• KHI: Maghrib 6:00pm Isha 7:20pm
  • LHR: Maghrib 5:16pm Isha 6:42pm
  • ISB: Maghrib 5:16pm Isha 6:45pm
  • KHI: Maghrib 6:00pm Isha 7:20pm
  • LHR: Maghrib 5:16pm Isha 6:42pm
  • ISB: Maghrib 5:16pm Isha 6:45pm
شائع December 14, 2015

جب ہم گزرے وقت کا ذکر کرتے ہیں تو ہم پر ایک عجیب سی کیفیت کی چادر تن جاتی ہے، اور ماضی کا تصور جتنا قدیم ہوتا جاتا ہے ایک دھند چھانے لگتی ہے۔ اس دھند میں ایک سحر پوشیدہ ہوتا ہے جو آپ کو ماضی کے ان دنوں میں لے جاتا ہے، جو ہم نے کبھی نہیں دیکھے، بس کتابوں کے اوراق پر جمے الفاظ ہمیں سناتے ہیں اور ہم ذہن میں ان دنوں کو بننے لگ پڑتے ہیں۔

تھوڑا تصور کریں جب رچرڈ برٹن سخت سردیوں کے موسم میں اس علاقے "سونڈا" سے گزرا تھا، تب شب و روز کیسے ہوں گے؟ وہ تحریر کرتا ہے کہ: "ہم صبح سے تین بار راستہ بھول چکے ہیں۔ سخت سردی ہے اور ہم پہاڑیوں سے اترتے ہیں تو زرخیز زمین آجاتی ہے۔ چار سو خاموشی ہے اور بس مختلف پرندوں کی بولیاں سن رہے ہیں۔ کہیں کہیں گندم کے کھیت بھی نظر آتے ہیں۔"

لیکن اب اس علاقے میں کوئی خاموشی نہیں ہے۔ راستے ہیں کہ آتی جاتی گاڑیوں کے شور سے بھرے پڑے ہیں۔ مجھے نہیں پتہ کہ 'تحفتہ الکرام' کے مصنف کی بات میں کتنی صداقت ہے کہ اس شہر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس خطے میں ایک کامل بزرگ رہتے تھے جو 'سر سونڈر' کے راگ کو بے حد پسند کرتے تھے اور خوش ہوکر حاجت مندوں کی مرادیں پوری کیا کرتے تھے۔ چنانچہ عام لوگوں کی زبان پر یہ خطہ اسی راگ کے نام سے مشہور ہوگیا۔ جب جام تماچی نے اس شہر کی بنیاد رکھی تو اس نے بھی اس کا یہ ہی نام رکھا۔

سونڈہ کا تاریخی قبرستان.
سونڈہ کا تاریخی قبرستان.
قبرستان اب زبوں حالی کا شکار ہے.
قبرستان اب زبوں حالی کا شکار ہے.

طغی، جو ایک موچی اور غلام تھا، ترقی کرتا اچھے عہدوں پر پہنچ گیا۔ اور جب اسے ذمہ داری دے کر 1347 میں گجرات بھیجا گیا تو اس نے وہاں قتلغ خان سے مل کر اپنے محسن محمد تغلق سے بغاوت کر دی، مگر 'کاڈی' کی جنگ ہار کر 'کچھ' کی طرف بھاگ گیا، جہاں 'سمہ جاڑیجوں' کا راج تھا اور ان کے سندھ کے سومروں اور سموں سے اچھے تعلقات تھے، جس کی وجہ سے طغی کو ٹھٹھہ پہنچانے کے لیے کچھ کے 'جاڑیجوں' نے مدد کی۔

محمد تغلق طغی کو سبق سکھانے اور ٹھٹھہ پر حملہ کرنے کے جنون میں سونڈا آکر پہنچا۔ بارشوں کا موسم تھا۔ کہا جاتا ہے کہ مچھلی کھانے کی وجہ سے اس کی طبیعت خراب ہو گئی اور 20 مارچ 1350 میں اس کا انتقال ہوگیا، جس کے ساتھ ہی سومرا سرداروں کا زمانہ بھی اپنے اختتام کو پہنچا۔

