اک شخص کتابوں جیسا تھا
وہ ایک سہ پہرتھی، میں نے دروازے پردستک دی۔ دروازہ کھولنے والے نے مجھے خوبصورت پینٹنگز سے سجے مہمان خانے میں بٹھایا۔ کچھ ہی دیر میں میزبان کمرے میں داخل ہوئے۔ میری ان سے یہ پہلی ملاقات تھی اور ان کا نام ”کمال احمد رضوی“ تھا۔
2008 کی اس ملاقات میں ایک اخبار کے لیے ان سے تفصیلی مکالمہ کیا، جس سے اندازہ ہوا کہ وہ عافیت میں ہیں، اپنی زندگی سے مطمئن ہیں اور زیادہ وقت تخلیقی کاموں کے لیے وقف ہے۔ زیادہ میل جول نہیں رکھتے، البتہ کسی کی آمد و رفت پر روک ٹوک بھی نہیں، مگر غیرضروری سرگرمیوں میں شامل ہونے سے پرہیز کرتے ہیں۔ مطمئن چہرے اور ہشاش بشاش شخصیت کے ساتھ، گرم جوشی سے بھرپور ملاقات کی یاد، کمال صاحب کے حوالے سے میرے ذہن میں نقش رہ جانے والا پہلا تاثر تھا۔
ان کی رحلت کے بعد میڈیا میں تعزیتی بیانات کا ایک سیلاب امڈ آیا۔ غیر تصدیق شدہ خبریں تخلیق کی گئیں، ان کی ہمہ جہت فنی شخصیت پر بات کی جاتی تو موضوعات کی کمی نہ تھی مگر تحقیق کا بھاری پتھر کون اٹھاتا؟
اکثر اخبارات نے بھی سطحی بلکہ پرانی تحریروں سے کام چلایا۔ کمال صاحب کو ”معاشرے“ کی اسی منافقت اور ”میڈیا“ کی غیر پیشہ وارانہ حرکات سے نفرت تھی، جس کی وجہ سے انہوں نے خود کو اب تک ان دونوں سے دور رکھا تھا۔ مردہ پرست معاشرے میں رہنے والا ایک سچا فنکار اور کر بھی کیا سکتا ہے؟ سوائے اس کے کہ وہ خود کو سمیٹ لے اور گوشہ نشین ہو جائے، یہی انہوں نے کیا۔
کمال صاحب نے معاشرے کی تلخیوں کو اپنے تخلیق کیے ہوئے کرداروں سے بیان کیا، مگر نہ جانے کب یہ تلخی ان کے کرداروں سے ہوتے ہوئے ان کے مزاج میں بھی اتر گئی۔ وہ معاشرتی رویوں پر بے لاگ گفتگو کرتے۔ سیاسی حالات، حکومتی معاملات، معاشرے میں فنکار کی عزت، عوام میں ان کا احترام، سرکاری اعزازات اور بہت سارے ایسے موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے وہ جذباتی ہو جاتے۔
ان کی تلخ گویائی برداشت کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہ تھی، اسی لیے نہ تو وہ کسی چینل پر گفتگو میں حصہ لیتے دکھائی دیے، نہ ہی تھیٹر اور ڈرامے کے زوال پر کسی کو ان سے رائے لیتے ہوئے دیکھا گیا، کیونکہ اسے دکھانے اور چھاپنے کے لیے بھی تو حوصلہ چاہیے تھا۔ یہ کمال صرف کمال احمد رضوی کا ہی تھا کہ انہوں نے ہمیشہ زندگی کی تلخیوں اور برہنہ حقیقتوں کو قلم بند کیا۔
کمال صاحب نے تھیٹر، ریڈیو اور ٹیلی وژن کے لیے ڈرامے لکھے۔ بطور اداکار اپنے لکھے ہوئے کئی کھیلوں کے علاوہ دیگر ڈراما نگاروں کے کھیلوں میں بھی شامل رہے۔ تھیٹر اور ٹیلی وژن کے لیے ہدایت کاری کے فرائض بھی انجام دیے۔ ریڈیو کے لیے صداکاری کی، طبع زاد افسانے لکھے۔ دیگر زبانوں کے ادب میں دلچسپی نے ان کو ترجمے کی طرف راغب کیا اور انہوں نے کئی مشہور کہانیوں کو ڈرامائی تشکیل دے کرتھیٹر کے لیے پیش کیا۔
