• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm

بغیر سرمائے کے اپنا کام کیسے شروع کریں؟

شائع December 28, 2015 اپ ڈیٹ December 29, 2015

یہ انٹرپرینیورشپ کی اہمیت کے بارے میں تین مضامین کی سیریز میں دوسرا مضمون ہے۔ پہلا حصہ یہاں ملاحظہ کریں۔


اس مضمون کے پہلے حصے کی اشاعت کے بعد بہت سے قارئین کا سوال یہ تھا کہ ہم بھی انٹرپرینیورشپ کرنا چاہتے ہیں، لیکن اس کے لیے درکار سرمایہ کہاں سے آئے گا، ہم کون سا کاروبار کریں اور کیسے کریں؟ اس طرح کے سوالات کا کوئی قطعی جواب نہیں ہوتا کیونکہ اس کا تعلق ہر شخص کی انفرادی زندگی سے ہوتا ہے، اور چونکہ ہر شخص کے وسائل اور مسائل مختلف ہوتے ہیں، اس لیے ایک شخص کا حل دوسرے کے کسی کام نہیں آسکتا۔

انٹرپرینیورشپ میں کسی شخص کی کامیابی کے لیے صرف ’’جذبے‘‘ کا ہونا لازمی ہے۔ اگر کسی شخص میں جذبہ موجود ہے تو وہ خود ہی ترقی کے لیے درکار تمام وسائل پیدا کر لے گا۔

انٹرپرینیورشپ کے بارے میں روایتی سوچ:

انٹرپرینیورشپ کے بارے میں ہمارے معاشرے میں عام خیال، اور روایتی سوچ یہ ہے کہ انٹرپرینیورشپ میں کامیاب صرف خاص خاندانی پس منظر کے لوگ ہوتے ہیں، بغیر سرمائے یا اتنہائی کم فنانس سے کامیاب انٹرپرینیورشپ ممکن نہیں، خوشحالی کا ذریعہ صرف اور صرف اچھی سرکاری نوکری، یا بیرون ملک جا کر نوکری ہے، انٹرپرینیورشپ نہیں، یہاں تک کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ والدین سے میں نے خود سنا ہے کہ ’’نہ ہمارے خاندان میں سے کسی نے کاروبار کیا نہ ہم کاروبار کرسکتے ہیں‘‘۔

پہلی بات تو یہ کہ ہمیں ایک روایتی کاروبار اور انٹرپرینیورشپ میں فرق کرنا ہوگا۔ کاروبار یعنی بزنس، اور انٹرپرینیورشپ میں فرق یہ ہے کہ کاروبار اپنا کام ہوتا ہے، مگر ایسا جو پہلے بھی بہت لوگ کر چکے ہیں اور جو مارکیٹ میں عام طور پر رائج ہوتا ہے، جیسے کپڑوں کی دکان کھول لینا۔ ہم یہاں پر اس کاروبار کی بات نہیں کریں گے۔ اگر آپ اسی کپڑوں کی دکان کو انٹرنیٹ پر لے جائیں، لوگوں کو گھر بیٹھے کپڑے پسند کرنے اور سلائی کا آرڈر دینے کی سہولت دے دیں، تو یہ انٹرپرینیورشپ کہلائے گی، یعنی ایک ایسا کام، جس کا مارکیٹ میں پہلے تصور موجود نہیں تھا اور آپ نے اسے شروع کر کے ایک جوکھم اٹھایا کیونکہ پہلے سے مثال نہ ہونے کی وجہ سے آپ کو معلوم نہیں ہوتا کہ آیا یہ آئیڈیا پسند کیا جائے گا یا نہیں۔

دنیا کے چند کامیاب انٹرپرینیورز:

اب بات کرتے ہیں سرمائے کی۔ آج کی دنیا میں ایسی بہت سے مثالیں موجود ہیں جو ’’انتہائی کم سرمائے‘‘ کے باوجود انٹرپرینیور بننے میں کامیاب ہوئے۔ بل گیٹس کی مثال تمام دنیا کے سامنے ہے۔ ایک شخص لوگوں کے لیے کمپیوٹر کا استعمال آسان بنانے کے لیے ایک سوفٹ ویئر (ونڈوز آپریٹنگ سسٹم) تیار کرتا ہے اور چند سالوں میں ہی دنیا کا امیر ترین شخص بن جاتا ہے۔ دنیا میں کبھی نہیں ہوا کہ ایک شخص مسلسل گیارہ سال تک دنیا کا امیر شخص رہا ہو۔

