حیدرآباد کے چوڑی سازوں کی خطرناک زندگیاں
وہ کیا ایک چیز ہے جو جنوبی ایشیائی خاتون کے دیسی انداز کو مکمل کرتی ہے؟
یقیناً جگمگاتی، ٹمٹماتی چوڑیاں۔
حیدرآباد میں پلنے بڑھنے کے باعث مجھے یاد ہے کہ کہ چاند رات کو چوڑی بازار میں دیر تک گھومنا ہوتا تھا جہاں سے اپنے عید کے کپڑوں سے میچ کرتی بہترین چوڑیوں کی تلاش کی جاتی۔
حیدرآباد کے حالیہ دورے کے دوران میں نے چوڑی بازار جانے کا بھی فیصلہ کیا، مگر اس بار میں ان ہنرمندوں کی تلاش کے لیے گئی جو خواتین کی پسندیدہ چوڑیاں تیار کرتے ہیں۔
حیدرآباد کا موسم چوڑیوں کی تیاری کے لیے بہترین ہے اور اسی وجہ سے یہ ملک میں چوڑیوں کی تیاری کا حب بن چکا ہے۔ شہر بھر میں 32 شیشے کی چوڑیاں تیار کرنے والے یونٹس کام کررہے ہیں جن پر اوسطاً فی یونٹ پچاس سے 60 لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔
تخمینے کے مطابق ساڑھے تین لاکھ افراد اس صنعت کے مختلف شعبوں جیسے تیاری، تجارت، پیکنگ اور ٹرانسپورٹ سے منسلک ہیں جن میں مرد، خواتین اور بچوں کی یکساں تعداد ہے۔
ہفتہ کی صبح چوڑی بازار کی سورج کی روشنی سے جگمگاتی گلیوں میں گھومتے پھرتے میں نے خود کو افراد لوگوں کے دوبدو پایا جو اس صنعت کا حصہ ہیں۔
دیکھنے یا سننے میں بظاہر بہت آسان لگتا ہے مگر ایک چوڑی کی تیاری کا طریقہ کار بہت صبرآزما ہے۔ اس عمل کے متعدد مراحل ہوتے ہیں، جن میں ہر ایک مختلف جگہوں پر ہوتا ہے اور اس کی تکمیل مختلف ہاتھوں سے ہوتی ہے۔ ہر مرحلے کے لیے باصلاحیت افرادی قوت درکار ہوتی ہے جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔
یہ صلاحیت صدیوں سے ان لوگوں کے لیے وسیلہ روزگار ثابت ہورہی ہے تاہم اس سے آمدنی بس اتنی ہوتی ہے جو انہیں اپنی بقاءمیں مدد دے سکے۔
جن خواتین ہنرمندوں سے میری ملاقات ہوئی انہوں نے بھرپور گرم جوشی سے میری مہمان نوازی کی۔ ان میں سے ایک نے مجھے بازار کے دورے پر لے جانے کی پیشکش کی اور چوڑی سازی کے مختلف مراحل کے بارے میں وضاحت سے بتایا۔
پہلا قدم شیشے کو جمع کرنا ہوتا ہے۔ میں نے جن شیشہ چننے والوں سے بات کی ان میں بیشتر تھر سے تعلق رکھنے والی خواتین تھیں، جنھوں نے انکشاف کیا کہ ان میں سے بیشتر کو یہ کام کرتے ہوئے پندرہ سال سے بھی زائد عرصہ ہوچکا ہے۔
اگرچہ مالکان، ڈیلرز اور ریٹیلرز بہت منافع حاصل کرتے ہین مگر ان خواتین کو اپنی سخت محنت کے عوض ہر پندرہ روز بعد معمولی اجرت یعنی تین سو روپے ملتے ہیں۔
شیشہ چننے کے بعد دوسرا مرحلہ آتا ہے جسے سدائی (sadai) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کے دوران شیشے کو 1400 ڈگری فارن ہائیٹ کے درجہ حرارت پر پگھلایا جاتا ہے اور بہت پتلا چپچپا محلول تیار کیا جاتا ہے۔
اس مکسچر کو ایک رولر مشین میں ڈالا جاتا ہے جہاں اس محلول کو چوڑیوں کے رول میں بدلا جاتا ہے اور بعد میں الگ کرلیا جاتا ہے۔
ایک بار جب یہ گول رنگ الگ ہوجاتے ہیں تو چوڑیوں کو زیادہ درجہ حرارت والی بھٹی میں ڈال کر ان میں چمک دمک کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ میرے لیے یہ امر حیران کن تھا کہ بڑی تعداد میں بچے اس مرحلے کا حصہ ہیں۔