ہر دور کی اپنی خوبصورتیاں اور بدصورتیاں ہوتی ہیں، کچھ زمانوں کی جھولیوں میں مثبت عملوں کے پھول زیادہ ہوتے ہیں اور کچھ زمانوں کی جھولیوں میں کانٹے بہت ہوتے ہیں۔ ہم اگر تعمیر کے حوالے سے ایک سرسری جائزہ لیں تو موئن جو دڑو اور ہڑپہ کی تہذیب سے لے کر بارہویں صدی کی آخر تک فن تعمیر کی تقریباً پانچ ہزار برس کی شاندار تاریخ موجود ہے۔ تاریخ کے اوراق سے پتہ چلتا ہے کہ آریوں کے آنے کے بعد فنِ تعمیر ایک جمود کا شکار ہوئی اس کے اسباب یہ تھے کہ آریہ مقامی لوگوں سے زیادہ تیز مزاج، مسلح اور جھگڑالو تھے۔

تیرہ سو سے پانچ سو قبلِ مسیح تک مٹی سے بنی اینٹوں اور لکڑیوں سے عمارتیں تعمیر ہوتی رہیں، گھر اور عبادت گاہیں بنتی رہیں، مگر اب ان کا کوئی نام و نشان نہیں ملتا۔ اشوک کے زمانے میں فن تعمیر کو ایک نیا راستہ ملا۔ پہلے جو عمارت سازی تھی، وہ سادہ تھی مگر اس زمانے میں باریک اور نفیس پھول اور بوٹوں کی سنگ تراشی کا فن اپنے کمال کو پہنچا۔

ڈاکٹر احمد حسن دانی لکھتے ہیں: "سندھ، ہندوستان کا وہ حصہ رہی جہاں انسانی تہذیب نے سب سے پہلے آنکھ کھولی، جیسا کہ سندھ میں بدھ مت، جین مت اور برہمنوں کے اثرات موجود تھے، اس لیے ان سب کا اثر اسلامی فن تعمیر پر بھی ہوا۔ اگر ہم مسجدوں کی تعمیر کو دیکھیں تو ترکی، ایران، مصر اور ہند کی تعمیر کا اثر ہمیں نظر آئے گا۔''

ٹھٹھہ سے حیدرآباد جانے والے راستے پر 35 کلومیٹر کا سفر کر کے میں اس پہاڑی پر پہنچا جس کے جنوب میں سونڈا کا چھوٹا سا شہر اور پہاڑی کے مغرب میں سونڈا کے نام سے پکارے جانے والا وہ وسیع قبرستان پھیلا ہوا تھا۔ ہزاروں قبریں ہیں جو پیلے رنگ میں ایک جیسی نظر آتی ہیں۔ تیز دھوپ ہو، بارشیں ہوں یا ٹھنڈی چاندنی کی راتیں یہ قبریں صدیوں سے آنکھیں موندے یہیں پڑی ہیں۔ اور ان قبروں پر سنگ تراشی کا نازک و نفیس اپنی خوبصورتی اور نزاکت میں لاجواب ہے۔ قبروں پر پیلے پتھر کی سلوں پر جنگ کے مناظر کندہ ہیں۔

جنگ میں مارے جانے والوں کی قبروں کی نشاندہی کے لیے پتھروں کے ستون گاڑے گئے ہیں.
جنگ میں مارے جانے والوں کی قبروں کی نشاندہی کے لیے پتھروں کے ستون گاڑے گئے ہیں.
ایک قبر پر جنگ کا منظر کندہ کیا گیا ہے.
ایک قبر پر جنگ کا منظر کندہ کیا گیا ہے.
ایک قبر پر جنگ کا منظر کندہ کیا گیا ہے.
ایک قبر پر جنگ کا منظر کندہ کیا گیا ہے.
قبرستان کی زیادہ تر قبریں زبوں حالی کا شکار ہیں.
قبرستان کی زیادہ تر قبریں زبوں حالی کا شکار ہیں.
قبرستان کی زیادہ تر قبریں زبوں حالی کا شکار ہیں.
قبرستان کی زیادہ تر قبریں زبوں حالی کا شکار ہیں.

