• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
شائع December 2, 2015

حیدرآباد کے چوڑی سازوں کی خطرناک زندگیاں

ماروی سومرو

وہ کیا ایک چیز ہے جو جنوبی ایشیائی خاتون کے دیسی انداز کو مکمل کرتی ہے؟

یقیناً جگمگاتی، ٹمٹماتی چوڑیاں۔

حیدرآباد میں پلنے بڑھنے کے باعث مجھے یاد ہے کہ کہ چاند رات کو چوڑی بازار میں دیر تک گھومنا ہوتا تھا جہاں سے اپنے عید کے کپڑوں سے میچ کرتی بہترین چوڑیوں کی تلاش کی جاتی۔

حیدرآباد کے حالیہ دورے کے دوران میں نے چوڑی بازار جانے کا بھی فیصلہ کیا، مگر اس بار میں ان ہنرمندوں کی تلاش کے لیے گئی جو خواتین کی پسندیدہ چوڑیاں تیار کرتے ہیں۔

حیدر آباد کے چوڑی بازار کی شیشے کی خوبصورت چوڑیاں
حیدر آباد کے چوڑی بازار کی شیشے کی خوبصورت چوڑیاں

حیدرآباد کا موسم چوڑیوں کی تیاری کے لیے بہترین ہے اور اسی وجہ سے یہ ملک میں چوڑیوں کی تیاری کا حب بن چکا ہے۔ شہر بھر میں 32 شیشے کی چوڑیاں تیار کرنے والے یونٹس کام کررہے ہیں جن پر اوسطاً فی یونٹ پچاس سے 60 لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔

تخمینے کے مطابق ساڑھے تین لاکھ افراد اس صنعت کے مختلف شعبوں جیسے تیاری، تجارت، پیکنگ اور ٹرانسپورٹ سے منسلک ہیں جن میں مرد، خواتین اور بچوں کی یکساں تعداد ہے۔

ہفتہ کی صبح چوڑی بازار کی سورج کی روشنی سے جگمگاتی گلیوں میں گھومتے پھرتے میں نے خود کو افراد لوگوں کے دوبدو پایا جو اس صنعت کا حصہ ہیں۔

دیکھنے یا سننے میں بظاہر بہت آسان لگتا ہے مگر ایک چوڑی کی تیاری کا طریقہ کار بہت صبرآزما ہے۔ اس عمل کے متعدد مراحل ہوتے ہیں، جن میں ہر ایک مختلف جگہوں پر ہوتا ہے اور اس کی تکمیل مختلف ہاتھوں سے ہوتی ہے۔ ہر مرحلے کے لیے باصلاحیت افرادی قوت درکار ہوتی ہے جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔

یہ صلاحیت صدیوں سے ان لوگوں کے لیے وسیلہ روزگار ثابت ہورہی ہے تاہم اس سے آمدنی بس اتنی ہوتی ہے جو انہیں اپنی بقاءمیں مدد دے سکے۔

جن خواتین ہنرمندوں سے میری ملاقات ہوئی انہوں نے بھرپور گرم جوشی سے میری مہمان نوازی کی۔ ان میں سے ایک نے مجھے بازار کے دورے پر لے جانے کی پیشکش کی اور چوڑی سازی کے مختلف مراحل کے بارے میں وضاحت سے بتایا۔

پہلا قدم شیشے کو جمع کرنا ہوتا ہے۔ میں نے جن شیشہ چننے والوں سے بات کی ان میں بیشتر تھر سے تعلق رکھنے والی خواتین تھیں، جنھوں نے انکشاف کیا کہ ان میں سے بیشتر کو یہ کام کرتے ہوئے پندرہ سال سے بھی زائد عرصہ ہوچکا ہے۔

خواتین چوڑیوں کی تیاری کے لیے خام مال سے شیشہ چن رہی ہیں
خواتین چوڑیوں کی تیاری کے لیے خام مال سے شیشہ چن رہی ہیں
شیشہ چننے والی چند خواتین
شیشہ چننے والی چند خواتین

اگرچہ مالکان، ڈیلرز اور ریٹیلرز بہت منافع حاصل کرتے ہین مگر ان خواتین کو اپنی سخت محنت کے عوض ہر پندرہ روز بعد معمولی اجرت یعنی تین سو روپے ملتے ہیں۔

