• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
شائع December 5, 2015 اپ ڈیٹ December 7, 2015

کراچی سے اگر ٹھٹھہ کے لیے نکلیں تو ٹول پلازہ کی دروازوں والی دیوار سے گزرتے ہی بہت کچھ پیچھے چھوٹ جاتا ہے۔ بڑی عمارتیں، وسیع راستے، خوبصورت سی گلیاں، گہما گہمی، شور و غُل، تارکول کے سیاہ راستوں پر چلتی گاڑیاں اور اُن کا شور، لوگوں سے بھرے ریلوے اسٹیشن، ایئرپورٹ پر اُترتے اور پرواز کرتے ہوئے اُڑن کھٹولے، یعنی آپ منظروں کی ایک ضخیم سی کتاب چھوڑ کر نکل آتے ہیں۔

ٹھٹھہ سے گزر کر ہم سجاول آتے ہیں اور پھر سجاول سے آپ جنوب کی طرف چلتے جائیں تو سمندر اپنے ہونے کا احساس دلانا شروع کردیتا ہے۔ کہیں کہیں زمین میں شوریدہ سفیدی کی ایک تہہ نمودار ہونے لگتی ہے، تو کہیں راستے کے مشرقی اور کبھی مغربی کنارے پر جھاڑی دار درختوں کی باڑ میں چھوٹے چھوٹے گاؤں نظر آنے لگتے ہیں۔ پھیکے پھیکے سے اور بے رنگ۔ جنھیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے ابھی اُگے ہیں .

یہاں میٹھے پانی کی شدید کمی ہے، اس لیے وہ زمینیں جن میں کبھی دھان ہوتی تھی اب وہاں کچھ نہیں ہوتا۔ ہاں البتہ کسی بنجر زمین میں کچھ بھیڑیں دیکھنے کو مل جاتی ہیں جو کبھی کسی سوکھے تنکے کو توڑ کر اُسے چباتی ہیں اور لاپرواہی سے آگے بڑھ جاتی ہیں تاکہ ایک اور گھاس کا تنکا مل جائے، چاہے سُوکھا ہی سہی.

راستہ کبھی آپ کے ساتھ نہیں چلتا بس آپ اُس پر چلتے جاتے ہیں۔ ہم بھی اس راستہ پر چل کر جاتی کے چھوٹے سے شہر میں پہنچے۔

کہتے ہیں کہ 'جیمس برنس' 1828ء میں 'کَچھ' سے حیدرآباد کی طرف جا رہا تھا تو راستے میں اُسے ایک سو اونٹوں کا قافلہ ملا جو 'جاتی' سے 'کَچھ' کی طرف جا رہا تھا. ان اونٹوں پر دیسی گھی کے ڈبے لدے ہوئے تھے۔ اب جو 'جاتی' کو دیکھو تو یہ محض ایک افسانہ ہی لگتا ہے۔

سمندر کے کناروں کے شہروں کا بھی اپنا ہی مزاج ہے. میں 'جاتی' کے مقامی صحافی زاہد اسحاق سومرو سے ملا اور ہم ساحلی پٹی پر گذرے شب و روز دیکھنے کے لیے نکل پڑے، تو ساتھ میں کوسٹ بیلٹ کی باتیں بھی نکل پڑیں۔

''1999ء سے پہلے یہاں کے حالات بہتر تھے۔ چھوٹی بڑی ایک سو سے زیادہ جھیلیں تھیں، ان جھیلوں میں مچھلی کا بیج دریا کی میٹھی نہروں کے ذریعہ آجاتا۔ پھر مچھلی بڑی ہوتی تو خوراک کی کمی بھی نہیں ہوتی. اس کو بیچ کر اچھی خاصی آمدنی بھی ہوجاتی اور پھر تھوڑی بہت دھان کی فصلیں بھی ہو جاتیں جس سے مویشیوں کو گھاس کی صورت میں خوراک مل جاتی، مطلب زندگی ایک ڈگر پر تھی نہ زیادہ کی طلب تھی اور نہ اتنی بڑی پریشانیاں۔"

"پھر 1999ء میں جو سائیکلون آیا تو اُس نے یہاں کے طبعی حالات کو بدل کر رکھ دیا۔ اس 36 گھنٹے چلنے والے سائیکلون نے زمینیں، واٹرکورس اور چھوٹی موٹی جھیلیں ریت اور مٹی سے بھر دیں۔ اگر سائیکلون کے بعد ایریگیشن ڈپارٹمنٹ ان سب کو پھر سے بحال کردیتا تو شاید موجودہ حالت نہ ہوتی۔"