ہر قبر اپنی کہانی خود سناتی ہے، بس آپ کے پاس دل سے سننے والے کان اور آنکھیں ہونی چاہیئں جو صدیوں کے آرپار دیکھ سکیں۔ قبر کی سنگ تراشی آپ کو بتا دے گی کہ یہ قبر کسی سردار کی ہے، کسی عورت کی ہے یا کسی جنگجو کی۔ ڈاکٹر غلام علی الانا اس سلسلے میں تحریر کرتے ہیں کہ "قبرستان میں پتھر کی بنی ہوئی کچھ قبروں کے دائیں طرف نچلی طرف گھڑ سوار کی تصویریں بھی تراشی گئی ہیں، جن کے ایک ہاتھ میں ڈھال اور دوسرے ہاتھ میں نیزہ ہے۔ کچھ قبروں پر دستار کی شبیہ تراشی گئی ہے جن کے متعلق کارٹر کا خیال ہے کہ یہ سرداروں کے قبروں کی نشانیاں ہیں۔ عورتوں کی قبروں کی پہچان کے لیے تاڑ کی ڈالیوں کی شکلیں تراشی گئی ہیں۔ وہ قبریں جن پر سات فٹ اونچے پتھر کے ستون گاڑے گئے ہیں، وہ قبریں جنگ میں مارے جانے والوں کی ہیں۔"

سردار، جنگجو اور عورتوں کی قبریں.
سردار، جنگجو اور عورتوں کی قبریں.
جنگجو اور عورت کی قبریں.
جنگجو اور عورت کی قبریں.
جنگ میں ہلاک ہونے والوں کی نشاندہی کے لیے پتھر کے ستون گاڑے گئے ہیں.
جنگ میں ہلاک ہونے والوں کی نشاندہی کے لیے پتھر کے ستون گاڑے گئے ہیں.
جنگ میں ہلاک ہونے والے ایک شخص کی قبر.
جنگ میں ہلاک ہونے والے ایک شخص کی قبر.

سندھ اور بلوچستان میں اس طرز کے سینکڑوں قبرستان ہیں۔ سلمان رشید ان قبرستانوں کے متعلق تحریر کرتے ہیں کہ "ہم اگر سرسری طور پر ایک اندازہ لگائیں تو سندھ اور بلوچستان میں مکلی، سونڈا، جھرک، راج ملک، شاہ کپور، چوکنڈی، میمن گوٹھ، تونگ جیسے ایک سو سے بھی زائد قبرستان ہیں۔" تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ، کلمتی، جوکھیا اور نومڑیا (برفت)، مغلوں کے زمانے میں طاقتور قبیلے تھے۔ ان قبیلوں کا ذکر ہمیں سمہ دور میں بھی ملتا ہے۔ یہ اکثر مغلوں سے لڑتے اور گزرتے ہوئے تجارتی قافلوں پر حملے کرتے۔ اگر کلہوڑا دور پر نظر ڈالی جائے تو گبول، لاشاری، پنھور، جاکھرا بھی ان کے مددگار رہے۔ ان قبیلوں کی یادگار قبریں اور قبرستان ہیں جو اس حوالے سے ایک تاریخی حیثیت رکھتے ہیں۔

سارے محققین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ فن تعمیر سمہ دور میں یہاں آیا اور اس فن تعمیر پر گجرات کی عمارت سازی کا مکمل اثر تھا۔ سندھ میں سمہ دور فن تعمیر کے لیے ایک انتہائی شاندار دور ثابت ہوا۔ مکلی اور ٹھٹھہ میں زیادہ تر تعمیرات اس دور کی یادگار ہیں۔