ذرا غور کریں۔ کیا عقل اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ چند سو مربع فٹ جگہ پر تیار شدہ چیزوں کا منافع ہزاروں ایکڑ پر تعمیر شدہ صنعتوں سے زیادہ ہو، یا چند افراد کی مدد سے تیار شدہ ایک چیز کی کامیابی کا مقابلہ لاکھوں کی تعداد میں افرادی قوت والی فیکٹریاں نہیں کرسکتی ہوں۔

وجہ صاف ظاہر ہے۔ ہزاروں ایکڑ کی فیکٹری میں جو چیز تیار ہوتی ہے، وہ وہی چیزیں ہیں جن کی مارکیٹ میں پہلے سے مثالیں موجود ہیں، کوئی جدت نہیں، اور اگر ہے بھی تو کوئی ایسی نہیں کہ دنیا بدل دے۔ یہ کاروبار ہے۔ اس کے مقابل ونڈوز انٹرپرینیورشپ کی ایک عمدہ مثال ہے۔

اسی طرح سے اور کئی مثالیں موجود ہیں: فیس بک کے بانی اور چیف ایگزیکٹو آفیسر مارک زکربرگ جنہوں نے اپنا کام شروع کیا اور کمال ترقی کی۔ انسٹا گرام، واٹس ایپ، اسنیپ چیٹ وہ اسمارٹ فون ایپلیکیشنز ہیں جو دنیا میں تہلکہ مچائے ہوئے ہیں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ سب دو دو چار چار لوگوں کے گروپس نے صرف آئیڈیا کی بنیاد پر تیار کی تھیں اور چند گھنٹوں میں ہی اینڈرائیڈ کی سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ کی جانے والی ایپس میں شمار ہوگئی تھیں؟

مشہور ریسٹورنٹ کے ایف سی کے مالک کرنل سینڈرز نے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی چکن پکانے کی ترکیب فروخت کرنے کی کوشش کی، جس کے لیے انہوں نے اپنی پرانی سی کار میں امریکا کی کئی ریاستوں کا سفر کیا۔ کئی دفعہ وہ رات اپنی کار میں گزارتے تھے۔ مگر جب ان کو شراکت دار سے کامیابی ملی تو ملتی چلی گئی۔ آج دنیاکے اکثر ممالک میں کے ایف سی کے ریسٹورنٹ قائم ہیں۔

ذرا غور کریں، بوڑھا آدمی، سرمایہ صفر۔ پاس کیا ہے؟ صرف کھانے پکانے کی ایک ترکیب۔ اگر کرنل سینڈرز ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ کسی اور جگہ جاب کر لیتے تو کیا آپ ان کی شکل سے واقف ہوتے؟

ان تمام مثالوں سے یہ بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ دنیا کے امیر ترین اور نامور ترین افراد میں شامل ہونے کے لیے آپ کے کام کو بہت زیادہ ابتدائی سرمائے کی ضرورت نہیں۔ اگر ضرورت ہے تو صرف تخلیقی سوچ کی، جو ایسی چیز مارکیٹ میں لائے جو اس سے پہلے کوئی نہ لایا ہو۔ صرف تب ہی آپ کی چیز ہاتھوں ہاتھ لی جائے گی اور دنیا بدل دینے والی چیزوں میں شامل ہوگی۔

پاکستان میں بہت سے نوجوان انٹرپرینیورز نے بہت زبردست کام کیا اور سالوں کا سفر ہفتوں میں طے کیا ہے۔ پاکستان میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔

حکیم سعید صاحب مرحوم نے اسکول کی نوکری چھوڑی اور اپنا خود کا چھوٹا سا بزنس شروع کیا۔ شروع میں حکیم سعید کا بزنس دکان سے دکان تک نونہال گرائپ واٹر کی فروخت تھی۔ پھر آہستہ آہستہ یہ کاروبار ترقی کرتے ہوا ایک دن ہمدرد لیبارٹری بن جاتا ہے۔ غور کریں۔ اگر حکیم سعید صاحب اپنا بزنس شروع نہ کرتے تو کیا ہمدرد لیبارٹری قائم ہوتی؟ ہمدرد یونیورسٹی/اسکول کا منصوبہ بن سکتا تھا؟ کیا 132 ایکڑ پر پھیلا ہوا حکمت کا شہر نوکری سے حاصل ہو سکتا تھا؟

