پھولوں کا تصور ذہن میں آتے ہی ایک مسحور کن احساس سرائیت کرنے لگتا ہے۔ پھول محبت اور امن کی علامت مانے جاتے ہیں، مگر یہ پھول جو کبھی کسی کے گلے کا ہار بنتے ہیں، کبھی کلائی کا کنگن تو کبھی کسی حسین عورت کی زلفوں کو مہکاتے ہیں، ان کے کھلنے اور ہم تک پہنچنے کا عمل اتنا آسان نہیں ہے جتنا ہمیں دکھائی دیتا ہے۔ انسان سے پھولوں کا رشتہ اس کے پیدا ہونے سے لے کر رخصت ہونے تک رہتا ہے۔
حیدرآباد سے 18 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا قصبہ وانکی وسی کئی دہائیوں سے گلابوں کی خوشبو سے مہک رہا ہے۔ یہاں کئی سو ایکڑ پر گلاب کے پھولوں کے کھیت آج بھی رنگوں اور خوشبوؤں سے لوگوں کا خير مقدم کرتے ہیں۔ میں اپنے دو دوستوں کے ساتھ جب اس قصبے میں پہنچا تو مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تاحدِ نظر یہاں گلاب کھلے ہوں گے۔ اس وقت صبح کے 6 بجے تھے اور سورج طلوع ہونے کو تھا۔ ہر کھیت گلابوں سے سجا تھا مگر دھند نے ایسا گھیرا ڈال رکھا تھا، کہ سب کچھ دھندلا سا دکھائی دے رہا تھا۔




کھیتوں میں کام کرتے مزدور مظفر نے مجھے پھولوں پر غور کرتے دیکھا تو کہنے لگا کہ "ان گلابوں میں شہیدوں کا لہو شامل ہے"۔ اس کا اشارہ جنگِ میانی کی طرف تھا جو سندھ کے تالپوروں نے انگریزوں کے خلاف 1843 میں لڑی تھی۔ اس جنگ کا ہیرو ہوش محمد 'ہوشو' شیدی کو مانا جاتا ہے۔ میانی کے میدان میں کئی انگریز سپاہیوں کی اجتماعی قبریں بھی ہیں۔
یونانی روایت کے مطابق گلاب کو محبت کی دیوی ایفروڈائٹ نے اپنے آنسوؤں اور اپنے محبوب ایڈونِس کے خون سے تخلیق کیا، جبکہ ایک عربی روایت کہتی ہے کہ گلاب اس وقت تک سفید تھا جب تک ایک بلبل اس کی ٹہنی پہ نہ بیٹھا تھا۔ اس سے قبل اسے سریلے سروں کی خبر نہ تھی، بلبل کی آواز کچھ اور تھی، مگر اس پھول سے اس کی انسیت اتنی بڑھ گئی کہ اس نے پہلی بار اپنے گلے سے مدھر آواز نکالی۔ اس کا پیار اتنا شدید تھا کہ اس نے پھول کو دبوچا تو ایک کانٹا اس کی دل میں پیوست ہوا اور پھر سفید پھول ہمیشہ کے لیے سرخ ہو گیا۔
ایک اندازے کے مطابق گلاب ہماری دھرتی پر ساڑھے تین کروڑ سال سے ہے۔ جس کی کئی اقسام ہیں، چین میں 5000 ہزار سال قبل گلاب کی کاشت ہوئی جس کے بعد یہ مشرق وسطیٰ سے ہوتا ہوا ایشیا پہنچا۔
کھیتوں میں داخل ہوتے ہی احساس ہوا کہ شبنم ساری رات گلابوں کے چہرے دھو رہی تھی اور گلابوں کی پتیوں اور ٹہنیوں پر شبنم کے قطرے موتیوں کی مانند لگ رہے تھے۔ جیسے جیسے سورج کی کرنیں پھولوں کے جسم پر پڑیں، شبنمی قطرے موتیوں کی طرح چمکنے لگے۔