انہوں نے سب سے زیادہ مشقت تھیٹر کے میڈیم کے لیے کی، مگر ان کی وجہء شہرت ٹیلی وژن پر پیش کیا جانے والا ڈراما سیریل ”الف نون“ بنا جس کو بعد میں انہوں نے اسٹیج بھی کیا اور اس پر فلم بنانے کی کوشش بھی کی پر اسٹیج اور فلم میں اسے ٹیلی وژن والی کامیابی نہ مل سکی۔
کمال صاحب عالمی ادب میں روسی ادیبوں سے خاص طور پر متاثر تھے، انہوں نے دوستووسکی، ترگنیف، چیخوف، آسٹروفسکی، پشکن اور ٹالسٹائی جیسے ادیبوں کی تخلیقات کا ترجمہ کیا۔ دیگر جن ادیبوں کے فن پاروں کو تراجم میں ڈھالا، ان میں کارسن مک ملر، ماس ہاٹ، جارج ایس کافمین، گولڈونی، دوڑ شیری، اگاتھا کرسٹی، ہنرک ابسن، مولیر، سمرسٹ مام شامل ہیں۔
کمال پاکستانی ادیب سعادت حسن منٹو کے ایک افسانے ”بادشاہت کا خاتمہ“ کو تھیٹر کے لیے پیش کرنا چاہتے تھے۔ ان کی یہ خواہش جب منٹو تک پہنچی تو انہوں نے کہا ”میری زندگی میں تو یہ نہیں ہوسکتا“، جس پر کمال صاحب نے جواب دیا ”ٹھیک ہے، آپ کے مرنے کے بعد کروں گا“ اور پھر اپنے اس قول کو نبھایا۔
گزرتے وقت کے ساتھ معاشرے کے لیے تربیتی پہلوؤں پر غور کرنے کی عادت نے ان سے ڈیل کارنیگی کی کتابوں کے تراجم کروائے۔ وہ ایک زمانے میں تہذیب، آئینہ اور شمع جیسے رسالوں کی ادارت بھی کرتے رہے۔ بچوں کے رسائل ”بچوں کی دنیا“ اور ”تعلیم و تربیت“ کے مدیر بھی رہے۔ بچوں کے لیے ناول کی صنف میں ادب تخلیق کیا اور دیگر زبانوں میں بچوں کے لیے لکھی گئی کہانیوں کے تراجم کیے۔
مختصر عرصے کے لیے بی بی سی اردو سروس سے بھی وابستگی رہی۔ یہ اس شخص کی زندگی کاخلاصہ ہے،جس کا کہنا تھا کہ ”جب میری والدہ کا انتقال ہوا تو میں بہت چھوٹا تھا۔ تنہائی میرے اندر سرایت کر گئی۔ میں اس قدر تنہا تھا کہ میرے پاس کھیلنے کو کھلونے بھی نہیں تھے کہ میں ان سے اپنا وقت کاٹ سکتا۔“ شاید اسی لیے پھر تمام عمر خود کو بہلانے کے لیے اتنے مصروف رہے۔
بارہ برس کی عمر میں پہلی بار اسکول میں شیکسپیئر کے کھیل میں ایک کردار نبھایا، جہاں سے تھیٹر سے لگاؤ ہوا۔ گریجویشن کے بعد ہجرت کی اور پاکستان آگئے۔ پہلے کراچی، پھر لاہور اور دوبارہ کراچی میں سکونت اختیارکی۔ تھیٹر اور ریڈیو کے لیے خدمات انجام دیں مگر شہرت کا دروازہ ٹیلی وژن کے ڈرامے ”الف نون“ سے کھلا جس کی ڈراما نگاری، ہدایت کاری اور اداکاری کے فرائض بھی خود انجام دیے۔
انہوں نے تھیٹر، ریڈیو اور ٹیلی وژن میں اپنے وقت کے تمام معروف فنکاروں کے ساتھ کام کیا۔ انہیں وہ شہرت ملی، جس کی کوئی فنکار تمنا ہی کر سکتا ہے، لیکن کمال صاحب کے مقدر کا ستارہ شہرت کے فلک پر خوب چمکا۔ جہاں اس شعبے میں ان کے بہت سارے فنکار دوست ہوئے، کئی فنکاروں سے پیشہ وارانہ چقپلش بھی رہی۔