تعلیمی ویب سائٹ ’’علم کی دنیا‘‘ ایک نوجوان غلام علی نے اپنے ذاتی کمپیوٹر سے شروع کی اور آج پاکستان کے بڑی تعلیمی ویب سائٹ ہے۔ اب غلام علی صاحب کی ٹیم میں کئی افراد جاب کرتے ہیں۔ آج غلام علی کا شمار پاکستان کے بڑے ویب انٹرپرینیورز میں ہوتا ہے۔ بڑی اور اہم ویب سائٹ ہونے کی وجہ سے وہ فیس بک کی جانب سے شروع کیے گئے مفت انٹرنیٹ کے منصوبے Internet.org میں بھی شامل ہے۔

انٹرپرینیورشپ کے لیے جذبے کی اہمیت:

میرے خیال میں انٹرپرینیورشپ کی کامیابی کے لیے پیسے کی حیثیت ثانوی ہے۔ پیسے، افرادی قوت، مہارت، تعلیم، وغیرہ بطور اوزار استعمال ہوتے ہیں۔ ان کی بنیادی اہمیت نہیں۔ لیکن اگر آپ کے اندر کامیابی کے لیے درکار جذبہ موجود نہیں تو سرمایہ، تعلیم، مہارت، افرادی قوت کے باوجود آپ کامیاب نہیں ہوسکتے۔

کیا وجہ ہے کہ ایک بینک/فنانس کمپنی کسی انٹرپرینیور کو اس کے منصوبے کے لیے قرضہ دیتا ہے یا اس کے ساتھ شراکت داری کرتے ہیں۔ تو ان کے پاس اس تیار منصوبے کی تمام جزویات موجود ہوتی ہیں۔ ان کو نہ صرف یہ معلوم نہیں ہوتا ہے بلکہ یقین ہوجاتا ہے کہ یہ منصوبہ قابل عمل ہے اور کچھ سالوں میں ان کا سرمایہ اصل زر+منافع واپس مل جائے گا۔ اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس منصوبے سے سب سے زیادہ فائدہ انٹرپرینیور کو ہوگا۔ تو وہ کیوں خود اس منصوبے پر عمل نہیں کرتے؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ بینک/فنانس کمپنی اس سے بہتر منصوبہ سازی کرسکتی ہیں، سرمایہ ان کے پاس پہلے سے موجود ہے، افرادی قوت یا خام مال مارکیٹ میں موجود ہے، لیکن ان کے پاس جس چیزیں کی کمی ہے وہ ہے کامیابی کا جذبہ۔ چونکہ ان کے پاس جذبہ رکھنے والے لوگ موجود نہیں ہوتے، اس لیے ان کو ناکامی کا اندیشہ ہوتا ہے اور سرمایہ کار عموماً خطرہ مول نہیں لیتے۔

جذبہ کیسے حاصل کیا جائے:

جذبہ، خواہش، آرزو، تمنا، طلب، انسان کے اندر خود بخود پیدا ہوتی ہے۔ یہ ہی وہ آگ ہے جو کسی انسان کی کامیابی کے لیے لازمی ہے۔ میرے خیال میں اس کو کسی دوسرے کے اندر پیدا کرنا نہایت ہی مشکل اور تقریباً نامکمل کام ہے۔ یہ مارکیٹ میں دستیاب نہیں کہ کسی میڈیکل اسٹور سے خرید کر استعمال کر لی جائے۔ ہاں اگر کسی شخص کے اندر جذبہ کی آگ دھیمی ہے تو اس کی مقدار کو زیادہ کیا جاسکتا ہے۔

اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ کامیاب افراد کی کامیابیوں کی داستانوں کا مطالعہ کیا جائے۔ سوشل میڈیا پر اس موضوع پر کافی سارے آڈیو/ویڈیو لیکچر بھی دستیاب ہیں جس میں ماہرِ نفسیات ڈاکٹر صداقت علی اور قاسم علی شاہ کے لیکچرز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مارکیٹ میں انگریزی زبان میں اس موضوع پر بہت سی کتب موجود ہیں، جبکہ اردو زبان میں بھی مشہور انگریزی کتب کے ترجمے اور خود لکھی ہوئی کتب بھی عام دستیاب ہیں۔ ڈیل کارنیگی، اسٹیفن آر کووے، ڈاکٹر رابرٹ ایچ شلر کی انگریزی زبان یا اردو ترجمہ میں، اور اردو زبان میں ڈاکٹر ارشد جاوید کی کتب کو میں نے بہت مفید پایا ہے۔

