اپنے ملک کے بارے میں سوچیں تو دہشتگردی، انتہاپسندی، فرقہ واریت، کرپشن، لوڈشیڈنگ اور مہنگائی جیسے برے حوالے ذہن میں آتے ہیں مگر ان سب کے باوجود ہم پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں. سوچیں اگر آپ کے سامنے کچھ اچھے حوالے پیش کیے جائیں تو آپ کی وطن عزیز سے محبت پیمانہ کہاں پہنچ جائے گا۔
اگر آپ سیاح ہیں یا گھومنے پھرنے کے شوقین تو یقیناً اگلے سال بھی آپ کے شیڈول میں کوئی نہ کوئی مقام ہو گا جہاں آپ جانا چاہیں گے۔
ڈان نیوز کی ویب سائٹ پر تواتر کے ساتھ پاکستان کے خوبصورت اور تاریخی مقامات کے حوالے سے خصوصی تصاویری فیچرز شائع کیے جاتے ہیں جس کا مقصد وطن عزیز کے مثبت پہلو کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ سیاحوں کو آگہی فراہم کرنا بھی ہے.
ہم نے یہاں انہی تصاویری فیچرز میں سے 16 ایسے مقامات کا انتخاب کیا ہے جو آپ کو ضرور دیکھنے چاہییں.
یہ تجربہ آپ کے لیے یقیناً ناقابل فراموش ثابت ہوگا۔
وادی نلتر، گلگت بلتستان
گلگت سے ڈھائی گھنٹے کے فاصلے پر واقع وادی نلتر اپنی رنگین جھیلوں کی وجہ سے مشہور ہے، یہاں دنیا کا بہترین آلو بھی کاشت ہوتا ہے۔ چیڑ کے جنگلات سے گھِری یہ وادی دنیا سے الگ تھلگ اور پرسکون جگہ معلوم ہوتی ہے۔ سید مہدی بخاری کے بقول 'ٹیلی پیتھی کرتی جھیلیں، ایک سحر کی داستان، ایک مصور کا شاہکار، جس کے زیرِ اثر کوئی بھی انسان خود سے بولنے لگے، سب کچھ اگلنے لگے۔ انسان لَو بلڈ پریشر کے مریض کی طرح ایک جگہ ساکت ٹکٹکی باندھے بیٹھا رہ جاتا ہے اور سننے والا بھی دل پر یوں دستِ تسلی رکھتا ہے کہ روح تک مسیحائی کی تاثیر اترتی محسوس ہوتی ہے۔'
خوبصورتی کے استعارے : راما اور نلتر
وادی نیلم، آزاد کشمیر
آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کے شمال کی جانب چہلہ بانڈی پل سے شروع ہو کر تاﺅبٹ تک 240 کلومیٹر کی مسافت پر پھیلی ہوئی حسین و جمیل وادی کا نام نیلم ہے۔ یہ وادی اپنے نام کی طرح خوبصورت ہے۔
وادی نیلم کا شمار پاکستانی کشمیر کی خوبصورت ترین وادیوں میں ہوتا ہے جہاں دریا، صاف اور ٹھنڈے پانی کے بڑے بڑے نالے، چشمے، جنگلات اور سرسبز پہاڑ ہیں۔ جا بجا بہتے پانی اور بلند پہاڑوں سے گرتی آبشاریں ہیں جن کے تیز دھار دودھیا پانی سڑک کے اوپر سے بہے چلے جاتے ہیں اور بڑے بڑے پتھروں سے سر پٹختے آخر دریائے نیلم کے مٹیالے پانیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔
یہاں کی مسحور کن خوبصورتی کے لیے یہاں بھی دیکھیں : نیل گگن تلے پاکستان کا نیلم
شنگریلا ریزورٹس
قراقرم ہائی وے کو جگلوٹ کے مقام سے تھوڑا آگے چھوڑتی ہوئی ایک تنگ بھربھری اور خشک پہاڑوں کے درمیاں بل کھاتی سڑک اسکردو کی طرف مڑ جاتی ہے۔ سات گھنٹے کی اس مسافت میں کئی بستیاں، پہاڑی نالے اور خوش اخلاق لوگ مسافر کا استقبال کرتے ہیں۔ دریائے سندھ پر بنا لکڑی کا قدیم پل عبور کرتے ہی ایک سڑک سیاحوں کی جنت شنگریلا کی راہ لیتی ہے. یہ سیاحوں کے لیے ایک مشہور تفریح گاہ ہے جو کہ اسکردو شہر سے بذریعہ گاڑی تقریباً 25 منٹ کی دوری پر ہے- شنگریلا ریسٹ ہاؤس کی خاص بات اس میں موجود ریسٹورنٹ ہے جو کہ ایک ایئر کرافٹ کے ڈھانچے میں بنایا گیا ہے۔