سترہویں صدی میں قبرستانوں پر سنگ تراشی کا یہ فن بڑی تیزی سے پھلا پھولا۔ پتھروں کے تختوں پر گھڑ سواروں اور دوسری چیزوں کی تصویریں بننا شروع ہوئی۔ سمہ سردار اس فن کو گجرات سے لائے، ارغونوں، ترخانوں اور بلوچ سرداروں نے اس فن کو عروج پر پہنچایا مگر پھر وہ ہی ہوا جو ہر کمال کے ساتھ ہوتا ہے۔ اٹھارہویں صدی کے آخر میں یہ فن اپنے کمال کے زوال کی آخری سانسیں لینے لگا۔ اسباب بہت ہوسکتے ہیں مگر حرفِ آخر یہ کہ اس فن پر زوال کی شام آگئی۔

سونڈا کے اس قدیمی قبرستان کے حوالے سے ٹھٹھہ کے آرکیالاجی کے ماہر اور محقق ڈاکٹر محمد علی مانجھی سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ: "اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک قدیمی قبرستان ہے۔ سمہ دور کا جب ہم کہتے ہیں تو یقیناً یہ صدیوں پرانا قبرستان ہے جہاں سنگ تراشی کا فن اپنے عروج پر نظر آتا ہے۔ مگر ایک بات ضرور ذہن میں رکھںی چاہیے کہ یہ کسی ایک مخصوص ذات یا قبیلے کا قبرستان نہیں ہے۔ یہاں اردگرد جو قومیں اور قبیلے آباد ہیں ان سب کی قبریں یہاں ہیں۔ یہاں جنگوں میں شہید ہونے والے مرد اور عورتوں کی قبریں ہیں، سرداروں کی قبریں ہیں اور عام لوگوں کی بھی قبریں ہیں۔"

میں نے جب قبرستان کی خستہ اور ناگفتہ حالت کے متعلق ڈاکٹر صاحب سے پوچھا تو جواب آیا: "بہت پہلے یہاں چوکیدار تھا مگر اب شاید دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اب یہ قومی شاہراہ پر ایک قدیم آرکیالاجی سائیٹ ہے مگر جو حالت ہے وہ آپ بھی دیکھ رہے ہیں۔ بس کیا کیا جائے۔" ایک بے بسی اور دکھ تھا جو ڈاکٹر صاحب کے جواب میں تھا۔

میں نے اپنی زندگی کے جتنے بھی دن، صبحیں اور شامیں ان قبرستانوں، مقبروں اور قلعوں میں گذاری ہیں، چاہے وہ سخت سردیاں ہوں یا جون جولائی کی چلچلاتی دھوپ، میں جب بھی یہاں آیا، خود کو ایک عجیب سے سحر میں جکڑا ہوا محسوس کیا۔ میں سوچتا ہوں کہ آج سے صدیوں پہلے جب یہ منظر تراشے گئے ہوں گے، تب وہ پل کیسے ہوں گے؟ سردی کا موسم ہوگا یا گرمی کا؟ وہ سنگ تراش جب یہ تراش رہا ہوگا تو اس کے چہرے کی کیفیت کیسی ہوگی؟ چار سو دور دور تک وہ کیا دیکھتا ہوگا؟ ان لمحوں میں کون سے پرندے بولتے ہوں گے؟ یا اس وقت کون سی سیاسی شورشوں کی باتیں شہر کی گلیوں میں گردش کرتی ہوں گی؟

یہ فقط قبرستان، مقبرے یا قلعے نہیں ہیں بلکہ ان میں صدیوں کے موسم اور لمحے قید ہیں۔ اور ان میں ایک سحر چھپا ہوا ہے جو آپ کو بار بار بلاتا ہے اور آپ اس سحر میں جکڑے پھر ان قبرستانوں اور مقبروں پر چلے جاتے ہیں۔ اور یہ سحر ہمارا ماضی ہے جو ہم کو نظر نہ بھی آئے مگر اس سے ہمارا ایک رشتہ ہے جس کو ہم اپنے آپ سے الگ نہیں کرسکتے۔