اگلے ہفتے ہم دیکھیں گے کہ ایک کامیاب انٹرپرینیور بننے کے لیے مناسب منصوبہ بندی کیسے کی جائے۔

حسن اکبر

حسن اکبر لاہور کی آئی ٹی فرم ہائی راک سم میں مینیجنگ ڈائریکٹر ہیں۔ شخصیت میں بہتری کا جذبہ پیدا کرنے والی کتب کا مطالعہ شوق سے کرتے ہیں۔ ان کے مزید مضامین ان کی ویب سائٹ حسن اکبر ڈاٹ کام پر پڑھے جا سکتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (38) بند ہیں

AJ Dec 28, 2015 04:45pm
The last episode could not attract us but this one is really a good read. Eagerly waiting for next episode.
MUHAMMAD imran Dec 28, 2015 05:39pm
Awesome
Muhammad Afzal Dec 28, 2015 05:55pm
It's absolutely right but most of us are unaware of this. Having insufficient knowledge about these factors. Facilities are also not available with most of the peoples.
Muhammad Nasir Siddiqui Dec 28, 2015 06:15pm
آئندہ قسط کا انتظا ہے
manzoor Dec 28, 2015 06:51pm
It is a good thought provoking article which gives youngs guidelines to take initiative to start their own job/business.
عائشہ بحش Dec 28, 2015 07:15pm
بہت اچھا مضمون ہے ۔ یہ سب ٹھیک ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ کاروبار کرنے کے بارے میں مزید معلومات بھی ہونی ضروری ہیں۔ خاص کر خواتین کے لئے کہ وہ آن لائن کاروبار کیسے کریں۔ یعنی گھر سے اپنی آمدنی میں اضافہ کیسے کریں؟ میں نے ابھی تک آن لائن کاروبار پر کوئی سنجیدہ تحریر نہیں پڑھی۔ میرے کچھ جاننے والے آن لائن بزنس کر رہے ہیں۔ لیکن وہ بھی شاید حسد کی وجہ سے میری مدد نہیں کرتے ۔ باقی سوشل میڈیا اور اخبار میں جو آن لائن بزنس کے اشہتار شائع ہوتے وہ تو سب فراڈ ہیں۔ رجسٹریشن کے نام پر ہزاروں روپے اکھٹے کر رہے ہیں۔اور سب پلیز منصف صاحب کچھ اس طرح بھی توجہ دیں۔
Ahmed Khan Zaildar Dec 28, 2015 07:43pm
Good planning
akbar ali Dec 28, 2015 08:08pm
This blog title is invalid. No business Starts without capital but many business will starts with Low investment
حافظ Dec 28, 2015 08:55pm
امازان ڈاٹ کام کے مالک نے گھر سے آن لائن کتب فروخت کرنا شروع کیں اور تین سال میں سٹاک مارکیٹ تک پہنچ گیا۔ آج وال مارٹ سے بڑی کمپنی ہے۔ جیف وال سٹریٹ میں فنانس کی نوکری کرتا تھا- مارک، فیس بک مالک، ایم آئی ٹی کے ٹرینڈ سیٹنگ ماحول میں تھا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کامیاب لوگوں نے گھر بیٹھ کر صرف آن لائن ویب سائٹس نہیں بنائیں بلکہ انھیں مارکیٹ میں موجود مواقع کا علم تھا۔ جذبے ساتھ مارکیٹ کا علم ہونا بے حد ضروری ہے۔ اور وہ موٹیویشنل کتب پڑھ کر نہیں ہوتا۔
مدثر حمید Dec 28, 2015 09:25pm
@عائشہ بحش ، جیسا کے آرٹیکل کچھ آن لائن کاروبار کے متعلق بتایا ہوا ہے اگر آپ اُسے کچھ اس طرح دیکھیں کے آپ فی میل ہیں اور آپ ڈیکوریشن ، سلائی،کڑھائی وغیرہ کا کام اچھے سے جانتی ہیں تو آپ اپنی ویب سائٹ بنا کے اپنے پروڈکٹس خود آن لائن سیل کر سکتی ہیں۔اِسی طرح اور بھی کافی کاروبار ہیں فی میلز کے لیے، لیکن پھر سے وہی بات کی آپ کسی کے مشورے سے نہیں بلکہ اپنی مرضی اور سوچ سے کر سکتی ہیں۔
مدثر حمید Dec 28, 2015 09:27pm
