تھانہ کلچر صرف ایک حکم سے کیسے بدل سکتا ہے
کچھ عرصہ قبل جب مجھے ایک ملٹی نیشنل بینک سے آفر لیٹر ملا تو دبئی کے مستقل سکونتی ویزا کے حصول کا مرحلہ درپیش تھا، جس کے لیے ڈگری کی تصدیق اور دیگر کاغذات سمیت بہت سی شرائط تھیں۔
لیکن جب سب سے آخری شرط پر نظر پڑی تو مجھے تھوڑی تشویش ہوئی کیونکہ اس میں پولیس کریکٹر سرٹیفیکیٹ بھی مانگا گیا تھا۔ باقی سب شرائط تو جیسے تیسے پوری ہو ہی جاتیں لیکن آخری شرط نے تھوڑا اس لیے پریشان کر دیا کیونکہ آج سے پہلے کسی پولیس اسٹیشن جانے کی نوبت نہیں آئی تھی۔ میڈیا کے ذریعے پولیس گردی اور ان کے رشوت ستانی کے قصے سن سن کر دل بیزار ضرور تھا کیونکہ مجھے لگتا تھا کہ پاکستان اور بالخصوص پنجاب کے تھانوں میں کوئی بھی کام کسی شریف بندے کے بس کی بات نہیں ہے اور وہاں اسے مختلف حیلے بہانوں سے تنگ کیا جاتا ہے، بلکہ جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر خوب لوٹا بھی جاتا ہے۔
جب دوستوں سے مشورہ کیا تو سب نے مختلف کہانیاں سنائیں کہ پولیس سرٹیفیکیٹ بغیر سفارش یا رشوت کے ملنا ممکن ہی نہیں۔ دسمبر کی ایک چمکیلی صبح میں اپنے علاقے سے ملحقہ پولیس اسٹیشن پہنچا۔ ایک پولیس ریڈر نے فائل سے نظر اٹھائے بغیر میرے آنے کی وجہ پوچھی تو میں نے اسے بتایا کہ میں ملک سے باہر جانا چاہتا ہوں اور اس مقصد کے لیے مجھے پولیس کریکٹر سرٹیفیکٹ چاہیے۔
پڑھیے: پولیس کے حقوق
کسی فائل میں غرق وہ پولیس اہلکار یہ سن کر ایک دم میری طرف متوجہ ہوا، فائل اٹھا کر سائیڈ پر رکھی، انتہائی بااخلاق آواز میں مجھے بیٹھنے کا کہا اور ساتھ ہی چائے کا پوچھا جسے میں نے شکریے کہ ساتھ منع کر دیا۔ پولیس اہلکار کا ایک دم تبدیل ہوتا رویہ دیکھ کر لگا کہ شاید آج کسی سفارشی نے بھی سرٹیفیکیٹ بنوانے آنا تھا اور وہ شاید اس کے دھوکے میں مجھے سمجھ بیٹھا ہے۔
خیر میں خاموشی سے بیٹھا رہا۔ اس اہلکار نے ایک فارم نکالا اور میرے سامنے رکھ دیا۔ میں نے اس بے ڈھنگے فارم کو دیکھ کر پڑھنا شروع کیا ہی تھا کہ اس نے میرے ہاتھ سے فارم واپس لے کر خود پر کرنا شروع کر دیا۔ فارم میں ایک جگہ آ کر مسئلہ پیدا ہو گیا کیونکہ میرے شناختی کارڈ پر پتہ میرے آبائی علاقے ساہیوال کا درج تھا اور کریکٹر سرٹیفیکیٹ کے لیے یہ شرط تھی کہ یہ مستقل رہائش والے تھانے سے ہی بنوایا جائے۔
یہ وہ لمحہ تھا جب پولیس اہلکار میری اس مجبوری کا فائدہ اٹھا کر میرا فارم مسترد کر سکتا تھا لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے کمالِ فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے کہا کہ آپ اب کہاں اتنی دور جائیں گے، جب آپ رہتے یہاں ہیں تو سرٹیفیکیٹ بھی یہاں سے ملنا چاہیے۔ فارم پر کر کے اس نے میرے حوالے کیا اور کہا کہ کسی بھی نمبردار یا سرکاری ملازم سے تصدیق کروا کر ایس پی آفس میں جمع کروا دیں۔
اگلے دن جب میں فارم کی تصدیق کروا کر ایس پی آفس گیا تو وہاں مجھ جیسے اور بھی لوگ موجود تھے۔ ایس پی کے اسسٹنٹ نے بتایا کہ ہر ایک فارم کی تصدیق اس پی صاحب خود کریں گے پر ابھی وہ کہیں گئے ہوئے ہیں اور ایک گھنٹے تک آ جائیں گے، اگر کسی کو چائے چاہیے تو وہ میں بھجوا دیتا ہوں۔ سب نے شکریے کے ساتھ انکار کر دیا۔ اعلیٰ اخلاق کا جو مظاہرہ میں نے تھانے میں دیکھا وہی ایس پی آفس میں بھی نظر آ رہا تھا۔ ٹھیک ایک گھنٹے کے بعد وہی اسسٹنٹ دوبارہ آیا کہ ایس پی صاحب کو آج اچانک اسلام آباد جانا پڑ گیا ہے اور وہ آج واپس نہیں آئیں گے، لیکن آپ کا قیمتی وقت بچانے کے لیے ہم آپ کو ڈی ایس پی صاحب کے پاس بھیج رہے ہیں جو تصدیق کر دیں گے۔
