احتساب ایک خواب
کیا وجہ ہے کہ مملکتِ خداداد میں ایک غریب آدمی کی ساری زندگی معمولی مقدمے میں عذاب بن جاتی ہے لیکن قومی خزانے کو لوٹنے والوں کے احتساب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا؟
غریب آدمی ہمیشہ عدالتوں، کچہریوں اور تھانوں سے دور رہنے کی دعائیں مانگتا ہے لیکن ”بڑے“ کچھ بھی کریں، ان کا کوئی کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔ ملکی تاریخ پر نظر ڈالنے کی ہرگز ضرورت نہیں، حال ہی میں سابق صدر آصف علی زرداری کے کیس نے ثابت کردیا کہ یہاں قانون صرف کتابوں کی حد تک محفوظ ہے اور صرف غریبوں کے لیے ہے۔ بڑوں کو استثنیٰ حاصل ہے، وہ کچھ بھی کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔
کیا قصور عدالتوں کا ہے یا پھر استغاثہ (پراسیکیوشن) کا؟ اس سوال پر ریاست کے تینوں ستونوں پارلیمان، انتظامیہ اور عدلیہ کو حقیقی معنوں میں فوری اقدامات کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں میڈیا پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ غیر جانبداری کا مظاہرہ کر کے عوام میں اپنی ساکھ بحال کرنے پر توجہ دے۔
سابق صدر آصف علی زرداری پر 1998 میں کرپشن کے مقدمات بنائے گئے تھے۔ اس وقت بھی مسلم لیگ ن کی حکومت تھی اور سیف الرحمٰن چیئرمین نیب کے عہدے پر فائز تھے۔ سیف الرحمٰن نے بعد ازاں یہ تسلیم کیا کہ آصف زرداری پر مقدمات سیاسی بنیاد پر بنائے گئے تھے اور اب جب مسلم لیگ ن کی مرکز میں دوبارہ حکومت بنی ہے، تو یہ مقدمات ختم کر دیے گئے اور آصف زرداری کو باعزت بری کردیا گیا ہے۔
یہ مقدمات 2009 تک کبھی چلتے رہے اور کبھی رکتے رہے لیکن 2008 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کو اکثریت ملنے کے بعد 2009 میں آصف علی زرداری صدر بنے اور یوں یہ مقدمات کھٹائی میں پڑ گئے۔ آصف علی زرداری 5 سال تک ایوانِ صدر میں رہے اور صدارتی استثنیٰ کے مزے لیتے رہے، لیکن 2013 کے عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت بنی۔
میاں نوازشریف نے پیپلز پارٹی کی مفاہمتی سیاست کو آگے بڑھانے کی پالیسی اپنائی جو آج تک جاری ہے۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران شریف برادران نے لوگوں سے جو وعدے کیے ان میں ایک وعدہ یہ بھی تھا کہ وہ ملک کا لوٹا ہوا پیسہ واپس لائیں گے لیکن بعض دیگر وعدوں کی طرح یہ وعدہ بھی وفا نہ ہو سکا اور اب تو اس معاملے پر عمران خان بھی اپنی تقریروں کو گرمانے لگے ہیں۔
اگر آج ایک سیاسی جماعت کی حکومت ہے تو کل ”دوسری“ کی ہو گی اور یہ سیاسی چالیں چلتی رہیں گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ علم ہونے کے باوجود بھی سیاسی بنیادوں پر مقدمے بنائے جاتے ہیں جن کا فیصلہ برسوں تک نہیں ہو پاتا.
