جب یہ دہشت ناک واقعہ پیش آیا تو آرمی پبلک اسکول پشاور کے اساتذہ اور طالبعلم وقفے کے بعد اسی وقت اپنی کلاسز میں پہنچے تھے۔ کچھ طالبعلم بشمول 18سالہ یاسر اقبال، بڑے آڈیٹوریم میں جمع ہوئے اور پوری توجہ سے ایک لیکچر سن رہے تھے۔
دیگر اپنی ڈیسکوں پر بیٹھے تھے اور ان کی نگاہیں بلیک بورڈ کی بجائے گھڑی پر تھیں، وہ چاہتے تھے کہ دن تیزی سے گزرے تاکہ وہ گھروں کو جاسکیں۔ پہلی جماعت کی چھ سالہ خولہ کا اسکول میں پہلا دن تھا۔ وہ بہت زیادہ خوش تھی کہ آخرکار وہ گھر میں رہنے کی بجائے اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ شامل ہوگئی ہے۔ یہ اس کا اسکول میں پہلا اور آخری دن تھا۔
خولہ ان 144 ناموں میں سے ایک تھی، وہ طویل فہرست جسے قاتلوں کے گروپ نے اس دن اسکول میں مرتب کیا، جس میں اکثریت بچوں کی تھی۔ خون کی اس غیرمنظم ہولی جس میں ہدف بننے والوں کی مظلومیت کو جمع کیا جائے تو یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے خوفناک حملہ ثابت ہوتا ہے۔
نمبر 144 بذات خود ایک کہانی ہے مگر اس کے اندر 144 کہانیاں چھپی ہیں جنھیں بیان کیا جانا چاہئے۔
آٹھویں جماعت کے عذیر علی نے حملہ آوروں کو دیکھا اور اپنے دوستوں کے اوپر لیٹ کر ان کی ڈھال بن گیا۔ 13 گولیاں لگنے کے بعد وہ زندہ نہیں بچا مگر وہ اپنے ساتھیوں کو بچانے میں کامیاب رہا۔ 14 سالہ فہد حسین نے ایک دروازہ کھولا تاکہ اس کے دوست وہاں سے نکل سکیں۔ وہ دروازے پر موجود رہاتاکہ ہر ایک کے انخلاءکو یقینی بناسکے۔ اسی کوشش کے دوران اسے نشانہ بنادیا گیا۔
درج ذیل میں 144 کہانیاں ہیں، بچوں، خواتین اور مردوں کی شجاعت اور اداسی کی، جن کی غیر حاضری ہمیشہ کے لیے تکلیف دہ ثابت ہوگی اور انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
اس سانحے میں زندگیاں کھونے والے افراد کی زندگیوں کے بارے میں نیچے مختلف عمروں کے گروپ پر لیفٹ/رائٹ ایرو کو کلک کرکے پڑھیں۔ ان تمام سیکشنز کی پی ڈی ایف فائل ڈان کے اکاؤنٹ سے ڈاؤن لوڈ کریں
اگر آپ موبائل فون سے براؤزنگ کررہے ہیں، نیچے دیئے گئے کسی بھی سیکشن پر کلک کریں اور لینڈ اسکیپ موڈ پر دیکھیں یا ہمارے سلائیڈز اکاؤنٹ پر وزٹ کریں۔
تبصرے (38) بند ہیں