راولپنڈی کو راول قبیلے نے آباد کیا جو راول جوگی بھی کہلاتے تھے۔ راول قبیلے سے منسوب ایک گاؤں "راولاں" ہوا کرتا تھا جہاں اب راول ڈیم بن چکا ہے۔ افغانستان اور کشمیر کی گزرگاہ ہونے کی وجہ یہ علاقہ ہمیشہ ہی عسکری و معاشی اہمیت کا حامل رہا ہے۔
نئے راول پنڈی کی تاریخ انیسویں صدی کے وسط سے شروع ہوتی ہے جب 1851ء میں لارڈ ڈل ہوزی نے اس شہر کو برٹش آرمی کی ناردرن کمانڈ کا ہیڈ کوارٹر بنایا اور یہاں ہندوستان کی سب سے بڑی فوجی چھاؤنی کی بنیاد رکھی۔ یوں اس شہر میں انگریز آیا۔ روزگار اور بہتر مستقبل کے مواقع پیدا ہوئے تو نگر نگر سے لوگ حصول روزگار کے لئے یہاں آ بسے۔
کچھ اہل حرفہ تھے اور کچھ تاجر تھے، راہی بعد میں مقامی ہوئے۔ معاشرت کی رنگا رنگی بڑھی، مختلف مذاہب اور زبانیں بولنے والے اس شہر میں آباد ہوئے۔ شہر کی مذہبی، ثقافتی اور لسانی تصویر میں ہر رنگ سما گیا، یہ نیا راولپنڈی تھا جس نے چھاؤنی کے بننے کے بعد وسعت پائی۔
1941 کی مردم شماری کے مطابق راولپنڈی شہر کی 57 فیصد آبادی غیر مسلموں پر مشتمل تھی۔ راولپنڈی شہر میں مسلمانوں کے علاوہ ہندو، سکھ، مسیحی، جین مت، پارسی، بدھ مت اور یہودی آباد تھے۔
تقسیم کے بعد پارسیوں کی تعداد میں نمایاں کمی آئی۔ آج شہر میں بیس کے قریب پارسی رہ رہے ہیں۔ راولپنڈی کی مصروف ترین سڑک مری روڈ سے متصل پارسی قبرستان پارسیوں کی ایک یادگار ہے۔ اس قبرستان میں ڈیڑھ سو سال سے بھی زیادہ قدیم قبریں موجود ہیں۔
پارسی کمیونٹی کے لوگ کب راولپنڈی میں آ بسے، اس بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں لیکن خیال یہ کیا جاتا ہے کہ چھاؤنی بننے کے بعد کاروبار کی غرض سے آ بسے۔ پارسی یا زرتشت مذہب کا شمار دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں ہوتا ہے جن کا اصل وطن ایران ہے۔ دسویں صدی میں زرتشت برصغیر کے مغربی ساحلوں پر آکر آباد ہوئے اور ایران کا ہونے کی وجہ سے پارسی نام سے شناخت پائی۔
1898 میں قبرستان کے گرد دیوار کھڑی کی گئی اور کنواں کھودا گیا۔ قبرستان کی قدیم ترین قبر پر 1860 کی تاریخ درج ہے۔ کیونکہ اس حوالے سے کوئی تاریخی دستاویز دستیاب نہیں کہ واقعاً اس قبرستان کی بنیاد کب پڑی، اس لیے اس قبر کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قبرستان کی شروعات کا سن اسی کے آس پاس ہوگا۔
پارسی انجمن راولپنڈی کے صدر اور ممبر قومی اسمبلی اسفنیار بھنڈارا نے پارسی کمیونٹی کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ راولپنڈی کے مقابلے میں پارسی کمیونٹی کی کثیر تعداد کراچی میں آباد ہے۔ انہوں نے بتایا کہ راولپنڈی میں آباد پارسیوں میں سے زیادہ تر تقسیمِ ہند کے بعد ہندوستان چلے گئے، جبکہ حالیہ برسوں میں کچھ امریکا اور یورپ ہجرت کر گئے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ قبرستان کے کچھ حصے کو لینڈ مافیا سے خطرہ ہے جس کا مقدمہ بھی عدالت میں دائر ہے۔ اس حوالے سے قبرستان میں اشتہار بھی آویزاں ہے۔ پارسی قبرستان شہر کی تکثیری معاشرت کی زندہ مثال ہے۔
— تصاویر بشکریہ لکھاری۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے تبصروں سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تبصرے (8) بند ہیں