وادی گوجال
وادی گوجال چین اور افغانستان کے ساتھ واقع پاکستان کا سرحدی علاقہ ہے۔ چین کے ساتھ گوجال کی سرحد خنجراب کے مقام پر ملتی ہے جو سطح سمندر سے تقریبا 15,397 فٹ بلندی پر ہونے کی وجہ سے سالہا سال برف سے ڈھکی رہتی ہے۔ شمال مغرب میں گوجال کا علاقہ چپورسن واقع ہے جس کی سرحدیں براہ راست افغانستان کے علاقے واخان سے لگتی ہیں۔
واخان کا علاقہ تقریبا 6 میل چوڑا ہے، جس کے بعد تاجکستان کی سرحد شروع ہوتی ہے۔ پاکستان کو چین سے ملانے والی شاہراہ قراقرم بھی وادی گوجال سے گزرتے ہوئے خنجراب کے مقام پر چین میں داخل ہوتی ہے۔ اس کی خوبصورتی کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، یہ تصاویر ہی سب کچھ بتانے کے لیے کافی ہیں۔
گوجال: جہاں سے پاکستان 'شروع' ہوتا ہے
دیوسائی
ہمالیہ کے دامن میں واقع دیوسائی دنیا کا سب سے بلند اور اپنی نوعیت کا واحد پہاڑی میدان ہے جو اپنے کسی بھی مقام پر 4000 میٹر سے کم بلند نہیں۔ سال کے 8 ماہ یہ مقام برف سے ڈھکا رہتا ہے مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ گرمیوں کے 4 مہینوں میں پہاڑی ڈھلوانوں اور گھاٹیوں پر مشتمل 3000 مربع کلومیٹر کے اس قدرے ہموار میدانوں کی زمین پر ہزار ہا رنگ کے شوخ جنگلی پھول تو جابجا کھلتے ہیں، مگر کہیں ایک بھی درخت نہیں ملتا۔ شیوسر جھیل بھی اس کا حصہ ہے۔یہ جھیل دنیا کی بلند ترین جھیلوں میں سے ایک ہے، گہرے نیلے پانی، برف پوش پہاڑیوں، سرسبز گھاس اور رنگ برنگے پھولوں کے ساتھ یہ منفرد جھیل خوبصورتی میں بھی اپنی مثال آپ ہے۔
یہاں کی مزید تصاویر کے لیے کلک کریں : دیوسائی: جہاں خاموشی گنگناتی ہے
راما میڈو
استور سے گیارہ کلومیٹر دور راما گاؤں واقع ہے جسے شمال کے خوبصورت ترین دیہات میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔ گاؤں کے بعد راما کا حسین میدان ہے جسے راما میڈو پکارا جاتا ہے۔ ہمارے بلاگر سید مہدی بخاری نے اس جگہ کی تصویر کشی ان الفاظ میں کی ہے ' کھیتوں میں کام کرتی محنت کش عورتیں، اور ان کے ہَوا میں لہراتے رنگین آنچل، مہکتی فضا، خوش باش چہرے، کھِلکھِلاتے بچے، جھومتے درخت، مڑتی راہیں، بہتے پانی، راما گاؤں کی پہچان ہیں۔
اسی طرح اگر آپ کے سامنے ایک کھلا سرسبز میدان ہو، میدان میں نالیوں کی صورت میں بہتا ٹھنڈا برف دودھیا پانی ہو، پانی کے کناروں پر میدان میں جا بجا بھیڑیں، گائیں چر رہی ہوں، ارد گرد چیڑ کے لمبے لمبے سرسبز درخت ہوں، میدان کے عقب میں پہاڑی ڈھلوان پر ٹِکا چیڑ کا جنگل ہو اور اس کے اوپر چونگڑا کی برفپوش چوٹی، چوٹی کے ساتھ نانگا پربت کی جنوبی دیوار ہو، نیلے آسمان پر بادلوں کے ٹکڑے پہاڑ کی چوٹیوں کو چھوتے گزر رہے ہوں، دھوپ ایسے کھِلتی ہو جیسے بڑا سا آئینہ منعکس ہو کر ہرجگہ اجال دے، تو یقینی طور پر آپ راما میڈو میں ہیں'۔
پائے
وادی شوگران سے اوپر جائیں تو ہندوکش کے پہاڑوں پر سرسبز پائے کا وسیع میدان اپنے اندر سیاحوں کو کھینچنے کی زبردست کشش رکھتا ہے۔ اکثر اوقات دھند اور بادلوں میں گھِرے اس مقام کو جگہ جگہ بنے پانی بھرے چھوٹے گڑھے، گھڑ سوار، جنگلی پھول اور مکڑا پِیک کی سرسبز چوٹی مل کر جادو اثر بنا دیتے ہیں۔ مکڑا چوٹی اور ملکہ پربت کے سے گھری ہوئی پائے جھیل کا نظارہ بھی یہاں کا یادگار تجربہ ثابت ہوسکتا ہے۔