اسلام علیکم۔۔۔۔! بہت ہی اچھا اور معلوماتی آرٹیکل ہے، آپ سے آرٹیکل سے کافی بیروزگار نوجوانوں کو نئی سوچ اور حوصلہ ملے گا۔۔۔۔ امید ہے اگلی قسط میں مزید کچھ نئی معلومات ملیں گی۔
saddam hussain shar Dec 28, 2015 11:18pm
sir iam very impressed of your both columns bcs i think so as u about enterprenuirshp. i was consistantly looking for your todays second column on ths topic. both are very intrested and informative
saddam hussain shar Dec 28, 2015 11:19pm
sir iam very impressed of your both columns bcs i think so as u about enterprenuirshp. i was consistantly looking for your todays second column on ths topic. both are very intrested and informative
Hidden Dec 28, 2015 11:34pm
@عائشہ بحش آپ نے جو کچھ لکھا ہے میں اس کی حمایت کرتا ہوں، لیکن رہ گئی بات حسد کی تو وہ آپ نے غلط لفظ استمعال کیا ہے. لوگ حسد نہیں کرتے، بلکہ یہ چاہتے ہیں کے ہمارا کوئی بھی جاننے والا ہماری طرح ترقی نہ کر سکے. اس سلسلے میں میں آپ کی اور تمام ان لوگوں کی مدد کر سکتا ہوں جو واقعی سنجیدہ ہیں اپنی آمدنی کے اضافے کے لئے. لیکن اس کے لئے ایک شرط ہے. شرط یہ کہ آپ نے مردوں کی طرح یہ ٹھان لینی ہے کہ آپ نے واقعی اپنی آمدنی میں اضافہ کرنا ہے. انٹرپرینیر شپ کے لئے آپ کو سخت محنت کی ضرورت ہے. اگر آپ نے کچھ پوچھنا ہے تو یہاں پہ ہی لکھ دیں. چونکہ میں خود انٹرنٹ پہ کام کرتا ہوں، میں آپ کو ایسے بہت سے طریقے بتاؤں گا جن سے آپ حقیقت میں اپنی آمدنی میں اضافہ کر سکتی ہیں.
mamu Dec 29, 2015 05:08am
میں نے بھی نسوار آئن لائن بچنی شروع کر دی ہے
نجیب احمد سنگھیڑہ Dec 29, 2015 07:53am
بینک یا بینکار قرضہ لینے والے فرد کو اس لیے قرضہ نہیں دیتا کہ وہ قرضہ لینے والے کا بزنس یا کاروبار کے کامیاب یا ناکام ہونے پر غور و غوض کرے۔ بلکہ بینکر صرف تب قرضہ دیتا ہے کہ جب نان مووایبل اور مووایبل جائیداد قرضہ لینے والے بندے کی اس قدر موجود ہو کہ بزنس چاہے ناکام ہو یا کامیاب، قرضہ کی رقم بشمول سود یا مارک اپ اور دیگر چھپائے ہوئے پیسوں کو قرضہ دینے والا دے سکتا ہو یا بذریعہ قانون دی گئی رقم معہ سود بینک واپس لے سکے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ بینکوں سے قرضے لینے کی بجائے ادھر اُدھر سے پکڑ کر کمی بیشی پوری کرنا پسند کرتے ہیں کیونکہ لوگ جانتے ہیں کہ عدالتوں، پولیس اور بینکوں کے ساتھ جس کا ایک دفعہ ٹاکرا ہو گیا، وہ زندگی بھر باہر نہیں نکل سکے گا۔ کہا گیا ہے کہ انٹرپرینیورشپ ایک ایسا کام، جس کا مارکیٹ میں پہلے تصور موجود نہ ہو۔ گویا انٹرپرینیورشپ ڈسکوری یا دریافت کہلائی ! ڈسکوری کے لیے اعلیٰ نصابی اور غیرنصابی تعلیم ہونا ضروری ہے جبکہ کاروبار یا انٹرپرینیوشپ میں وہی لوگ زیادہ تر کام کرتے ہیں جو تعلیم سے بھگوڑے ہوتے ہیں۔ بغیر تعلیم کے تخلیقیت کا پیدا ہونا معجزآ ممکن ہو سکتا ہے !
جارج Dec 29, 2015 11:26am
جزاک اللہ خیر، تقبل اللہ
Zahid Zaidy Dec 29, 2015 11:38am
