتدا میں ہی غیر قانونی باؤلنگ ایکشن کی شروع میں ہی نشاندہی ہو جائے گی بلکہ اس اس مسئلے کو حل بھی کیا جا سکے گا۔ ہمارے پاس سعید اجمل کی مثال موجود ہے۔ انھوں نے اپنے کیریئر میں بہت جدوجہد کی اور دنیا کے بہترین باؤلر بن گئے لیکن اب وہ ٹیم کے ساتھ نہیں ہیں۔
انگلینڈ کیخلاف ٹیسٹ میں شکست اور ون ڈے میں مشکلات
اگر آپ دیکھیں تو ان کی فٹنس اور ان کے کھیلنے کا اسٹائل مختلف ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ انگلینڈ ہمیشہ متحدہ عرب امارات میں اچھا نہیں کھیل سکتی اور اسی طرح اسپنر کے خلاف بھی اچھی کارکردگی نہیں ہے لیکن جب وہ ون ڈے کھیلنے کے لیے آئے تو انھوں نے ٹیسٹ کی شکست سے سیکھا۔ مجھے یاد ہے کہ 13-2012 کی سیریز میں بھی اسی طرح کی صورتحال تھی، ہم نے ٹیسٹ میں انھیں وائٹ واش کیا تھا لیکن وہ ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے میں مشکل ثابت ہوئے۔ انگلینڈ ایک ایسی ٹیم ہے جو غلطیوں سے سیکھتی ہے۔
عامر کی واپسی
ہم سب پاکستان کے لیے کھیلتے ہیں اس لیے ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ کون کپتان ہے۔ ہمیں جس چیز کا خیال رکھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ ہم پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں اور اچھی کارکردگی دکھا کر اپنے ملک کو عروج تک پہنچائیں۔ یہ کھلاڑی کا استحقاق نہیں ہے کہ وہ یہ سوچے کہ کون کپتان ہو اور کس کو کھیلنا چاہیے۔ محمد عامر نے پابندی سے پہلے جتنے بھی میچ کھیلے ان میں بہترین کھیل پیش کیا، اگر وہ مسلسل 4 سے 5 سال تک کھیلتا تو دنیا کا صف اول کا کھلاڑی بن سکتا تھا، مجھے یقین ہے کہ جب کبھی بھی عامر کو پاکستان کیلئے کھیلنے کا دوسرا موقع ملے گا تو وہ اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کرے گا۔
پاک-انڈیا سیریز پر غیریقینی صورتحال
ہم سب چاہتے ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کھیلیں، جیسے ہم چاہتے ہیں ہندوستان پاکستان میں آکر کھیلے اسی طرح ہندوستانی بھی چاہتے ہیں ۔ ہندوستان اور پاکستان کو کرکٹ کی سرگرمیوں کو بحال کرنا چاہیے۔ جب دونوں ممالک کھیلیں گے تو بہت سے نوجوان متاثر ہوں اوربہت سے ہیروز بنائے جاسکتے ہیں۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کرکٹ مستقل بنیادوں پر ہونی چاہیے۔
پاکستان کرکٹ کا مستقبل: پاکستان سپر لیگ
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان سپر لیگ(پی ایس ایل) سے کھلاڑیوں کو فائدہ ہوگا۔ اگر پی ایس ایل مستقل بنیادوں پر ہوتی رہی تو اس سے ہمارے کھلاڑیوں کو پیسہ کمانے اور معیار زندگی بہتر کرنے کا موقع ملے گا۔ میں نے خیبر پختونخوا میں پشاور کی جانب سے کرکٹ کھیلی ہے۔ گوکہ باقی ٹیمیں بھی پاکستان کی ہیں لیکن میں چاہوں گا کہ پشاور زلمی پی ایس ایل کا افتتاحی سیزن ضرور جیتے۔
تبصرے (1) بند ہیں