مجھے نہیں پتہ کہ پہلے یہ علاقہ کیسا تھا لیکن اب حالتیں زیادہ بہتر نہیں تھیں۔ ہم جیسے ہی گاڑی سے باہر آئے ایک کثیف کڑوے دھویں نے ہمارا استقبال کیا۔ راستے کے مغربی کنارے پر کوئلہ بنانے کی بھٹیاں لگی تھیں جن سے یہ کَثیف گیلا دھواں اُٹھتا اور دور تک آسمان کی طرف جاتا اور جب ہوا کا جھونکا لگتا تو قرب و جوار کے لوگوں کے پھیپھڑوں میں گُھسنے کی کامیاب کوشش بھی کرتا۔

بھٹی سے نکلنے والے دھویں نے فضا میں عجیب سی کڑواہٹ پھیلا رکھی تھی
بھٹی سے نکلنے والے دھویں نے فضا میں عجیب سی کڑواہٹ پھیلا رکھی تھی

ان بھٹیوں پر کٹی ہوئی لکڑیوں کے ڈھیر لگے تھے۔ ہم وہاں کچھ منٹ ہی کھڑے ہوئے،اس دوران اس کٹی ہوئی لکڑی سے لدی کئی گدھا گاڑیاں آگئی تھیں۔ ان گدھا گاڑیوں کو بچے چلاتے اور ساتھ میں اپنا منہ بھی چلاتے کہ گٹکا منہ میں پڑا ہوا تھا جس کو چبانا بھی فرض تھا۔

گدھا گاڑی پر لکڑیاں لادے کچھ بچے
گدھا گاڑی پر لکڑیاں لادے کچھ بچے

"یہاں کس درخت کی لکڑیاں کٹ کر آتی ہیں؟" میں نے ان بھٹیوں کے مالک سے سوال کیا۔ جو لکڑیوں کے 40 کلو دو سو روپے میں خرید کر ایک کلو کوئلہ 40 روپے میں فروخت کرتا.

"زیادہ تو 'دیوی' (Mesquite) کی لکڑی آتی ہے۔ پھر کبھی کبھار ببول اور پیلو (Salvadora) کی لکڑی بھی آجاتی ہے۔"

پیلو کا پھل
پیلو کا پھل

کچھ بھٹیاں دھواں اُگل رہی تھیں اور کچھ بھٹیوں کے پیٹ میں ایک طریقہ سے لکڑیاں رکھی جا رہی تھیں اور جب لکڑیوں سے بھٹی بھر جاتی تو اُسے اینٹوں سے چن کر بند کرکے آگ لگا دی جاتی تاکہ اِن گیلی لکڑیوں سے کوئلہ بن سکے، جسے بیچ کر اچھی خاصی رقم کمائی جا سکے.

میں ایک گدھا گاڑی کے پاس گیا جس پر کچھ بچے ابھی لکڑیاں کاٹ کر لائے تھے۔ میں نے جو سوال کیے اور مجھے جو جواب ملے اور اس گفتگو سے جو نتیجہ نکلا وہ کچھ یہ تھا کہ"یہ دیوی کی لکڑی اگرچہ خاردار ہے اور اسے کاٹنا بہت مشکل اور محنت کا کام ہے، لیکن چونکہ میٹھے پانی کی کمی ہے اور فصلیں اور گھاس بہت کم ہوتی ہے، جبکہ سمندر میں بھی مچھلی روزبروز کم ہوتی جا رہی ہے تو گزر بسر کے لیے انھیں یہ لکڑیاں کاٹنی پڑتی ہیں۔ اگر گھر کے دو تین مرد صبح سے شروع کریں تو شام تک وہ 5،6 من تک لکڑی کاٹ لیتے ہیں اور پھر اگر یہ لکڑی پہنچا دیں گے تو 40 کلو کے 170 روپے سے 200 روپے تک قیمت مل جاتی ہے، جبکہ گدھا گاڑی پر 6 سے 8 من تک لکڑیاں آجاتی ہیں۔"

میں نے جب اُن بچوں سے اسکول کے متعلق پوچھا تو اُن کے چہرے پر کسی قسم کی ندامت کے بجائے بس ایک مسکراہٹ ابھر آئی اور انھوں نے کہا، "اب مزدوری کریں یا پڑھیں..!؟" سوال میں نے کیا تھا پر جواب میں مجھ سے بھی ایک سوال کیا گیا۔ جس کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