Excellent Article ! In fact,this article is useful only for the people who have been working online.For starters,very rare people can concentrate on online marketing with right strategies.I suggest and request please send some hints what are the main streamlines i.e Facebook,Linkedin,G+,twitter etc are the main sources of marketing and networking.what i know is there are many search engines like Google,some online directories,many B2B and B2C portals and trading platforms to work on.Any tips and ideas in your next episode anticipating.
Mohammed Asim Baig Dec 29, 2015 11:56am
Jab yeah online ho sakta hai tu phir kia kuch nahi ho sakta ;) http://www.dawnnews.tv/news/1031215/
بلال Dec 29, 2015 12:22pm
@نجیب احمد سنگھیڑہ آپ کی بات ایک حد تک درست ہے۔ ہاں کمپیوٹر سائنس سے متعلقہ کسی شعبے میں انٹرپرینیور بننا چاہتے ہوں تو اس کے لیے پروگرامنگ کی سمجھ کا ہونا ضروری ہے، مگر پروگرامنگ بہرحال اعلٰی تعلیم میں شمار نہیں ہوتی، گھر بیٹھے بھی سیکھی جا سکتی ہے۔ بل گیٹس، ایڈیسن، فورڈ، ان کی اعلیٰ تعلیم کیا تھی آپ ہی بتا دیجیے۔ آپ سے گزارش ہے کہ تبصرہ برائے تبصرہ کرنے کے لیے اپنی طرف سے الفاظ کے مطالب نہ ڈھونڈا کریں۔ انٹرپرینیورشپ کا مطلب دریافت یا ڈسکوری نہیں ہے، بلکہ اچھوتا خیال ہے۔ دونوں چیزوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ دریافت کا مطلب ہے کہ چیز پہلے سے موجود ہو اور کسی نے نہ دیکھی ہو۔ اس اچھوتے خیال کو عملی جامہ پہناتے وقت کامیابی یقینی نہیں ہوتی بلکہ ایک رسک ہوتا ہے اور انٹرپرینیور یہی کرتے ہیں۔
ممتاز حسین Dec 29, 2015 02:17pm
ماشااللہ ، بہت بہترین تحریر ہے، اللہ آپ کو اجر عظیم دے۔ پہلی قسط سے زیادہ بہتر ہے، ذہن میں اٹھنے والے سوالات حل ہو گئے۔
Ali Dec 29, 2015 10:02pm
Thanks for write more
qamer gillani Dec 30, 2015 06:29am
@AJ
qamer gillani Dec 30, 2015 06:36am
Kiya that busnus apna makan tk sale or diya but nakami hui ab ITLY aa kr mazdoori krni par rhi hy wo b nahe milti apnoo sy door raha b nahe jata .or log baten krty hain busnus rny chala tha .logon ke parwa nahe sir
عائشہ بحش Dec 30, 2015 06:21pm
@Hidden آپ جو تعریف بیان کررہے ہیں۔ وہ اس کو حسد ہی کہتے ہیں۔ میں نے غلط لفظ استعمال نہیں کیا۔ میری خیال ہے آپ کی اردو بھی کمزور ہے ۔
عائشہ بحش Dec 30, 2015 06:28pm
@مدثر حمید : مجھے میتھ میں کافی مہارت ہے ۔کلاس ہشتم سے بی ایس سی ڈبل متھ کی طالبات کو پڑھنے کا کافی تجربہ بھی ہے ۔ کیا ریاضی کے مضمون سےمتعلق کوئی کام آن لائن ہوسکتا ہے ۔ ؟ جس سے آمدنی بھی ہو اور مجھے گھر سے باہر بھی نہ جانا پڑے مجھے ویب سائٹ بنانا نہیں آتی بلکہ آئی ٹی سے متعلق بہت کم علم ہے ۔
عائشہ بحش Dec 30, 2015 06:32pm
@نجیب احمد سنگھیڑہ : مجھے آپ کے تبصرہ کی سمجھ نہیں آئی ۔ قرضہ والی بات کو پورے بلاگ میں ہوئی ہی نہیں
نجیب احمد سنگھیڑہ Dec 30, 2015 07:45pm