شیشہ چننے کے بعد دوسرا مرحلہ آتا ہے جسے سدائی (sadai) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کے دوران شیشے کو 1400 ڈگری فارن ہائیٹ کے درجہ حرارت پر پگھلایا جاتا ہے اور بہت پتلا چپچپا محلول تیار کیا جاتا ہے۔

اس مکسچر کو ایک رولر مشین میں ڈالا جاتا ہے جہاں اس محلول کو چوڑیوں کے رول میں بدلا جاتا ہے اور بعد میں الگ کرلیا جاتا ہے۔

سدائی کے دوران شیشے کو پگھلانے والی ایک بھٹی
سدائی کے دوران شیشے کو پگھلانے والی ایک بھٹی
سدائی کا عمل
سدائی کا عمل
سدائی کا عمل
سدائی کا عمل

ایک بار جب یہ گول رنگ الگ ہوجاتے ہیں تو چوڑیوں کو زیادہ درجہ حرارت والی بھٹی میں ڈال کر ان میں چمک دمک کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ میرے لیے یہ امر حیران کن تھا کہ بڑی تعداد میں بچے اس مرحلے کا حصہ ہیں۔

پورے پورے خاندان چوڑی سازی کی صنعت سے منسلک ہیں۔ میرے ساتھ موجود خواتین میں سے ایک نے سندھی لب و لہجے میں وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ کیسے یہ ایک ' غربت کا گڑھا' ہے جو خاندان کے ہر فرد کو چوس لیتا ہے جن میں مرد، خواتین اور بچے سب برابر ہوتے ہیں۔

میں نے کام کی سخت صورتحال دیکھ کر فکرمند ہوگئی اور یہ حقیقت ہے کہ برسوں کی سخت محنت کے بعد بھی یہ لوگ اپنی زندگیوں کو روزانہ محض اس لیے خطرے میں جھونکتے ہیں تاکہ کھانا ان کی میزوں تک پہنچ سکے۔

چوڑی بازار کو گھمانے والی خاتون ایک چھپر کے سامنے روک گئی اور پرجوش انداز سے تیار کے تیسرے مرحلے جڑائی (jurai) کے بارے میں بتانے لگی جس میں صرف خواتین ہی شامل ہوتی ہیں۔

جڑائی کے عمل میں مصروف ایک خاتون
جڑائی کے عمل میں مصروف ایک خاتون

جڑائی جیسے نام سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ ایک چوڑی کے دو متضاد کناروں کو تیز آنچ سے جوڑنے کا کام ہے۔

میں بس بیٹھ کر ان خواتین کو کام کرتے دیکھتی رہی جو کہ پسینے میں شرابور تھیں۔ جڑائی اکتا دینے والا ہے جبکہ یہاں ٹھنڈک فراہم کرنے والی بنیادی سہولیات بھی موجود نہیں تھیں۔

جڑائی کے عمل میں مصروف ایک خاتون
جڑائی کے عمل میں مصروف ایک خاتون
میناکاروں تک جانے کے لیے تیار چوڑیوں کے بنڈل
میناکاروں تک جانے کے لیے تیار چوڑیوں کے بنڈل

سدائی اور جڑائی میں استعمال ہونے والے آلات پرانے اور مکمل طور پر تحفظ دینے والے میکنزم سے محروم ہیں۔ ان مراحل میں شامل خواتین ہیلمٹس، دستانے یا چشمے استعمال نہیں کرتیں اور متعدد خطرناک اشیاءجیسے بہت زیادہ درجہ حرارت اور کھلی آنچ کے ساتھ ہوتی ہیں۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ کسی حادثے کی صورت میں انہیں کوئی زرتلافی یا طبی سہولت فراہم نہیں کی جاتی۔

چوتھا اور آخری مرحلے کو میناکاری کہا جاتا ہے۔ اس میں وہ تمام عناصر شامل ہوتے ہیں جو اسے آخری شکل دیتے ہیں جیسے گولڈ، چمک دمک اور متعدد رنگوں کے کرسٹلز چوڑیوں میں شامل کردیئے جاتے ہیں۔

میناکاری سے قبل چوڑیوں کو چنا جارہا ہے
میناکاری سے قبل چوڑیوں کو چنا جارہا ہے
ایک میناکار چوڑیوں میں چمک وغیرہ شامل کرتے ہوئے
ایک میناکار چوڑیوں میں چمک وغیرہ شامل کرتے ہوئے
میناکاری کے بعد تیار چوڑیاں
میناکاری کے بعد تیار چوڑیاں