میں اپنے ساتھی زاہد اسحاق سے مخاطب ہوا کہ یہاں اس کوسٹ بیلٹ پر ایسی کتنی بھٹیاں ہونگی؟ تو جواب آیا:"سینکڑوں! جہاں چلے جائیں بدین، سجاول، جاتی، ٹھٹھہ آپ کو یہ بھٹیاں ہی ملیں گی، جہاں ہزاروں ٹن لکڑیاں روز کٹ کر بکتی ہیں اور ہزاروں لوگ ہیں جو درخت کاٹنے کے اس کام میں لگے ہوئے ہیں۔"

زاہد کے اس جواب سے مجھے یقیناً مایوسی ہوئی۔ اس وقت جب ہم گلوبل وارمنگ (Global Warming) اور ماحولیاتی تبدیلی Climate) Change) کی وحشتوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ جہاں ہر برس بلین میٹرک ٹن میتھین (Methene) اور کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس فضا میں شامل ہورہی ہے، جس سے گرین ہاؤس گیسز (Greenhouse gases) میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے خطرناک ماحول میں یہاں اگر یہ حالات ہیں تو حالات اچھے نہیں ہیں۔

سارا دن میں جاتی کی ساحلی پٹی پر گھومتا رہا۔ یہاں مقامی بزرگوں سے بھی باتیں ہوئیں اور پڑھے لکھے لوگ بھی ملے۔ درختوں کا ہوتا ہوا قتل عام بھی دیکھا، جس تیزی سے یہاں سے 'دیوی' اور 'پیلو' کے درخت کٹ رہے ہیں۔ پانچ دس برس کے بعد صورتحال انتہائی خراب ہونے والی ہے۔

جنگلات اور درختوں کی اپنی ایک الگ حیثیت اور تنوع ہے۔ یہ Biodiversity کا مرکزی نقطہ ہیں۔ ان درختوں میں مقامی پرندے اور جنگلی حیات پنپتی ہے جو اس قدرتی نظام کو چلانے کے لیے انتہائی ضروری ہیں. یہ ایک ماحولیاتی چین (Eco chain) ہے جس میں فطرت نے ہم سب کو باندھ رکھا ہے۔ بالکل ایسے جیسے ہمارے جسم میں اگر آکسیجن کی مقدار کم ہونے لگے تو ہم مرنے کے قریب آنے لگتے ہیں اور یہاں بھی صورتحال شاید اس سے الگ نہیں ہے۔

ایک بزرگ نے بتایا کہ ایک زمانے میں یہاں بڑے تیتر اور بٹیر ہوتے تھے۔ انھوں نے بہت ساری چڑیوں کی قسمیں یہاں دیکھیں، بلکہ انھوں نے یہاں 'شکر خورے' (Hammingbird) کی بھی کچھ نسلیں دیکھی تھیں۔ شکرخورا اصل میں وہاں پایا جاتا ہے، جہاں چھوٹے بڑے پھولوں والی فصلیں اُگتی ہوں یا پھر ایسے درخت ہوتے ہوں جن کے پھولوں میں شیرینی بھری ہوتی ہے۔

جہاں زمینیں زرخیز ہوں، وہاں ایک درخت ہوتا ہے، جسے سندھی میں 'کرڑ' (Capparis deciduas) کہتے ہیں. اس درخت پر جب سُرخ پھول آتے ہیں تو ہرایک پھُول میں شہد جیسی شیرینی بھری ہوتی ہے اور جب ان پھولوں کے بعد اُن پر تیز سُرخ رنگ کا میوہ لگتا ہے تو بہت سارے پرندوں اور جنگلی حیات کی خوراک کا بندوبست ہو جاتا ہے۔ یہ سارے درخت اور حالات ماضی میں یہاں تھے،اس لیے شکرخورے کی موجودگی کی بھی نشانیاں ملتی ہیں۔

دیوی کے بعد یہاں بڑا ظلم پیلو پر ہوا، جس کی جڑیں کھود کر مسواک کے لیے استعمال ہوئیں اور اس درخت کی شامت آگئی۔ اب تو یہ کہیں کہیں نظر آجاتا ہے، لیکن ایک زمانے میں یہ معصوم سے درخت اس علاقے کے لیے ایک نعمت تھے۔ تیز دھوپ میں ٹھنڈی چھاؤں..جس کی جھاڑی سے مسواک بن جاتا اور بغیر کسی برش اور ٹوتھ پیسٹ کے منہ اور دانت صاف۔

اکتوبر کے مہینے میں اس پر ننھے منھے پھول لگتے اور پھر ان پھولوں میں ایک بڑے دانے جتنا میوہ لگتا، جسے 'پیروں' کہا جاتا ہے۔ پیروں کو لوگ بھی کھاتے اور پرندوں اور بکریوں کے لیے بھی یہ انتہائی اہم خوراک ہوتی۔ معصوم سے چھوٹے چوہے اس میں پنپتے جبکہ دوسری جنگلی حیات کے رہنے کے لیے بھی پیلو کا درخت بڑا پُرسکون سا گھر تھا.