— تصاویر بشکریہ لکھاری۔


حوالہ جات:

۔ "لاڑ جی ادبی ائیں ثقافتی تاریخ" از ڈاکٹر غلام علی الانا۔ انسٹیٹیوٹ آف سندھالاجی

۔ "ٹھٹھے جا قدیم اسلامی یادگار" از ڈاکٹر احمد حسن دانی۔ سندھی ادبی بورڈ

۔ "کراچی سندھ جی مارئی" از گل حسن کلمتی۔ کاچھو پبلیکیشن

(Riders on the wind by Salman Rashid (Sang-e-meel Publications


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (22) بند ہیں

شہزاد اقبال ،لاہور Dec 14, 2015 01:59pm
عمدہ ۔۔۔۔۔۔لیکن بعض مقامات پر تحریر میں ربط کی کمی ہے
Zaheer Dec 14, 2015 04:27pm
Extremely exquiste very very nice indeed....
Hameed Abro Dec 14, 2015 06:00pm
zabardast Shaikh sb.
غلام شبير لغاری Dec 14, 2015 08:13pm
sondha ..sadayon ki dastanen kehta qabarstan ...ye jo historycal bilag dawn par buht ghoor se parha...jo alfaz artical ki taref men kahon kam honge,,wo tarikhi mawad hum ko dawn news par abubaker shaikh ke artical main parhny ko mila hai...thanks Dawn news & Abubaker shaikh
USMAN RAOOKRO Dec 14, 2015 08:20pm
BUHT KHOBSORAT AUR PYARA ARTICAL HAI,JIS KO BAR BAR PARHNY KO DIL KARTA HAI,PHOTOGHRAFY BHI UMDAH HAI,ABUBAKER KE ARTICAL BUHT PASAND ATY HAIN...USMAN RAHOOKRO
khan Dec 14, 2015 11:20pm
History is a dry subject but . . . . AUTHOR has just made it sweet.
Kaka Shehr Bano Dec 15, 2015 12:20pm
Only a person like Abubakar Shaikh can write about archeological sites and necropolis where silence surrenders against him n reveals secrets untold
Haani Rao Dec 15, 2015 03:53pm
Its informative and interesting.good effort sir. sadion ki dastan ak safhe mn muqeed hogai.
YASMEN Dec 15, 2015 04:20pm
HAMESHA KI TARAH EIK ARCHAEOLOGY KI NAE SITE SY WAQFYAT HUE. YE BILKUL SAHI HY K TAREKH EK KHUSHIK SUBJECT HY, MAGER SHAIKH SAHIB KA YE BAYAN KARNY KA ASLOOB ACHA LGTA HY, AP PAHLY JUMLY SY LY KR AAKHIR TAK JURY RAHATY HEN. TAREKH KO ITNA ROOKHA OR BE NAMAK BHI NHN HONA CHAHIAY K EK NIWALA TK LANY KO JI NA CHAHY. WELL DONE.
Manesh Dec 15, 2015 05:40pm
Excellent work Abubakar dear.
Saeeda Sager Dec 15, 2015 06:41pm
یہ فقط قبرستان، مقبرے یا قلعے نہیں ہیں بلکہ ان میں صدیوں کے موسم اور لمحے قید ہیں۔ اور ان میں ایک سحر چھپا ہوا ہے جو آپ کو بار بار بلاتا ہے اور آپ اس سحر میں جکڑے پھر ان قبرستانوں اور مقبروں پر چلے جاتے ہیں۔ اور یہ سحر ہمارا ماضی ہے جو ہم کو نظر نہ بھی آئے مگر اس سے ہمارا ایک رشتہ ہے جس کو ہم اپنے آپ سے الگ نہیں کرسکتے۔@ انتہائی لاجواب اور دل میں اُتر جانے والے الفاظ،،،،مگر ہمارے ادارے جن کی یہ ذمیداری ہے وہ آنکھِیں بند کر کے کیوں بیٹھے ہیں؟ یہ آج تک مجھے سمجھ میں نہیں آیا،،،،،،جب دھیرے دھیرے یہ سب ختم ہوجائے گا،،،تب ہمارے پاس کیا بچے گا؟؟؟؟؟؟ بہرحال آپ ایک اچھی نیت سے کام کر رہے ہیں۔اس کا اجر ضرور آپ کو ملے گا،،،،،آپ کی تحریر کے بولتے اور سانس لیتے الفاظوں کا انتظار رہے گا،،،،،،،،،
