سابق وزیراعلی بلوچستان کی براہمداغ سے ملاقات'
کراچی: بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ عبد المالک بلوچ کا کہنا ہے کہ وہ براہمداغ بگٹی سے چند ماہ قبل جنیوا میں ملاقات کر چکے ہیں۔
واضح رہے براہمداغ بگٹی بلوچستان کے سابق گورنر اکبر بگٹی کے پوتے ہیں، اکبر بگٹی کو جنرل پرویز مشرف کے دور میں ایک آپریشن میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں : وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ مستعفی
مری معاہدے کے تحت 2 ہفتے قبل مستعفی ہونے والے ڈاکٹر عبد المالک بلوچ کا کہنا تھا کہ اس ملاقات کے حوالے سے وزیر اعظم نواز شریف اور فوج کو اعتماد میں لیا گیا تھا۔
نجی ٹی وی چینل جیو کو دیئے گئے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ اس ملاقات کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ براہمداغ بگٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مصالحت کے امکانات روشن ہیں۔
نواب اکبر خان بگٹی کے پوتے اور سوئٹرز لینڈ سے بلوچ ری پبلکن پارٹی (بی آر پی)کی قیادت کرنے والے براہمداغ 2006 میں اپنے داد ا کے ایک فوجی آپریشن میں مارے جانے کے بعد پاکستان سے فرار ہو گئے تھے۔
یاد رہے کہ بلوچستان کے اہم رہنما نواب اکبر خان بگٹی 26 اگست 2006 کو کوہلو میں اس وقت کے صدر اور آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کے حکم پر کیے جانے والے ایک کریک ڈاؤن میں اس وقت ہلاک ہوگئے تھے، جب وہ ایک غار میں پناہ لیے ہوئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں : ثنا اللہ زہری بلامقابلہ وزیر اعلیٰ بلوچستان منتخب
بگٹی نے مسلح مہم کے ذریعے صوبائی حکومت سے بلوچستان کے قدرتی وسائل سے بڑا حصہ اور مزید خود مختاری کا تقاضہ کیا تھا۔ ان کی موت سے صوبے بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی اور آج تک بلوچستان کے حالات معمول پر نہیں آسکے۔
ان کے بیٹے نوابزادہ جمیل اکبر بگٹی نے سابق صدر پرویز مشرف، سابق وزیرِ اعظم شوکت عزیز اور دیگر اعلیٰ حکام کو اس قتل کا ذمہ دار ٹھرایا تھا۔
گزشتہ ہفتے کوئٹہ میں میڈیا سے بات چیت میں جمیل اکبر بگٹی نے دعویٰ کیا تھا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے وکیل نے ان سے رابطہ کرکے اکبر بگٹی کا قتل معاف کرنے کی درخواست کی لیکن ان کی درخواست قبول نہیں کی گئی۔
سوئٹرز لینڈ میں مقیم براہمداغ بگٹی نے اگست 2015 میں پہلی بار مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کیا تھا اور ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر بلوچ عوام چاہتے ہیں تو وہ آزاد بلوچستان کے مطالبے سے دستبرداری کے لیے تیار ہیں۔
دو ماہ قبل نومبر 2015 میں براہمداغ بگٹی نے تمام باغی گروپس اور آزادی کی حامی کالعدم بلوچ تنظیموں سمیت مختلف جماعتوں کو اختلافات کے حل اور مشترکہ حکمت عملی کے لیے مذاکرات کی دعوت دی جبکہ اس سے چند روز قبل انہوں نے ایک بار پھر حکومت کی جانب سے شروع کیے گئے مذاکراتی عمل پر مایوسی بھی ظاہر کی تھی۔
واضح رہے کہ بلوچستان میں علیحدگی کے حامی عسکریت پسند رہنماء ڈاکٹر اللہ نذر کی جانب سے تاحال حکومت اور مختلف گروہوں سے کیے جانے والے مذاکرات کی حمایت نہیں کی۔
یہ خبر 3 جنوری 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں