• KHI: Fajr 4:46am Sunrise 6:05am
  • LHR: Fajr 4:03am Sunrise 5:29am
  • ISB: Fajr 4:03am Sunrise 5:31am
  • KHI: Fajr 4:46am Sunrise 6:05am
  • LHR: Fajr 4:03am Sunrise 5:29am
  • ISB: Fajr 4:03am Sunrise 5:31am

کمزور دل باپ اور سنگدل ڈاکومینٹرین

شائع December 16, 2015
16 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک اسکول حملے میں زخمی ہونے والے طالبعلم وحید انجم (دائیں) اپنے والد مومن خان (بائیں) کے ساتھ،۔ — اے ایف پی۔
16 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک اسکول حملے میں زخمی ہونے والے طالبعلم وحید انجم (دائیں) اپنے والد مومن خان (بائیں) کے ساتھ،۔ — اے ایف پی۔

نیوز چینل کے اپنے تیرہ سالہ تجربے میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں کوئی پروجیکٹ کرنے سے گھبرایا ہوں یا پروجیکٹ کے دوران ممکنہ طور پیش آنے والے مسائل کے بارے میں سوچ کر پریشان ہوا ہوں۔

میری پیشہ وارانہ منافقت کہیں یا میرا پیشہ وارانہ روّیہ، ماہِ نومبر کے آخر میں مجھے خیال آیا کہ ایک ایسی دستاویزی فلم بنائی جائے جس میں 16 دسمبر کو شہرِ پشاور میں سفاک دہشتگردوں کی بربریت کا نشانہ بننے والے شہید بچوں کے والدین سے بات چیت کی جائے۔

کافی دن گزر جانے کے بعد جب مجھے ہیڈ آفس سے یہ ڈاکیومینٹری بنانے کی اجازت نا ملی تو میں سمجھ گیا کہ مجھے اجازت نہیں ملے گی اور میں نے اس ڈاکیومینٹری کو اپنے ذہن سے نکال دیا۔

پھر اچانک دسمبر کی پہلی تاریخ کو مجھے ہدایات ملیں کہ کل صبح ہی میں اس کی شوٹ کے لیے پشاور روانہ ہو جاؤں۔

ڈاکیومینٹری کی اجازت ملنے پر میری پیشہ وارانہ خود غرضیت کو خوشی بھی ہوئی، مگر دکھاوے کے طور پر میں نے اتنی دیر سے اجازت دینے پر احتجاج بھی کیا۔

خیر دکھاوے اور نخروں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میں نے اگلی صبح پشاور نکلنے کے انتظامات کرنا شروع کر دیے۔ وقت کم اور مقابلہ سخت ہونے کی وجہ سے میں نے ارادہ کیا کہ میں کل صبح چھ بجے ہی پشاور نکل جاؤں گا۔

رات بھر میں اس ڈاکیومینٹری سے متعلق سوچتا رہا اور جوں جوں میں سوچتا گیا، میری سوچ اور فہم غم کے سمندر میں ڈوبتے گئے۔ بڑا سوچا کہ میں ڈاکیومینٹری ایسے شروع کروں گا، ایسے شاٹس لوں گا، فلانا میوزک لگاؤں گا اور اپنے کریئر کی بہترین ڈاکیومینٹری بنانے کی کوشش کروں گا، مگر پھر تھوڑی دیر بعد ہی غم سے دماغ سن ہونے لگتا۔

اسی شش و پنج میں صبح ہوگئی۔ میں سوچ رہا تھا کہ میں شہید بچوں کے والدین سے کیا کہہ کر انٹرویو لوں گا۔ میں یہ تو کہہ نہیں سکتا کہ چونکہ آپ کا بیٹا آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے حملے میں شہید ہوگیا ہے، اس لیے مجھے انٹرویو دیں۔

اپنے میڈیا کریئر میں میں نے صدر سے لے کر وزیرِ اعظم اور وزیر اعلیٰ سے لے کر گورنرز تک لوگوں کو انٹرویوز کے لیے لائن اپ کیا ہے مگر ڈاکیومینٹری کے لیے شہید بچوں کے والدین کو لائن اپ کرنے میں جتنی گھبراہٹ مجھے ہوئی وہ پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔

صبح چھ بجے نکلنے کا ارادہ اس وجہ سے پورا نہیں ہوسکا کہ اپنی تین سالہ بیٹی کو دیکھ کر میرے دل میں خیال آیا کہ جس طرح میں روز صبح اپنی بیٹی کو اسکول چھوڑنے جاتا ہوں، ویسے ہی شہید ہونے والے بچوں کے والدین نے بھی اپنے بچوں کو اسکول چھوڑا ہوگا۔