بازار کے کچھ مینا کاروں کو اس پیشے میں تیس سال سے زائد عرصہ ہوچکا ہے جو بلاتکان سڑک کنارے موجود عارضی جگہوں پر کام کرتے رہتے ہیں۔ چوڑی کی تیاری مکمل ہونے کے بعد اسے پیکنگ کے لیے بھیج دیا جاتا ہے اور ریٹیلرز کے حوالے کردیا جاتا ہے۔

ان چوڑیوں کو 7 اپ کی بوتلوں سے تیار کیا گیا ہے
ان چوڑیوں کو 7 اپ کی بوتلوں سے تیار کیا گیا ہے
منتقلی کے لیے تیار چوڑیاں
منتقلی کے لیے تیار چوڑیاں

چوڑی بازار سے باہر نکلتے ہوئے میں نے چوڑیوں کے انبار کو تیز روشنیوں سے جگمگاتی دوکانوں کی سجی ہوئی کھڑکیوں کے پیچھے دیکھا اور میں وہاں ان مرد و خواتین کے چہرے بھی دیکھ سکتی تھی جو اپنے گھروں کو بنیادی ضرورت جیسے پینے کے صاف پانی تک رسائی، تعلیم یا طبی سہولیات سے جگمگا نہیں سکتے۔

مجبوراً نسل در نسل غربت کی نچلی لکیر پر زندگی گزارنے والوں کی زندگیاں کتنی سستی ہوگئی ہیں۔

ایک ایسے ملک میں جہاں پچاس فیصد آبادی بنیادی سہولیات سے محروم ہے، غربت کے خلاف جدوجہد طویل اور بہت سخت ہے۔

مگر کیا لیبر رائٹس پر عملدرآمد کرانا جو تحفظ اور منصفانہ معاوضے کو یقینی بنایا بھی اتنا ہی مشکل کام ہے؟

کون (اگر کوئی ہے تو) یہاں اس بہترین دستکاری کے پیچھے موجود افراد کے حقوق کا محافظ بنے گا؟

چوڑیوں کے کارخانے پر کام کرنے والا ایک محنتی بچہ
چوڑیوں کے کارخانے پر کام کرنے والا ایک محنتی بچہ

تصاویر بشکریہ امیمہ مصطفیٰ


انگلش میں پڑھیں.


ماروی سومرو ایک آئی ٹی کنسلنٹ ہیں جو کارپوریٹ یکسانیت سے بچ کر دنیا کا سفر کرتی ہیں اور اپنے الفاظ و تصاویر سے کہانیاں بیان کرتی ہیں۔ماروی محب وطن ہیں جنھیں پاکستان کی سیر کا شوق ہے اور وہ ملک کے قدرتی و ثقافتی ورثے کو روشنی میں لاتی ہیں۔

ماروی سومرو

ماروی سومرو ایک آئی ٹی کنسلنٹ ہیں جو کارپوریٹ یکسانیت سے بچ کر دنیا کا سفر کرتی ہیں اور اپنے الفاظ و تصاویر سے کہانیاں بیان کرتی ہیں۔

دل سے وہ محب وطن ہیں جنھیں پاکستان کی سیر کا شوق ہے اور وہ ملک کے قدرتی و ثقافتی ورثے کو روشنی میں لاتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (15) بند ہیں

