اس سال اکتوبر میں خوبصورت مناظر، سبز وادیوں اور سکون کی تلاش میں ہنزہ گیا۔ میرے ساتھ دو دوسرے فوٹوگرافر دوست تھے۔ ہم نے بہت بے تابی سے اپنا سفر شروع کیا۔
کراچی کی یکسانیت بھی اور بے رنگ زندگی نے مجھے بیزار کر دیا ہے اور ایک فوٹوگرافر کی حیثیت سے میں اکثر مصروفیات چھوڑ چھاڑ کر کہیں دور نکل جانا چاہتا ہوں۔
کراچی میں جہاں روشنیاں کبھی نہیں بجھتیں اور آوازیں کبھی ختم نہیں ہوتیں، اس کے مقابلے میں ہنزہ میں آڑو اور خوبانی کے درختوں کے نیچے خاموشی سے بیٹھ کر سنہرے پتوں کو گرتے دیکھنا بہت اچھا لگتا ہے۔
یا پھر وادی کے ستاروں بھرے آسمان کو دیکھنا، یا پھر بلند و بالا پہاڑوں کے دامن میں بیٹھنا۔
ہم اسلام آباد سے ہنزہ بذریعہ سڑک پہلے بھی جا چکے ہیں، اس لیے اس دفعہ ہم نے خزاں کو اس کے مکمل جوبن میں دیکھنے کے لیے فلائٹ لینے کا ارادہ کیا۔
میں بذریعہ سڑک جانا چاہتا تھا تاکہ پنجاب سے گلگت بلتستان تک مناظر کی تبدیلی دیکھ سکوں مگر اسکردو کی فلائٹ نے مجھے نانگا پربت کا مسحور کن نظارہ فراہم کیا۔
ہوا سرد تھی اور پتوں کو سرسراتی ہوئی گزر جاتی۔ زمین پر چلتے پتوں کا نظارہ بہت خوبصورت تھا اور میں خزاں کی خوبصورتی میں کھو کر رہ گیا۔ کراچی میں تو آپ ایسے نظاروں کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔
ہم صحیح وقت پر پہنچے تھے۔ اگلے دس دن کیفے ڈی ہنزہ میں گزارے۔ یہ ہنزہ کا میرا دوسرا سفر تھا، مگر آخری بالکل بھی نہیں۔
حسیب امجد انڈس ویلی اسکول کراچی میں آرکیٹیکچر کے طالبعلم ہیں اور لائٹ ہاؤس فوٹوگرافی میں فوٹوگرافر ہیں.
انہیں انسٹاگرام پر فالو کریں. s.haseebamjad@
تبصرے (7) بند ہیں