شاہد اے خان Dec 15, 2015 07:34pm
زیریں سندھ اور بلوچستان میں ایسے درجنوں قبرستان ہیں کراچی میں منگھوپر اور چوکنڈی میں ابھی کئی قبریں اپنے مکمل نقوش کے ساتھ موجود ہیں۔ حکومت سندھ اگر ان قبرستانوں کی کسی ایک قبر کو محفوظ کر لے تو آنے والی صدیوں پر احسان ہوگا۔ دوسری صورت میں انہیں آج نہیں تو کل مٹ ہی جاناہے۔۔
AbdullahTurk Dec 15, 2015 08:29pm
aik dafa phr buht hee achee tahreer parhney ko milee. AbuBaker kee aik khusoseat hay k wo lafzoon ki khoobsoorat jal buntey hain .
Sadam Laghari Dec 15, 2015 09:38pm
best of luck abubakr , best of luck dawn news............
Adil Laghari Dec 16, 2015 07:49am
sondha par Artical pasand aya...buht achha artical hai...Adil Laghari
Nooruddin Abbasi Dec 16, 2015 05:54pm
Thanks MrAbu baker good job why government not pay attention And save these sites that is our heritage I travel quiet I am originally from Thatta but lost 40 years live in state fell shame my self whe I see ruin our heritage
BUSHRA TARIQ Dec 17, 2015 03:46pm
GOOD INFERMATION
Muhammad Khan Jamali Dec 17, 2015 05:07pm
Very Informative Article and Photography....
Nasurullah (NB) Dec 18, 2015 11:11am
Really outstanding Abu Bakar sahab. Great work.
Mahmood saleem Dec 18, 2015 11:50pm
aap nay jin 3 kitaboun ka hawala diya hai, kya hi acha ho k in 3no kitaboun ka urdu main tarjuma hojaiy ta k puray pakistan ko sindh ki tareeq k baray main maloum ho ya english main tarjuma hojaiy ta k puri duniya sindh ki sakafat k baray main jaan sakay.
جمشید ساحل Dec 19, 2015 10:45am
ابوبکر شیخ صاحب کا آرٹیکل بُہت معلوماتی اور تار یخی نوعیت کا ہے۔ تار یخ کے مدفن میں ایسی لاکھوں کہانیاں دفن ہیں۔ یہ صرف مدفن ہی نہیں،یہ ہزاروں سال کی تہذیبیں بھی ہیں۔ ماضی کے ان لمحوں کو مصنف نے بیان کر کے کمال کیا ہے اللہ اُنہیں استقامت دے کہ وہ ماضی و حال کےدوراہے پرایسی تار یخ قلمبند کرتے رہیں۔ جمشید ساحل
Ejaz Ahmed Dec 19, 2015 08:36pm
آپ کی کاوش تو شاندار ہے لیکن افسوس سندھ حکومت اس عظیم ورثہ کو محفوظ کرنے پر کوئی توجہ نہیں دے رہی۔ کیونکہ اس کی تو ساری توجہ کرپشن پر مرکوز ہے۔ خدارا اس جیسے دیگر آرکوجیوکل سائیڈ کو محفوظ بنانے پر توجہ دی جائے۔ تو ہمیں اس سرزمین کے ماضی کے لوگوں کے بارے میں زیادہ بہتر معلومات حاصل ہوسکتی ہیں۔ صرف سندھ دھرتی سندھ دھرتی کہنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ اس سندھ دھرتی پر توجہ بھی دی جائے۔