اس فکر کے ساتھ میں نے پشاور نکلنے کا پلان تھوڑا لیٹ کیا اور بیٹی کو اسکول چھوڑنے کے بعد نکلنے کا ارادہ کیا۔

صبح آٹھ بجے کے قریب جب میں اپنی بیٹی کو اسکول چھوڑنے والا تھا تو مجھے مسلسل شہید والدین کا خیال ذہن میں آرہا تھا اور یہ سوچ کر میری آنکھیں بہنے لگیں۔ جس پر میری بیٹی نے پوچھا کہ "کیا ہوا بابا؟"۔

معصوم بیٹی کا سوال سن کر میں مزید سہم گیا اور بیٹی کو چومتے ہوئے اسکول چھوڑا اور اسے اپنا خیال رکھنے کا پیغام دیتے ہوئے پشاور چل پڑا۔

راستے میں جب میں نے پشاور میں اپنے کو آرڈینیٹر سے رابطہ کیا تو اس نے مجھ سے وہی سوال کیا جو میرے دماغ میں گونج رہا تھا، کہ ہم شہید بچوں کے والدین کو کیا کہہ کر انٹرویو لیں گے؟

سینیئر ہونے کا ڈراما کرتے ہوئے میں نے اپنے کو آرڈینیٹر سے کہا کہ تم مجھے نمبر دیتے جاؤ، میں خود ہی بات کر لوں گا۔

حیران کن طور پر سب سے پہلے مجھے نمبر چھ سالہ شہید خولہ بی بی کے والد الطاف حسین کا ملا، جسے ملتے ہی میری آنکھوں کے سامنے میری اپنی بیٹی آنے لگی۔

کچھ دیر دل پکا کرنے کے بعد میں نے شہید خولہ کے والد کو فون کیا جو کہ آرمی پبلک اسکول میں انگریزی کے استاد ہیں۔

میرا فون اٹھانے پر خولہ بی بی کے والد نے مجھے اسکول اوقات کے بعد فون کرنے کا کہا، جس کے بعد میں نے کچھ دیر کے لیے سکھ کا سانس لیا۔

کچھ دیر بعد جب مجھے شہید فہد حسین کے والد حوالدار حسین نواب کا نمبر ملا، تو میں نے سوچا کہ چونکہ اب ڈاکیومینٹری بنانی ہی ہے تو مجھے ہمت کرنی ہی ہوگی، جس کے بعد ایک کے بعد ایک میں نے فون کرنا شروع کر دیے۔

دورانِ سفر شہید بچوں کے والدین سے پوچھنے کے لیے سوالات لکھنے شروع کیے تو سات گھنٹوں کے سفر کے دوران 4 صفحات پر 30 سوالات تیار ہو چکے تھے۔

خوش قسمتی سے پہنچنے کے ساتھ ہی فہد حسین شہید کے والد سے ان کے گھر جانے کا ٹائم مل گیا۔ گھر کے اندر بیٹھتے ہی میں نے شہید فہد کے لیے مغفرت کی دعا کرنے کا کہا، جس کے جواب میں فہد کے والد نے کہا کہ اسے مغفرت کی دعاؤں کی کیا ضرورت ہے؟ شرمندہ ہوتے ہوئے میں نے ارادہ کیا کہ اب کسی بھی والدین سے مغفرت کی دعا کا نہیں کہوں گا۔

انٹرویو جب شروع ہوا تو میں نے اپنے سوالات والے چار صفحات پکڑ لیے اور ریکارڈنگ شروع کردی۔ بے حِس کیمرہ اور برقی مائیک کیمرہ مین کی ہدایات کے مطابق ریکارڈنگ کرتے رہے، مگر مجھ سمیت میرا کیمرہ مین، کو آرڈینیٹر اور ڈرائیور اپنے جذبات کی تاب نا لاتے ہوئے رونے لگے۔ جوں جوں شہید فہد کے والد اپنے بچے کی کہانیاں اور قصّے سناتے رہے، ہم زار و قطار روتے رہے مگر ساتھ ساتھ سنگدل ڈاکیومینٹری میکر کا کردار نبھاتے رہے۔

اس طرح ایک کے بعد ایک انٹرویو لائن اپ ہوتے رہے۔ پشاور میں اپنے چار روزہ قیام کے دوران میں نے 7 شہید بچوں کے والدین سے انٹرویو کیے مگر میری سنگدلی اور بے حسی نے مجھے 20 سوالات سے زیادہ نہ کرنے دیے۔