@عائشہ بحش صاحبہ، آپ خیر سے پڑھی لکھی ہیں اور اس میتھ کے مضمون میں مہارت رکھتی ہیں جس کے بارے میں عام طور پر مشہور ہے کہ یہ مضمون گرلز کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ میتھ مضمون کے تحت یا اپنی تعلیم کے پیش نظر آپ گھر میں روزگار کی خواستگار ہیں تو بہترین اور نفع نقصان کے فوبیا کے بغیر جو کام کیا جا سکتا ہے وہ بچوں اور بڑی کلاسز کی لڑکیوں کو ٹیوشن پڑھانا ہے۔ اس سے آپ کی دلچسپی بھی قائم رہے گی اور ہمجولیوں کے ساتھ ہاسا مخول بھی ملتا رہے گا۔ کاروبار و بزنس کے لیے گھر سے باہر نکلنا ہی پڑتا ہے اور حلقہ یاراں کو وسیع کرنا ضروری ہے جو کہ ایک سوشل بندہ اور جی حضوری کرنے والا بندہ ہی کر سکتا ہے۔ کاروبار اور بزنس کی کمائی اسلام کے نام پر بٹوری جاتی ہے کہ یہ سنت والا پیشہ ہے۔ لیکن یہ سنت کبھی نہیں کوئی کاروباری اور بینکر طبقہ بتاتا کہ کاروبار میں منافع اسلام میں اتنا ہی لینے کی ترغیب دی گئی ہے جتنا کہ آٹے میں لون۔ جبکہ مملکت خدادا میں کاروباری لوگ راتوں رات آسمان کو چھو لیتے ہیں بوجہ ایک چیز کو قیمت خرید و تیار سے پانچ گنا سے بھی زائد فروخت کر کے۔ یہی وجہ ہے کہ کاروباری کمائی کو حلال کہنا بہت مشکل ہے !
نجیب احمد سنگھیڑہ Dec 30, 2015 08:11pm
@عائشہ بحش صاحبہ، سرمائے کی بات ہوئی ہے تو سرمائے کے حصول کے لیے بینکوں سے واسطہ بھی پڑتا ہے اور سرمائے کو بطور قرضہ لیا جاتا ہے۔ المختصر، بات نکلے گی تو دور تلک تو جائے ہی گی
عادل شیخ Jan 03, 2016 10:19pm
بہت خوب ۔ صاحب مضمون جوش پیدا کرنے میں کامیاب ہے۔ جذبہ کامیابی کے لیے نہایت ضروری ہے۔ نیا راستہ تو بہرحال ہر کسی کو خود ہی ڈھونڈنا ہوتا ہے۔ نہایت شکریہ
aHMAD hUSSAIN Jan 06, 2016 02:55pm
VERY NICE آئندہ قسط کا انتظا ہے
surrary Jan 26, 2016 09:51pm
اچھا اور معلوماتی آرٹیکل ہے
syed yousaf Feb 15, 2016 09:12pm
Aoa Apka yeh mazmoon perh kr bohat help mili or kuch naya kerney ki juraau peda hui ha
qari.nasir Feb 16, 2016 07:40am
@Hidden آن لان قرآن پرھانا چاتھا ھوں اگر پ میری مدد کرسکتے ھیں تو آپ کا بھوت شکر یھ ھوگی حضرت میں بھی
Muhammad Faisal Feb 16, 2016 03:54pm
Was very good column but I seen in current time most of successful entrepreneur are from IT sector and they are much successful instead of non IT person like me. I want to know how a non IT person can be a good entrepreneur. Kindly share some information regarding this too. Regards. Muhammad Faisal
Muhammad Nadeem Feb 16, 2016 05:18pm
This idea is a great and very helpful, also I would like to tell about our people who are giving a lot of money to manpower agents for going to Gulf countries, first of all they are loosing money in agents hand and then wasting their lives without their families and then returned back to their homes after 1 or 2 and even 3 years hard work. my suggestion for those don't give money to agents, don't waste life without family for a long time, therefore start your own work with a little amount and long live happily with your family.
Ubaid Feb 16, 2016 08:27pm
@Muhammad Nadeem saab apna kam shoro karny ka kuch samj he nahe araha h k kia shoro kia jaye... mai b Gulf he mai rehta ho pechly 4 years say laikn hath kuch nhe ata h... bus just timr pass h..
zahid altaf Feb 17, 2016 05:29pm
Good is very good. I am happy. You are lectures.

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024