اس درخت کے ناپید ہونے سے ہم نے زیریں سندھ سے Rock Eagle owl پرندے کی نسل کو تقریباً گنوا دیا ہے۔ کیونکہ یہ پیلو کی جھاڑیوں میں نیچے زمین پر اپنے رہنے کا مسکن بناتی ہے، لیکن پیلو کی جڑیں کچھ روپوں کے نظر ہوگئیں. پیلو کا تنا تو بس بے بسی اور بے کسی سے دیکھتا ہی رہ گیا، لیکن ہم نے نہ جانے کیا کیا گنوا دیا ہے۔۔۔!!!

ان درختوں کے کٹ جانے سے بہت کچھ بدل گیا ہے۔ گیدڑ، خرگوش، بہت ساری چڑیوں کی نسلیں، سانپوں کی نسلیں اور بہت ساری مقامی جنگلی حیات کے اب بس نام ہی رہ گئے ہیں۔

میں نے اُس دن جو دیکھا وہ رونے کے لیے بہت تھا۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا تھا، جس سے لگتا ہو کہ یہ ماحولیات کے بھلے اور تحفظ کے لیے ہو رہا ہے۔ ہم جب ماحولیات کی بات کرتے ہیں تو ہم کسی اور سیارے کا ذکر نہیں کر رہے ہوتے بلکہ اپنے مستقبل کی ہی بات کر رہے ہوتے ہیں۔

وسائل کے سکڑنے کا ذکر ہم پہلے بھی کر چکے ہیں، لیکن اُس کا یہ مقصد تو نہیں ہونا چاہیے کہ ہم اپنی جڑیں کھودنا شروع کردیں۔ ہم جو اتنا کچھ گنوا چکے ہیں، ہمیں اُس کا درد کیوں نہیں ہوتا؟ ہم جو بھُگت رہے ہیں، اس کا احساس ہمیں کب ہوگا؟ یہ جو سب کچھ بربادی کی طرف جا رہا ہے اسے ہم کب روکیں گے؟