یہ بات ایک طرح سے حیران کن ہے بھی اور نہیں بھی، کہ شہید بچوں کے والد بیٹوں کی شہادت کے بعد پھر بھی حوصلہ مند تھے، مگر مائیں کسی بھی طرح اس غم پر قابو پانے میں ناکام ہیں۔

شوٹ کے دوران سب سے پہلے شہید محمد شہیر خان کی والدہ مسز شگفتہ طاہر کا انٹرویو کیا۔ انٹرویو سے پہلے تو شہیر کی والدہ کافی حوصلہ مند لگیں مگر انٹرویو شروع ہوتے ہی وہ رونے لگیں اور رو رو کر اپنے شہید بیٹے کے قصّے سنانے لگیں۔

روتی ماں کو دیکھ کر مجھے اپنے آپ پر غصّہ آنے لگا کہ میں ایسے سوالات صرف اس لیے پوچھ رہا ہوں تاکہ شہید بچوں کے والدین روئیں۔

سات والدین کے انٹرویوز میں سے سب سے زیادہ مشکل ترین انٹرویو میرے لیے خولہ بی بی کے والد الطاف حسین کا تھا۔ چھ سالہ خولہ بی بی کا اسکول میں پہلا دن تھا۔ خولہ بی بی کی شہادت کے بعد باپ کی روداد سنتے ہوئے میری آنکھوں کے سامنے اپنی تین سالہ بیٹی آتی تھی اور میں حوصلہ مند باپ الطاف حسین سے زیادہ رویا۔

سات والدین کے انٹرویوز کرنے کے بعد میں لاہور واپس نکل پڑا اور سارے راستے اپنے آپ کو کوستا رہا۔ لاہور آکر ایڈیٹنگ کا مشکل ترین مرحلہ شروع ہوا۔ ایڈیٹنگ کے دوران انہی انٹرویوز کو سن سن کر ایک بار پھر آنکھیں تر ہونے لگیں، جو میں نے خود شوٹ کیے تھے۔ فرق صرف یہ تھا کہ پہلے میرے ساتھ میرا کیمرہ مین اور ڈرائیور روتے تھے اور اب ایڈیٹر بھی رونے میں ساتھ تھا۔

صحافی کے پیشے میں جذبات کے لیے کوئی جگہ نہیں، اور ہم لوگ بڑے دل جگر گردے کے ساتھ انتہائی کریہہ اور پرتشدد مناظر دیکھ کر بھی مشینی انداز میں اپنا کام کرنے کے عادی ہیں۔ لیکن ان بچوں کی قربانی نے ہمیں بھی تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔

آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملے کے بعد سے ہر قتل و غارت دیکھ کر سب سے پہلا خیال انہی بچوں کا آتا ہے۔ کسی نے سچ ہی کہا تھا، اس سانحے نے سب کچھ تبدیل کر دیا ہے، پاکستان کو بھی، اور پاکستانیوں کو بھی۔

ڈان کا اے پی ایس حملے کی پہلی برسی پر شہدا کی یاد میں خصوصی فیچر


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں.

نوید نسیم

بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے، مگر وہ اخراجِ جذبات، خیالات و تجزیات کے لیے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : navid_nasim@

nasim.naveed@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (3) بند ہیں

Ashian Ali Malik Dec 16, 2015 05:58pm
ہم نے تو ٹی وی پر وہ منظر بھی دیکھا ہے جب ٹی وی رپورٹر ایک شہید بچے کی قبر پر ماتم کرتی ماں کے سامنے مائک رکھ کر سوال داغا تھا ( آپ کیسا محسوس کر رہی ہیں) پاکستان کا میڈیا ابھی کچھ بھی سیکھ نہیں سکا ہے جناب ۔
Afzal Sherazi Dec 16, 2015 06:37pm
News Waly serf ak he din yad krty hai . 16 Des. He din yad krna chahye . 16 des. . Or hr sal Aam tatil hona chahye k aany waly bchoo ko b pta ho jae k asi din kia hwa ta . . . Waqi ye tabdeli wali din hai.
Nomi Dec 17, 2015 09:45am
media walay to 16 DEC k din bhe yahi kahna chahtay hain k 1) aaj seb se pahle main ne shaheed bachon ke waaldain ka interview liya 2) aaj sab se pahle interview main APS pohcha 3) aaj sab se pahle main kabrastan gaya 4) sab se pahle 5) sab se pahle bas yahi hamara media rah gaya hai "SAB SE PAHLY"

کارٹون

کارٹون : 19 اپریل 2025
کارٹون : 18 اپریل 2025