کمال صاحب سخت محنتی تھے، اسی لیے زندگی کی گاڑی کو چلانے کے لیے کچھ نہ کچھ کرتے رہے۔ چند برس پہلے انہوں نے ایک تھیٹر کا ڈراما کرنے کا منصوبہ بنایا، جس کے لیے نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس نے ریہرسل کے لیے مطلوبہ سہولتیں بھی فراہم کیں۔ جب کھیل تیار ہوگیا، تو کراچی آرٹس کونسل میں اسے پیش کرنے کے لیے آڈیٹوریم کی تاریخیں نہ ملیں۔ دل برداشتہ ہوگئے اور یوں وہ منصوبہ ادھورا رہ گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں اسی آرٹس کونسل میں ان کے لیے ”اعترافِ کمال“ کے نام سے ایک شام منائی گئی۔
میں سوچتا ہوں کہ کاش میرے ذہن میں ان کا پہلا تاثر ہی برقرار رہتا تو کیا تھا، مگر کئی برسوں بعد 2013 میں کمال صاحب کو انگریزی زبان کے ادبی میلے میں اپنے اردو ڈراموں کی کتابیں فروخت کرتے دیکھا، تو دل پسیج گیا۔ کمال صاحب اپنی بیگم کے ہمراہ کتابوں کے اسٹال پر تشریف فرما تھے۔ بغور دیکھنے پر معلوم ہوا کہ وہ اپنی ہی کتابیں فروخت کر رہے ہیں۔
کئی برس پہلے لاہور سے ”الف نون“ کے عنوان سے ان کے ڈراموں کا مجموعہ شائع ہوا تھا، جس کو اس وقت کے سب سے بڑے ناشر نے شائع کیا تھا، مگر پھر کسی ادبی شرپسند نے اس معصوم شخص کو ناقص مشورہ دیا کہ اس کتاب کو خود چھاپیں۔ پاکستان میں اپنی چھاپی ہوئی کتاب بیچنا نہایت کٹھن کام ہے اور وہ کمال صاحب جیسے کھرے اور خوددار آدمی کے بس کی بات نہ تھی۔
میری پہلی ملاقات میں انہوں نے اپنے مستقبل کے کئی منصوبے بتائے، مگر اس حوالے سے کوئی ارادہ ظاہر نہ کیا تھا، حالانکہ زندگی کے آخری برسوں میں ان کے مراسم جن محدود لوگوں سے رہے، ان میں سے اکثریت عملی طور پر اس کاروبارِ ہنر سے خوب واقف تھی۔
حکومتِ وقت نے انہیں زندگی میں پوچھا نہیں اور معاشرے کا برتاؤ سب کے سامنے ہے۔ کمال صاحب کو بھی اس معاشرے سے کوئی خاص امیدیں نہ تھیں۔ وہ اس کو ”چھچھوروں کا معاشرہ“ کہتے تھے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا” اللہ کرے وہ جو مجھے نظر آ رہا ہے، وہ کسی کو نظر نہ آئے اور ایسا کبھی نہ ہو۔ ہم ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے، ایک دوسرے کے حق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں، جھوٹ اور منافقت سے کام لیتے ہیں۔ ایک دوسرے کے لیے خلوص باقی نہیں رہا۔ آج معاشرہ خودکشی کر رہا ہے، کل کو ردِعمل میں لوگ ایک دوسرے کی جان لینے کے درپے ہوں گے۔“
پھر ان آنکھوں نے یہ منظر دیکھا کہ کمال صاحب اپنی کتابوں کے اسٹال پر بیٹھے گاہکوں کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ یہ رویہ تھا ایک معاشرے کا اپنے عظیم فنکار کے ساتھ۔ بعد از مرگ یاد کیا بھی تو کیا کیا۔ فنکار بوڑھا بھی ہوجائے، مگر اس کے احساسات تو بوڑھے نہیں ہوتے، مگر افسوس اس کے طنز و مزاح پر ہنسنے والوں میں سے کوئی اس کے آنسو پونچھنے نہیں آیا، ہرچند کہ کمال صاحب کا ضبطِ کمال کا تھا، وہ کہا کرتے تھے کہ ”بچپن میں اس قدر تنہا تھا کہ میرے پاس کھیلنے کو کھلونے بھی نہیں تھے۔“ تنہائی تو اب بھی تھی، مگر اس بار اظہار نہ کیا۔
تبصرے (15) بند ہیں