ایون اور وادی بمبوریت
ایون ضلع چترال کا ایک گاﺅں ہے جو چترال شہر کے جنوب میں بارہ کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے بمبوریت کے سنگم پر واقع ہے۔ پہاڑوں میں گھرے اس گاﺅں کی خوبصورتی کو بیان کرنے کے لیے الفاظ موجود نہیں۔ اسی طرح وادی بمبوریت ہے جو ایون سے آگے ہے، یہ کالاش کی تین وادیوں میں سے ایک ہے۔
چترال سے لگ بھگ دو گھنٹے کا سفر کرکے بمبوریت پہنچا جاسکتا ہے۔ کالاش مقامی باشندے خود کو سکندرِ اعظم کی اولاد مانتے ہیں اور اپنا تعلق یونان سے جوڑتے ہیں۔ وادی بمبوریت انتہائی سرسبز اور بارونق جگہ ہے مگر پھر بھی یہاں سکوت اور سکون محسوس کیا جاسکتا ہے۔
مزید تصاویر دیکھیں : شندور سے کالاش: کشور حسین شاد باد
سفید محل، سوات
”مرغزار“ ضلع سوات کا واحد پرفضا مقام ہے جو مرکزی شہر مینگورہ سے تقریباً بارہ کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ سیاح صرف قدرتی حسن اور معتدل موسم کی وجہ سے مرغزار کا رخ نہیں کرتے بلکہ وہاں پر قائم ریاست سوات دور کی ایک تاریخی عمارت سفید محل (1941 ) کی سیر کرنے بھی جاتے ہیں۔
جدید ریاست سوات کے بانی میاں گل عبدالودود المعروف بادشاہ صاحب (1881 تا 1971 ) کے حکم سے جب 1941 کو سفید محل کی تعمیر مکمل ہوئی، تو اس محل کی بدولت مرغزار کا علاقہ ایک طرح سے ریاست سوات کے موسم گرما کا دارالحکومت ٹھہرا۔ آج بھی سات دہائیاں گزرنے کے باوجود سفید محل مرجع خلائق ہے۔گرمیوں کے ساتھ ساتھ موسم سرما میں برفباری کے بعد بھی اس محل کی خوبصورتی دیکھنے کے لیے لائق ہوتی ہے۔
اس جگہ کی خوبصورتی کے لیے دیکھیں : سحر طاری کر دینے والا سوات کا ’’ سفید محل‘‘
کیرتھر کا خطہ
اس خطے کی تاریخ اتنی بھرپور ہے کہ ہر ایک وقت کی بھول بھلیوں میں گم ہوجاتا ہے، یہاں متعدد چوٹیوں پر مشتمل پہاڑی سلسلہ بلوچستان اور سندھ کے درمیان ایک قدرتی سرحد بناتا ہے جن میں گورکھ ہل (5700)، کٹے جی قبر (6877) اور بندو جی قبر (7112) نمایاں ہیں۔
150میل تک پھیلا علاقہ ندیوں، چشموں اور تاریخی مقامات کی بدولت ایک مثالی تفریح گاہ کی حیثیت رکھتا ہے مگر افسوس کا امر یہ ہے کہ یہاں آنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہاں کے مقامی رہائشی سیاحوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے بہت زیادہ بے تاب ہیں اور اپنے علاقے کا چہرہ بہتر بنانا چاہتے ہیں۔
مبارک ولیج، کراچی
مبارک ولیج کراچی کا دوسرا بڑا ماہی گیر گاﺅں ہے جس کی سرحدیں گڈانی (بلوچستان) سے لگتی ہیں، یہاں کے نظارے سنہری چٹانوں اور نیلگوں شفاف پانی کے انوکھے امتزاج کے گھیرے میں لپٹے نظر آتے ہیں۔ شہر کے شوروغل سے دور یہ مقام آپ کا بے پناہ محبت کے ساتھ استقبال کرتا ہے۔ جیسے ہی آپ ساحل کے قریب پہنچتے ہیں وہاں شیشے کی طرح شفاف پانی میں ڈولتی لنگرانداز کشتیاں نظر آنے لگتی ہیں۔
یہ بستی کیسی ہے جاننے لیے مزید پڑھیں : مبارک ولیج : بے مثال خوبصورتی کی مالک ساحلی بستی
دریائے چناب کے کنارے پنجاب کا دیہی چہرہ
