ہفتے کے روز میں نے کراچی سے تقریباً 200 کلومیٹر دور ایک قصبے میں جانے کا فیصلہ کیا۔ سرد رات میں میں اور میرا دوست ٹرکوں سے بھرے ہائی وے پر اپنی منزل کے لیے نکل پڑے۔
ہماری منزل 'بھٹ شاہ' نامی ایک قصبہ تھا۔ یہاں پر مشہور صوفی شاعر اور بزرگ کی قبر ہے جن سے لاکھوں لوگ محبت کرتے ہیں اور عقیدت رکھتے ہیں۔
آج کی رات کوئی عام رات نہیں تھی، بلکہ یہ حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کا 272 واں عرس تھا۔ یہ عرس کی دوسری رات تھی، اور ہم یہاں پر زندگی سے بھرپور تقریبات دیکھنے کے لیے آئے تھے۔
ہم بھٹ شاہ میں روشنیوں سے سجائے گئے ایک محرابی راستے سے داخل ہوئے۔ پیدل چلنے والوں سے بھری ایک سڑک ہمیں اندر تک لے گئی۔ مزار کی جانب ایک طویل پیدل سفر سے ہماری رات کا آغاز ہوا۔
جیسے جیسے ہم ہجوم کے مرکز کی جانب بڑھتے گئے، تو چمکدار مزار سامنے آنے لگا۔ تیز موسیقی اور لوگوں کی بلند آوازوں کے ساتھ دکانداروں اور خوانچہ فروشوں کی آوازیں بھی تیز ہوتی جا رہی تھیں۔
جب ہم مزار کے احاطے میں داخل ہوئے، تو بھلے ہی آدھی رات گزر چکی تھی، مگر ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ابھی صرف آدھا دن گزرا ہے۔ بلبوں سے نکلنے والی چمکدار روشنی مزار پر کیے گئے شیشے کے کام سے ٹکرا کر منعکس ہو رہی تھی۔
صحن کے دوسری طرف شاہ عبداللطیف بھٹائی کے مزار کے دروازے کے سامنے رات کی آخری پرفارمنس ہو رہی تھی۔
صوفی بزرگ کے ایجاد کردہ ساز طنبورے کی مترنم آواز سے مزار میں سکون کا سماں بندھ رہا تھا۔
حیرت میں ڈوبے سامعین فنکاروں کے گرد گھیرا بنا کر بیٹھے تھے، جن کے بول فضا میں گونج کر ماحول گرما رہے تھے۔
اس صوفی پرفارمنس کے علاوہ بھی لوگوں کا ایک ہجوم تھا جو مزار میں داخل ہونے، اظہارِ عقیدت، اور دعائیں مانگنے میں مصروف تھا۔
کچھ لوگ مزار کے دوسری جانب کے دروازے سے باہر نکل جاتے، جبکہ کچھ فنکاروں کے فن کا مظاہرہ دیکھنے کے لیے واپس صحن میں آجاتے۔
کہتے ہیں کہ اگر آپ سکون کی تلاش کریں، تو آپ کو وہ ضرور ملتا ہے، پھر چاہے وہ کسی پہاڑ کی چوٹی پر ہو، یا میدان میں، یا شاید تاروں بھرے آسمان میں سمندر کے کنارے۔
مگر اس رات میں نے سکون کو اپنے اندر پایا۔ میرے لیے یہ ایک روحانی تجربہ تھا، جس میں میں نے نہ صرف وہاں موجود دنیا دریافت کی، بلکہ وہ دنیا بھی جو میرے اندر موجود ہے۔
عرس میں ملک بھر سے ہزاروں لوگ صرف تین دن کے لیے ہی شریک ہوتے ہیں، مگر یہ عرس آپ پر جو روحانی اثرات چھوڑتا ہے، وہ آپ کے ساتھ ساری زندگی رہتے ہیں۔
یہ بلاگ ابتدائی طور پر 7 دسمبر 2015 کو شائع ہوا۔
حسیب امجد انڈس ویلی اسکول کراچی میں آرکیٹیکچر کے طالبعلم ہیں اور لائٹ ہاؤس فوٹوگرافی میں فوٹوگرافر ہیں.
انہیں انسٹاگرام پر فالو کریں. s.haseebamjad@
تبصرے (3) بند ہیں