آصف علی زرداری پر این آر او کیس بھی سپریم کورٹ میں چلتا رہا اور عدالت عظمیٰ نے 16 دسمبر 2009 کو این آر او کو کالعدم قرار دیا اور 8 ہزار 49 لوگوں کے وہ مقدمات بحال ہوئے جن کو قومی مفاہمتی آرڈیننس (NRO) کے تحت پرویز مشرف نے ختم کیا تھا۔
این آر او مقدمے کے فیصلے میں نامزد ملزمان آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں اور ان کا کسی نے کچھ نہیں بگاڑا۔ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری نے اس فیصلے پر عمل درآمد کے لیے سپریم کورٹ کا علیحدہ بینچ بھی قائم کیا لیکن نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلا۔ ان مقدمات پر قومی خزانے سے کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں لیکن جب نتیجہ ہی نہیں نکلنا تو ایسے مقدمات پر ملک و قوم کا وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
بات یہ نہیں کہ از خود نوٹسز لینے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، اصل بات اس پر عمل درآمد کروانے کا ہے جس کی اس ملک میں روایت ہی نہیں۔ اگر کوئی عمل درآمد کے لیے مخلص بھی ہو تو استغاثہ اپنا کام ڈھنگ سے نہیں کرتا اور پھر سارا الزام عدالتوں پر لگا دیا جاتا ہے۔
اس ضمن میں ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ جب ایک شخص پر کئی سال تک مقدمہ چلایا جاتا ہے اور وہ ثابت نہیں ہو پاتا تو پھر اس کو ذلیل و خوار کرنے کا ازالہ کون کرے گا؟ یقیناً جس نے درخواستیں دی ہیں یا کیسز بنوائے ہیں اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیئں، لیکن ہمارے ہاں یہ روایت بھی نہیں۔
کرائے کے بجلی گھروں کے مقدمے میں سابق وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف اور حج کرپشن کیس میں سابق وفاقی وزیر حامد سعید کاظمی کے خلاف بھی نہ صرف سپریم کورٹ نے فیصلے کیے بلکہ یہ آج بھی احتساب عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ ان کی جان نہیں چھوٹ رہی، اور یہ اپنی بے گناہی کے لیے چیخ رہے ہیں، لیکن کوئی ان کی نہیں سن رہا۔
اگر یہ گناہگار تھے تو ان کو سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے تھا، اور اگر گناہگار نہیں تو پھر اتنے طویل مقدمات کی صورت میں ان کو کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے؟ رینٹل پاور منصوبوں کے مقدمے میں ایک درخواست خواجہ آصف آج وفاقی وزیر ہیں اور حج کرپشن کیس میں درخواست گزار اعظم سواتی جمیعتِ علمائے اسلام چھوڑ کر اب پاکستان تحریکِ انصاف میں ہیں،اور درخواست گزاروں نے چپ سادھ لی ہے۔ کسی کو نہیں معلوم کہ اصل ملزمان کون ہیں، اور یقیناً یہی پہلو استغاثہ سے متعلقہ عملے اور احتساب کے نام پر قائم نیب کے منہ پر طمانچہ ہے۔
اس کے مقابلے میں اگر ایک غریب شخص پر ایک معمولی کیس میں مقدمہ درج ہوجائے، تو وہ کیس کا فیصلہ ہوئے بغیر بھی ساری زندگی سلاخوں کے پیچھے سڑتا رہتا ہے۔ وہ اپنے لیے نہ تو ایک بڑے وکیل کی فیسیں برداشت کر سکتا ہے، اور نہ ریاست یا عدالتوں کی طرف سے اس کو قانونی جنگ لڑنے کے لیے سہولیات دی جاتی ہیں۔
بڑا آدمی بڑے وکیلوں کی نہ صرف فیس ادا کر سکتا ہے، بلکہ بھاری فیسیں لینے والے ان کے وکلاء عدالتوں میں اپنے موکل کو بچانے کے لیے مختلف حیلے بہانے بنا کر نت نئے طریقے اپنانے کے بھی ماہر ہوتے ہیں۔ وکلاء جب عدالتوں میں کیس کو کھینچتے ہیں تو عدالتیں وکلاء کے سامنے مجبور ہو جاتی ہیں۔
جب تک وفاقی حکومت اور اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے مذکورہ صورتحال کے نمٹانے کے لیے اقدامات نہیں کیے جاتے، تب تک لوگوں کا ریاستی اور عدالتی نظام پر اعتماد بحال ہونا ایک خواب ہے۔
چرچل نے کہا تھا کہ جب ملک کی عدالتیں انصاف دے رہی ہوں، اور لوگوں کا عدلیہ پر اعتماد قائم ہو، تب تک کسی ریاست کو شکست نہیں ہو سکتی۔ استغاثہ اور نظام انصاف کو بہتر بنائے بغیر ہم ہرگز آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ہمیں ابھی سے اس کے لیے اقدامات اٹھانے ہوں گے۔
تبصرے (3) بند ہیں