صوبہ پنجاب کو اللہ تعالی نے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے سونا اگلتی،زمینیں لہلاتے کھیت و نگار رنگ موسم قدرت کا عطیہ ہیں موسم سرما رخصت ہوتا ہے تو موسم بہار کی رونقیں ہر سو پھیلنا شروع ہوجاتی ہیں۔
جاڑے کے اختتام پر پیڑ پودے پھر سے سبزے کی چادر اوڑھتے ہیں ہر سو سرسوں کے لہراتے کھیت نئی زندگی کی آمد کا پتہ دیتے ہیں۔ سید مہدی بخاری کے بقول دریائے چناب کے کنارے آباد سیالکوٹ ہنرمندوں کے شہر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ شاید چناب کا ہی اثر ہے کہ جس کے پانیوں میں ایسا امرت گھلا ہے کہ اس کے کنارے بسنے والے شہر، بستیاں، گاؤں زمین کے ساتھ ذہن سے بھی سدابہار زرخیز ہیں۔ اقبال، فیض احمد فیض اور شیوکمار بٹالوی سمیت کئی ذہین لوگوں نے یہاں سے جنم لیا۔ دریائے چناب شہر سے 20 کلومیٹر دور مرالہ کے مقام پر پرسکون بہتا رہتا ہے۔
گانچھے
سنگلاخ نوکیلے پہاڑوں، بہتے نیلگوں پانیوں، بلندی سے گرتی آبشاروں کی یہ سرزمین قدرتی و انسانی حسن سے مالا مال ہے۔ گانچھے کا صدر مقام خپلو اپنے نام کی طرح خوبصورت ہے۔ دریائے شیوک کے کنارے بسی یہ آبادی آج بھی اتنی ہی سادہ و خالص ہے جتنی صدیوں پہلے تھی۔ خپلو کو چھوڑ کر آگے بڑھیں تو اسی بل کھاتی سڑک پر دریائے شیوک کا کھلا میدان آتا ہے جہاں یہ دریا پھیل کر نالیوں کی صورت میں اپنے وسیع کنکر بھرے میدان میں بہتا ملتا ہے۔ یہیں سے اس کے عقب میں مشہ بروم پِیک کی چوٹی کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان کے اس جھومر کی تصویری سیر کریں
رنی کوٹ
26 کلومیٹر رقبے پر پھیلا ہوا یہ دنیا کا سب سے بڑا قلعہ ہے، مگر اس کے باوجود حکام یہاں سیاحت کو فروغ دینے میں ناکام رہے ہیں۔ کراچی سے اس قلعے تک رسائی نہایت آسان ہے اور قومی شاہراہ کے ذریعے یہاں پہنچا جا سکتا ہے. کراچی سے نکلنے کے بعد دادو کی جانب انڈس ہائی وے پر سفر کریں۔
اس سڑک کی حالت بہترین ہے اور سندھی قوم پرست جی ایم سید کے آبائی قصبے سن تک ایک گھنٹے کا سفر ہے۔ اس قصبے سے کچھ آگے ایک دوراہا آتا ہے، ایک زنگ آلود بورڈ پر اعلان کیا گیا ہے کہ رنی کوٹ یہاں سے لگ بھگ تیس کلو میٹر دور واقع ہے۔ اگرچہ سڑک کافی خراب ہے مگر پھر بھی یہ فاصلہ تیس سے چالیس منٹ میں طے ہوجاتا ہے۔
پراسرار رنی کوٹ: ' دنیا کا سب سے بڑا قلعہ'
بہاولپور
پنجاب کی سابقہ ریاست بہاولپور تاریخی عمارات، یادگاروں اور باغات کے خزانے کی مالک ہے جن کے بارے میں آپ نے کبھی سنا بھی نہیں ہوگا۔ .یہ شہر دریائے ستلج کے بائیں کنارے پر پشاور کراچی کی ریلوے لائن پر واقع ہے، صحرائی علاقے کے ساتھ یہاں سرسبز باغات بھی آپ کی نظروں کو تسکین پہنچاتے ہیں جبکہ محلات کی شان و شوکت مرعوب کردیتی ہے۔
گورکھ ہل
برفباری اور سندھ میں ؟ سننے میں تو یہ کافی افسانوی سا لگے گا مگر یہ صوبہ سندھ میں ایک مقام ایسا ہے جہاں موسم سرما میں حقیقت میں برفباری ہوتی ہے، 2008ءمیں تو یہاں کی تمام پہاڑیاں ہی برف کی تہہ سے ڈھک گئی تھیں۔
گورکھ ہل سطح سمندر سے 5688 فٹ بلند ایک دلکش مقام ہے اور یہ کیرتھر پہاڑی سلسلے کا حصہ ہے جس نے مغرب سے سندھ کی سرحد کو بلوچستان سے ملا رکھا ہے۔
تبصرے (61) بند ہیں