Ali Mohammed Dec 02, 2015 05:50pm
Samjh kr chand jis ko assman ne dil me rakha he, Mery mehboob ki tooti hue chori ka tukra he............!!!!
rizwan Dec 02, 2015 06:04pm
great and humble effort...
Hanif Dec 02, 2015 06:20pm
Good Article.
حجاب خان۔۔روزنامہ ایکسپریس اسلام آباد Dec 02, 2015 07:21pm
well done Marvi
محمد ارشد قریشی ( ارشی) Dec 02, 2015 07:36pm
بہت شاندار تحرہر خوبصورت تصاویر سے سجی ، حیدرآباد کی بنی چوڑیوں کو بہت دیکھا اور سنا لیکن ان چوڑیوں کو بنانے والے ہاتھوں کے بارے میں اس تحریر میں پڑھا پسینے میں شرابور بچے اور خواتین چوڑیاں بناتے اور کانچ چنتے دیکھ کر احساس ہوا کہ ہاتھوں کو حسین بنانے کے لیئے یہ ہاتھ نا جانے کتنے زخموں سے دوچار ہوتے ہیں ۔
Ishtiaq Ahmed Dec 02, 2015 08:33pm
Very much informative..........thanks for sharing such a brief about the life of most deserving poor famlies.
الفت تنویر بخاری Dec 02, 2015 08:49pm
اس میں کوئی شک نہیں کہ چوڑی کی تیاری اور اس سے پہلے شیشے کی بناوٹ کا مرحلہ بہت کٹھن ہے۔ اس انڈسٹری میں کام کرنے والی خواتین کو شاید ابھی تک اپنے حقوق کا بھی علم نہیں۔ وہ نہ صرف یہاں کام کرتی ہیں بلکہ گھریلو امور بھی اسی طرح باحسن نمٹانا ہوتے ہیں جیسے عام گھریلو خاتون کرتی ہیں۔ اوپر سے ان کا معاوضہ اتنا کم ہے کہ چوڑی بنانے والی خاتون اگر کبھی عید شب برات پر دکان پر چلی جائے اور چوڑی کے نرخ معلوم کرے تو حیران ہونے کے علاوہ اس کے پاس کوئی چارا نہیں۔ دکان کی سج دھج، چوڑیوں کی چمک دمک چوڑی ساز خاتون کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ اس کو انڈسٹری کا درجہ ملنے کے باوجود چوڑی ساز خاتون رجسٹرڈ نہیں ہے۔ جس کے بارے سوچنا حکومتی ارکان کا کام ہے۔
Ahmad Dec 02, 2015 10:14pm
GREAT STORY AND SAD AS WELL IF YOU LOOK AT THOSE PEOPLE AND THEIR CONDITIONS YOU WILL REALIZE THOSE SHINY SPARKLING BANGLES HAVE VERY DARK STORIES.
Emmanuel Guddu Dec 03, 2015 08:15am
I realy love this post and it shows whole story behind the bangles. Thanks Sis Marvi Soomro for such a nice informative post. May God bless you and I love those people who always discover people and places by their writing skill and camera. With best regards Emmanuel Guddu a Photographer of Traveling, Culture, Community from Mirpurkhas Sindh. You may follow me on Instagram by @emnpk
Abdullah wahab Dec 03, 2015 08:42am
Good artical boht zbrdst write kia hai
Nasurullah (NB) Dec 03, 2015 10:39am
Excellent work Marvi, Keep it up. Nice pictures and good information.
HK Cheema Dec 03, 2015 10:50am
buhat aala
zahidali219 Dec 03, 2015 01:01pm
بہت محنت کا کام ہے واقعی - اللہ ان کے لیے آسانیاں پیدا کرے- کچھ لوگ ہلال کمای کے لیے اتنی محنت کرتے ہیں اور کچھ کا کام مانگنا یا نا جایز طریقے سے روتے کمانا ہوتا ھے
نفیس مبارک Dec 03, 2015 02:05pm
بہت بہت شکریہ ماروی سومرو جی۔ i am impressed
Muhammad Nasir Siddiqui Dec 03, 2015 04:17pm
چوڑکی تیاری میں محنت کرنیوالی خواتین کی محنت اور بہتر معاوضہ ملنے کو خوبصورت سے بیان کیاگیا ہے ،اسی قسم کے ادارے اور کام سندھ میں بہت بس تلاش کرنے کی ضرورت ہے ،لیکن مزدورں کے نام پر لیڈری جمکانے والے مزدور رہنماؤں کو اور سندھ سرکار کے اداروں یہ اداے ڈھونڈے سے بھی نہیں ملیں گے۔تحریک پڑھ کو مجھ تو سردی میں پسینہ آگیا ایک ہفتے میں تین سو روپے ،پاکستان میں یہی حال چھوٹے کسانے کو ساتھ ہورہاہے ،ادارے لالچ میں اندھے ہو جائیں تو کو ن مصیب زدہ افراد کو نجات دلائے ،مزلوم جس ادارے کادروازہ کھٹکٹاتا ہے تو اور مصیبت میں پھنس جاتا ہے ،آج ملک میں جمہویت بھی، عدالتیں بھی آزاد ہیں ،میڈیا بھی آزاد ہے اس صورتحال میں صرف چند لوگوں کے مزے ہیں ،عوام کاکوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان اور عوام پر کرے ۔