پورے پورے خاندان چوڑی سازی کی صنعت سے منسلک ہیں۔ میرے ساتھ موجود خواتین میں سے ایک نے سندھی لب و لہجے میں وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ کیسے یہ ایک ' غربت کا گڑھا' ہے جو خاندان کے ہر فرد کو چوس لیتا ہے جن میں مرد، خواتین اور بچے سب برابر ہوتے ہیں۔
میں نے کام کی سخت صورتحال دیکھ کر فکرمند ہوگئی اور یہ حقیقت ہے کہ برسوں کی سخت محنت کے بعد بھی یہ لوگ اپنی زندگیوں کو روزانہ محض اس لیے خطرے میں جھونکتے ہیں تاکہ کھانا ان کی میزوں تک پہنچ سکے۔
چوڑی بازار کو گھمانے والی خاتون ایک چھپر کے سامنے روک گئی اور پرجوش انداز سے تیار کے تیسرے مرحلے جڑائی (jurai) کے بارے میں بتانے لگی جس میں صرف خواتین ہی شامل ہوتی ہیں۔
جڑائی جیسے نام سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ ایک چوڑی کے دو متضاد کناروں کو تیز آنچ سے جوڑنے کا کام ہے۔
میں بس بیٹھ کر ان خواتین کو کام کرتے دیکھتی رہی جو کہ پسینے میں شرابور تھیں۔ جڑائی اکتا دینے والا ہے جبکہ یہاں ٹھنڈک فراہم کرنے والی بنیادی سہولیات بھی موجود نہیں تھیں۔
سدائی اور جڑائی میں استعمال ہونے والے آلات پرانے اور مکمل طور پر تحفظ دینے والے میکنزم سے محروم ہیں۔ ان مراحل میں شامل خواتین ہیلمٹس، دستانے یا چشمے استعمال نہیں کرتیں اور متعدد خطرناک اشیاءجیسے بہت زیادہ درجہ حرارت اور کھلی آنچ کے ساتھ ہوتی ہیں۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ کسی حادثے کی صورت میں انہیں کوئی زرتلافی یا طبی سہولت فراہم نہیں کی جاتی۔
چوتھا اور آخری مرحلے کو میناکاری کہا جاتا ہے۔ اس میں وہ تمام عناصر شامل ہوتے ہیں جو اسے آخری شکل دیتے ہیں جیسے گولڈ، چمک دمک اور متعدد رنگوں کے کرسٹلز چوڑیوں میں شامل کردیئے جاتے ہیں۔
بازار کے کچھ مینا کاروں کو اس پیشے میں تیس سال سے زائد عرصہ ہوچکا ہے جو بلاتکان سڑک کنارے موجود عارضی جگہوں پر کام کرتے رہتے ہیں۔ چوڑی کی تیاری مکمل ہونے کے بعد اسے پیکنگ کے لیے بھیج دیا جاتا ہے اور ریٹیلرز کے حوالے کردیا جاتا ہے۔
چوڑی بازار سے باہر نکلتے ہوئے میں نے چوڑیوں کے انبار کو تیز روشنیوں سے جگمگاتی دوکانوں کی سجی ہوئی کھڑکیوں کے پیچھے دیکھا اور میں وہاں ان مرد و خواتین کے چہرے بھی دیکھ سکتی تھی جو اپنے گھروں کو بنیادی ضرورت جیسے پینے کے صاف پانی تک رسائی، تعلیم یا طبی سہولیات سے جگمگا نہیں سکتے۔
مجبوراً نسل در نسل غربت کی نچلی لکیر پر زندگی گزارنے والوں کی زندگیاں کتنی سستی ہوگئی ہیں۔
ایک ایسے ملک میں جہاں پچاس فیصد آبادی بنیادی سہولیات سے محروم ہے، غربت کے خلاف جدوجہد طویل اور بہت سخت ہے۔
مگر کیا لیبر رائٹس پر عملدرآمد کرانا جو تحفظ اور منصفانہ معاوضے کو یقینی بنایا بھی اتنا ہی مشکل کام ہے؟
کون (اگر کوئی ہے تو) یہاں اس بہترین دستکاری کے پیچھے موجود افراد کے حقوق کا محافظ بنے گا؟
تصاویر بشکریہ امیمہ مصطفیٰ
ماروی سومرو ایک آئی ٹی کنسلنٹ ہیں جو کارپوریٹ یکسانیت سے بچ کر دنیا کا سفر کرتی ہیں اور اپنے الفاظ و تصاویر سے کہانیاں بیان کرتی ہیں۔ماروی محب وطن ہیں جنھیں پاکستان کی سیر کا شوق ہے اور وہ ملک کے قدرتی و ثقافتی ورثے کو روشنی میں لاتی ہیں۔
تبصرے (15) بند ہیں