سرکاری ملازمین کو موت کی آرزو کیوں؟
وفاقی حکومت نے دورانِ ملازمت وفات پا جانے والے سرکاری ملازمین کے لیے جاری ہونے والے امدادی پیکج میں تین سو فیصد تک اضافہ کر دیا ہے۔
اس خبر کے جاری ہونے کے بعد درجنوں بیمار ملازمین خوشی سے وفات پا گئے اور گریڈ ایک تا چار کے غریب ملازمین نے اپنی لمبی زندگی کے لیے دعائیں مانگنا چھوڑ دیں۔
کل جمعے کی نماز کے بعد بیشتر سرکاری ملازمین مقامی خطیب سے اس وقت الجھ پڑے جب اس نے دعا کے درمیان صحت اور لمبی عمر کے لیے دعا منگوائی۔ اس وقت وہ غریب سرکاری ملازمین جو بیمار ہیں ان کے گھروں میں خوشی ایک نئی لہر دکھائی دے رہی ہے اور سرکاری کوارٹروں سے وفاقی حکومت کے حق میں نعرے بازی بھی سنائی دی گئی ہے۔
تمام شہروں کے مرکزی چوراہوں پر بیمار سرکاری ملازمین ٹولیوں کی شکل میں اکٹھے تھے اور ڈھول کی تھاپ پر رقصاں تھے۔
نور محمد چوکیدار محکمہ اوقاف اور سی ڈی اے کے صفائی اہلکار الیاس مسیح جو صبح پمز ہسپتال کی او پی ڈی میں موسمی بخار کی دوائی لینے آئے تھے، انہوں نے واپس اپنے گھر جانے سے انکار کر دیا، کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ انہیں استعمال شدہ سرنج کے ذریعے انجکشن لگنے سے ایچ آئی وی لاحق ہو چکا ہے۔ ہسپتال کے ایک ملازم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ بتایا ہے کہ مذکورہ مریضوں نے انجکشن لگانے والے اہلکار کو دو، دو سو روپے رشوت دیتے ہوئے اس امر کی درخواست کی کہ انہیں استعمال شدہ سرنج کے ذریعے ہی انجکشن لگائے جائیں۔
ہسپتال ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت کے اعلان سے کچھ گھنٹے قبل انتقال کرجانے والےگریڈ چار کے ملازم نصراللہ کے لواحقین اس کی میت واپس ہسپتال لے کر پہنچ گئے تھے۔ اور ان کا کہنا تھا کہ میت کا دوبارہ ٹیسٹ کیا جائے کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ نصراللہ کی موت واقع نہیں ہوئی۔ اس واقعے کے بعد سے تاحال ڈاکٹرز اور لواحقین میں مذاکرات جاری ہیں۔
ایسی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں کہ ایسے سرکاری کوارٹرز جہاں کے رہائشی بیمار سرکاری ملازمین ہیں انہوں نے جیو نیوز کا بائیکاٹ کر دیا ہے معلوم کرنے پر بتایا گیا کہ جیو کے بائیکاٹ کی وجہ جیو نیوز سے بار بار جاری ہونے والی جینے کی دعا تھی۔
جیو نیوز کی انتظامیہ اس خبر کے پھیلنے کے بعد سر جوڑے بیٹھی ہے کہ بیمار سرکاری ملازمین جن کی بیشتر تعداد جیو نیوز کی ناظرین تھی انہیں کس طرح اپنے چینل کی نشریات دیکھنے پر قائل کیا جائے۔ اس معاملے پر عوامی رائے طلب کرنے کے اشتہارات جیو پر نشر کیے جا رہے ہیں۔
سرگودھا کے ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں آج صبح کئی مریضوں کے لواحقین آپس میں کھسر پھسر کرتے پائے گئے۔ اس دوران ان کے چہروں پر معنی خیز مسکراہٹیں دکھائی دے رہی تھیں۔ جب ان سے رائے لینے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرنے سے انکار کردیا۔
وفاقی حکومت کے اس فیصلے کی اس قدر عوامی پذیرائی دیکھتے ہوئے صحت مند اور توانا سرکاری ملازمین میں سراسیمگی پھیلی ہوئی ہے اور چھوٹے گریڈوں کے ملازمین کی ایک بڑی تعداد اپنے بچوں سے شرمندہ دکھائی دے رہی ہے ۔
(نامہ نگار خیال فتنہ گری اس معاملے پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہے، مزید تفصیلات جاننے کے لیے اپنے قریب میں کسی بھی سرکاری ملازم کے احوال معلوم کیجیے).
یہ ایک طنزیہ تحریر ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں.
تبصرے (3) بند ہیں