گذشتہ سال نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک مضمون نے خوبصورت اور تاریخی وادیء چترال کا سفر کرنے پر مجبور کر دیا، جہاں ایک اقلیتی قبیلہ کالاش رہائش پذیر ہے۔
نیویارک ٹائمز کے اس مضمون کے مطابق صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع چترال کے کالاش لوگوں کا ڈی این اے ایک قدیم یورپی آبادی سے ملتا جلتا ہے۔ اور کئی تجزیوں سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ایسا 210 قبلِ مسیح سے بھی پہلے سکندرِ اعظم کی افواج اور مقامی آبادی کی آپس میں شادیوں کی وجہ سے ہوا ہے۔
کالاش چترال کی تین وادیوں رمبور، بمبوریت اور بریر میں رہتے ہیں، اور کالاش زبان بولتے ہیں جو زبانوں کی ہندی ایرانی شاخ کی داردک ذیلی شاخ سے تعلق رکھتی ہے۔
ہم نے گذشتہ سال سردیوں میں کالاش کے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ دسمبر کا مہینہ تھا جو سیاحوں کے لیے آف سیزن ہے۔ میں وادیوں کی مسحور کن خوبصورتی اپنے کیمرا میں قید کرنے کے لیے بے تاب تھا۔ ہم نے لاہور سے اپنا سفر شروع کیا اور پھر سیالکوٹ سے نوجوانوں کا ایک گروپ بھی ہم سے آ ملا۔ تقریباً 24 گھنٹے سفر کرنے کے بعد ہم ایون شہر پہنچے جہاں سے ہم نے آگے موجود ناپختہ سڑک پر سفر کے لیے جیپیں کرائے پر لیں۔ جلد ہی ہم چترال کے پہاڑی علاقوں کی جانب گامزن تھے۔
جب ہم صبح کے وقت وادی میں پہنچے، تو جس منظر نے ہمارا استقبال کیا، وہ بیان سے باہر ہے۔ ہر چیز صاف سفید برف کی چادر اوڑھے ہوئے تھی۔
میں نے چترال کو اپنے ساتھ واپس لانے کے لیے ہر دلچسپ چیز کی تصویر کشی کی۔ یوں تو وادی میں موسم شدید سرد تھا، مگر اس کے مقابلے میں لوگ بہت گرم جوش اور مہمان نواز تھے۔
یہ جگہ افغان سرحد کے کافی نزدیک ہے مگر ہمیں عدم تحفظ کا احساس نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ ہم پڑوسی ملک کی برف پوش چوٹیاں بھی اپنی جگہ سے دیکھ سکتے تھے۔
ہم فارینر ٹورازم ان ہوٹل اینڈ ریزورٹ میں ٹھہرے۔ اپنا سامان ریسٹ ہاؤس میں چھوڑنے کے بعد ہم نے دوبارہ سفر شروع کیا۔
جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے گئے، تو مقامی لوگ ہمارا پرتپاک استقبال کرتے گئے، یہ سب لوگ سیاحوں کو دیکھ کر بہت خوش تھے اور باتیں کرنے کے لیے بے چین تھے۔
ایسا لگتا تھا کہ یہاں ہر درخت کے پاس ایک کہانی ہے۔ صبح کی روشنی نے وادی کو سنہرے رنگ میں نہلا دیا تھا۔
پڑوس میں واقع افغان صوبے نورستان کے لوگ بھی کبھی کالاش مذہب پر کاربند تھے۔ مگر 19 ویں صدی کے اختتام تک زیادہ تر نورستان مسلمان ہو چکا تھا، پر اس بات کے شواہد ہیں کہ کچھ لوگ اب بھی اپنی رسومات پر قائم ہیں۔
اگلے دن اپنے قریب ہی مقامی خواتین کا گانا سن کر ہمیں حیرت و خوشی کا ملا جلا احساس ہوا۔ ان کی مسحور کن آوازوں نے وادی میں ٹھہرا ہوا سکوت توڑ دیا تھا۔
کالاش خواتین عام طور پر لمبے اور سیاہ جوڑے زیب تن کرتی ہیں جن پر سیپیوں سے کڑھائی کی جاتی ہے۔ اس سے ایسے دیدہ زیب اور منفرد ڈیزائن جنم لیتے ہیں جو کالاش برادری کی پہچان ہیں۔
ہم ٹریک کرتے ہوئے ایک وادی میں پہنچے جہاں سے ہم افغان پہاڑوں کو برف میں ڈھکا ہوا دیکھ سکتے تھے۔ نظارہ سحر انگیز تھا۔ ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ گرمیوں یا بہار میں جب ہر طرف سبزہ ہوتا ہوگا، تو یہ وادی کس قدر خوبصورت ہوتی ہوگی۔
چترال واپسی پر ہم ایون نامی آبادی سے گزرے۔ چھوٹا مقامی بازار زندگی سے بھرپور تھا۔
یہ ہم سب کے لیے ایک یادگار سفر تھا۔ جو لوگ بھی پاکستان کی حقیقی خوبصورتی کا تجربہ کرنا چاہتے ہیں، انہیں کالاش ضرور جانا چاہیے۔
— تصاویر بشکریہ لکھاری۔
عمیر صدیقی لاہور میں مقیم ڈیجیٹل ڈیزائنر ہیں جنہیں سفر اور فوٹوگرافی کا شوق ہے۔
تبصرے (16) بند ہیں