— تصاویر بشکریہ ابوبکر شیخ


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (14) بند ہیں

Akhtar Hafeez Dec 05, 2015 03:08pm
ماحولیات کے موضوع پہ بہت ہی عمدہ تحریر ہے، ابو بکر صاحب نے ہماری توجہ اس جانب دلانے کی کوشش کی ہے کہ ہم درختوں کا قتل عام کر کے اپنی ہی قبر کھود رہے ہیں، آنے والے وقت میں شاید ہمارے پاس وسائل ہی نہ رہیں۔
راشد Dec 05, 2015 04:57pm
سندھ کی صوبائی حکومت کو اس مسئلہ پر توجہ دینی چاہیے اور اگر اس میں وفاقی حکومت کی دائرہ کار میں کو ئی کام ہے تو اسے بھی اس علاقہ کی بربادی روکنےکی کوشش کرنی چاہیے۔ سندھ کے سیاستدان عمومی طور پر ہر بات کو پنجاب اور وفاق کے سر ڈال کر سیاست کرتے رہتے ہیں ۔ مگر اس ماحولیاتی مسائل جو انکے اپنے دائرہ کار میں آتے ہیں اس پر خاموش ہو جاتے ہیں۔
Waqas Munir Dec 05, 2015 05:23pm
Unfortunately we are such a nation who cries over spilt milk. We all are responsible for such acts not alone but government also who do not take care of all this! By the way nice writing and good quality of images.
غلام شبیر لغاری Dec 05, 2015 06:26pm
محترم ابوبکر شیخ کا آرٹیکل حسب روایت خوبصورت لفظون کا ذخیر ہ تھا، ماحولیات پر بھت عمدہ تحریر ۔۔۔ غلام شبیر لغاری
Usman Rahookro Dec 05, 2015 06:37pm
abubaker shaikh ne jo apna artical maholyat par behtrern likha hai. as main gharbat ki waja se darkhaton ki bedardi se hoti katai aur as se maholyat ki tabahi ke manzar hain...shaikh sahib ne khobsorat photos aur khobsorat andaz main artical likha hai. usman rahookro
Nasrullah Jarwar Dec 05, 2015 08:59pm
Abubikar Shaikh sahib enviremnet pr achee khasee knowldge rakhaty hain Shaikh sahib ka ye articel bhe envirement pr hi bahat acah or knowldge waalaa hi . v v v v v best Shaikh sahib
عادل لغاری Dec 05, 2015 09:06pm
جو درد ھمارے دل میں بسیرا کیئے ھوۓ تھا اس کا عکس آج ڈاں نیوز پر عیاں ھوئا.ارڈو زباں میں شاھکار بلاگ ایک منفرد انداز میں لکھنے والے لیکھاری شیخ صاحب نے کمال کا بلاگ لکھا ھۓ.جس میں اس نے درد کی ایسی لکیر کھینچی ھۓ جس کو ھر شعور محسوس کرتا هۓ.اس موضوع پر بھت کم لکها گیا ھۓ .محسوس ھوتا ھۓ ڈان سب سے آگے ھۓ.عادل لغاری ٹنڈوباگو
عادل لغاری Dec 05, 2015 09:08pm
جو درد ھمارے دل میں بسیرا کیئے ھوۓ تھا اس کا عکس آج ڈاں نیوز پر عیاں ھوئا.ارڈو زباں میں شاھکار بلاگ ایک منفرد انداز میں لکھنے والے لیکھاری شیخ صاحب نے کمال کا بلاگ لکھا ھۓ.جس میں اس نے درد کی ایسی لکیر کھینچی ھۓ جس کو ھر شعور محسوس کرتا هۓ.اس موضوع پر بھت کم لکها گیا ھۓ .محسوس ھوتا ھۓ ڈان سب سے آگے ھۓ.عادل لغاری ٹنڈوباگو
Zahid Khan Dec 05, 2015 11:09pm
Shiekh Sb, great artical credit goes to you !!! would there be any change to our Sindh.. places like Jatti,Thatta or Sajawal ??? I have been through all those places in my young days, Looking at the pictures i feel like crying !!!! So sad we are finishing our heritage culture and enviroment.... Allah must show our peoples the right path specially to our politicians
hashmi Dec 06, 2015 03:25am
its realy very shameful to us we are degnerate our envirnmental beauty,we degenerate our natrula lungs how our nation may breath ,its time to focus this issue very strongly,we realy near to distrub our natural climate,we creat environmental pollution which will be very dangerous to the wild life and human life too.
hashmi Dec 06, 2015 03:49am
This is very shameful to us that we are destroy our natural beauty and kill our natural lungs. we creat environmental pollution, the resultant environmental changes may be possible and then we dont know how dangerous change will be occurs possible , for God sake just think about that what we are doing with nature and our wild life.
Tariq Saeed Dec 07, 2015 07:26pm
It's an amazing article, it took me to my childhood days when we use to roam in jungle in gangs to search for peeloo.... I am in deep shock...I have no words to express my feelings.....Sindh is in my heart although I am urdu speaking....
Saeeda Sager Dec 08, 2015 11:44am
اس لیے وہ زمینیں جن میں کبھی دھان ہوتی تھی اب وہاں کچھ نہیں ہوتا۔ ہاں البتہ کسی بنجر زمین میں کچھ بھیڑیں دیکھنے کو مل جاتی ہیں جو کبھی کسی سوکھے تنکے کو توڑ کر اُسے چباتی ہیں اور لاپرواہی سے آگے بڑھ جاتی ہیں تاکہ ایک اور گھاس کا تنکا مل جائے، چاہے سُوکھا ہی سہی.@ ہمیشہ کی طرح تصویریں بناتے الفاظ،،،،یہ آرٹیکل ایک قسم کا نوحہ ہے،،،،کیونکہ اگر زمینوں سے ہریالی ختم ہوجائے تو کچھ نہیں بچے گا،،،،یہ وہ لمحے ہیں جب ہم سب کو، حکومت کو مل کر سوچنا چاہئے،،،،،،ماحولیات کے حوالہ سے ایک اچھی اور بولتی تحریر،،،،آپ کی آنے والی تحریر کا شدت سے انتظار رہے گا
Sadam Laghari Dec 11, 2015 08:16am
ایک اچھا بلاگ ۔۔۔۔بھت خوب