ہمارے وہاں پہنچنے سے قبل ہی لوگ کھیتوں میں کام کر رہے تھے۔ گلاب کے پھولوں کو چننے کا عمل عموماً 5 بجے شروع ہوتا ہے، مگر صبح 4 بجے بھی مزدور سر پر ٹارچ لگا کر پھول چننا شروع کر دیتے ہیں۔ ویسے تو گلاب کے کھیتوں میں سارا سال پھول کھلے ہوتے ہیں اور انہیں بازار تک پہنچانے کا کام بھی جاری رہتا ہے، مگر جون جولائی میں اس میں کمی آجاتی ہے۔ سردیوں کے موسم میں گلابوں کو صبح کے وقت جمع کیا جاتا ہے جبکہ موسم گرما میں شام کے وقت پھول چنے جاتے ہیں۔
جو ہاتھ پھول چنتے چنتے ان کی خوشبو سے مہک جاتے ہیں، ان ہاتھوں میں کانٹے بھی چبھتے ہیں مگر وہ ہاتھ اتنی اجرت نہیں حاصل کر پاتے کہ اپنا گزر بسر بہتر انداز سے کر سکیں۔ خادم حسین روز صبح اٹھ کر پھول چنتا ہے اور پچھلے دس برس سے پھولوں سے اس کا رشتہ قائم ہے مگر اسے ایک کلو پھول چننے پر 37 روپے ملتے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ تاجروں کی اجارہ داری کی وجہ سے جنوری کے ماہ سے اب 32 روپے ملیں گے۔ اگر وہ 10 کلو پھول جمع کرتا ہے تو اسے یومہ 370 روپے ملیں گے مگر کچھ روز بعد یہ رقم بھی کم ہو جائی گی۔





ان پھولوں کو بوریوں میں بھر کر کانٹے تک لایا جاتا ہے، جہاں انہیں تولا جاتا ہے۔ ہر ٹوکری یا چھلی میں دس کلو پھول تولے جاتے ہیں۔ یہاں پر "بندی" کا حساب ہوتا ہے۔ بندی سے مراد پھول چننے والا ایک سال تک کانٹے کے مالک سے ایک غیر تحریر شدہ معاہدہ کرتا ہے کہ وہ کس حساب سے ایک کلو پھول سال بھر دے گا۔ وزن کرنے کے بعد انہیں بڑی بالٹیوں میں رکھا جاتا ہے، جس میں ٹھنڈا پانی اور برف ڈالی جاتی ہے تاکہ پھول زیادہ دیر تک تازہ رہیں۔ اس کے بعد ان بالٹیوں کو ٹرک میں ترتیب سے رکھ کر کراچی، حیدرآباد اور ملک کے دیگر شہروں کے لیے روانہ کیا جاتا ہے۔
مگر اب کچھ وقت سے ماحولیاتی تبدیلیوں اور دیگر عوامل کی وجہ سے پھولوں کی کاشت متاثر ہوئی ہے۔ مظفر کا کہنا ہے کہ خرچ نکالنے کے بعد سال میں ڈھائی سے تین لاکھ روپے کی بچت ہوتی ہے مگر نقلی کھاد اور سیم کی وجہ سے اب پھولوں کی کاشت سخت متاثر ہو رہی ہے جبکہ زرعی ماہر بھی اس سلسلے میں کچھ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ یہاں پر 2000 ایکڑ سے بھی زیادہ رقبے پر پھولوں کی کاشت ہوتی ہے۔ گلاب کے پھولوں کی کاشت کے یہاں تین مراکز ہیں، جن میں مسو بھرگڑی، ہٹڑی اور وانکی وسی شامل ہیں۔ ویسے تو یہاں سفید گلاب کی کاشت بھی ہوتی ہے مگر اس وقت سفید پھول نہیں تھے۔





لیکن اس کہانی کا ایک درد ناک پہلو یہ بھی ہے کہ کچھ زمیندار جو کہ کانٹے پر پھول بیچنے کے محتاج نہیں ہیں وہ بچوں سے جبری مشقت کرواتے ہیں۔ وہ بچے اور بچیاں اسکول نہیں جاتے اور کھیتوں میں مزدوری کر رہے ہیں مگر ان کے حوالے سے کوئی آواز نہیں اٹھائی جاتی۔ کھلتے ہوئے پھولوں کو چننے والے بچوں کے چہرے مرجھائے ہوئے لگتے ہیں۔
اس گاؤں میں آپ کو کارل مارکس، لینن، چی گویرا اور ماؤ زی تنگ کے شیدائی بھی ملیں گے، جو ابھی بھی اپنے نظریات سے ٹس سے مس نہیں ہوئے، اس کا منہ بولتا ثبوت وانکی وسی میں قائم ایک قدیم عمارت کی وہ خستہ حال دیوار ہے جس پر آج بھی چی گویرا کی بڑی سی تصویر آویزاں ہے۔
رنگوں اور خوشبوؤں کی دنیا سے نکلتے ہوئے میں نے خادم حسین سے پوچھا کہ اس کی زندگی پھولوں کے ساتھ کیسی گزر رہی ہے۔ اس نے بس اتنا کہا "ہم پھول چنتے ہیں مگر زندگی میں دکھوں کے اتنے کانٹے ہیں، جن پر کسی بھی موسم میں بہار نہیں آتی۔"
— تصاویر بشکریہ لکھاری۔

تبصرے (12) بند ہیں