مزید پڑھیے: پنجاب پولیس کی بہادر خواتین افسران سے ملیے
ایس پی آفس سے اس قدر اعلیٰ اخلاق کی توقع ہرگز نہ تھی۔ بہرحال ڈی ایس پی آفس پہنچے تو انہوں نے سارے کام چھوڑ کر پہلے ہمیں فارغ کر دیا۔ میں نے میڈیا اور ان لوگوں کو خوب برا بھلا کہا جو اتنی فرض شناس پولیس کو بلاوجہ برا بھلا کہتے ہیں۔ تھانے، ایس پی آفس اور پھر ڈی ایس پی آفس میں جس قدر فرض شناسی دیکھنے میں آئی وہ اپنی مثال آپ تھی۔ لیکن کچھ ہی دیر میں اس فرض شناسی کی اصل وجہ معلوم ہوگئی۔
میرے موبائل فون پر ایک نمبر سے کال آنے لگی۔ جب فون اٹھایا تو ایک جانی پہچانی آواز نے کہا کہ "میں پنجاب کا خادمِ اعلیٰ بات کر رہا ہوں۔ آپ کو کریکٹر سرٹیفیکیٹ لیتے ہوئے کسی قسم کی کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی، یا کسی پولیس اہلکار نے آپ کو بلاوجہ تنگ تو نہیں کیا، یا رشوت تو نہیں طلب کی۔ اگر کچھ ایسا کیا ہے تو اس کال کے ختم ہونے کے بعد اپنی شکایت کا اندراج کروائیں۔ وزیرِ اعلیٰ شکایت سیل 24 گھنٹے کے اندر آپ کی شکایت کا ازالہ کرے گا۔"
ایک دم ہمیں ساری کہانی کھل کر سمجھ آگئی کہ مستقل پتہ نہ ہونے کے باوجود اور ایس پی صاحب کے نہ ہوتے ہوئے بھی سرٹیفیکیٹ اتنی جلدی کیسے مل گیا۔ کریکٹر سرٹیفیکیٹ کے لیے تمام تر آسانیاں وزیرِ اعلیٰ کی ذاتی دلچسپی اور سختی کی وجہ سے تھیں کیونکہ پہلے یہ شکایت بہت زیادہ موصول ہو رہی تھیں کہ پولیس اہلکار کریکٹر سرٹیفیکیٹ بنوانے والے اوورسیز پاکستانیوں کو بہت تنگ کرتے ہیں اور غیر ضروری اعتراضات لگا کر رشوت طلب کرتے ہیں۔
جب یہ بات وزیرِ اعلیٰ تک پہنچی تو انہوں نے اس کام کو کافی منظم کر دیا اور سخت ہدایات جاری کیں کہ کسی بھی طرح اس کام کو جلد از جلد نمٹایا جائے، تاکہ لوگوں کا قیمتی وقت بچے، کیونکہ انہی اوورسیز پاکستانیوں کی وجہ سے پاکستان زرمبادلہ کماتا ہے۔
جانیے: بھانت بھانت کے پولیس والے
اگر ہمارے ارباب اختیار چاہیں تو وہ کسی بھی فرسودہ اور کرپٹ نظام کو اپنے صرف ایک حکم سے بدل سکتے ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آج اگر میں اپنے خلاف کسی زیادتی کی ایف آئی آر کٹوانے اسی تھانے میں جاؤں گا تو اسی اہلکار کا رویہ مجھ سے یکسر تبدیل ہو جائے گا کیونکہ پولیس کو سیاسی جماعتوں کے ایم این اے، ایم پی اے اور دیگر سیاسی عمائدین کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے اور ان کے ہی حکم پر پولیس ان کے مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمے بناتی ہے اور عام لوگوں کے کام بغیر "چائے پانی" لیے نہیں کرتی۔
اگر اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ پولیس اچھا رویہ اس لیے رکھتی ہے کہ ان کی وجہ سے پاکستان زرِ مبادلہ کماتا ہے، تو ملک کے ان باقی شہریوں کا کیا قصور ہے جو ملکی معیشت میں ڈالر کے بجائے روپے کی صورت میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ جیسے پولیس سرٹیفیکٹ کے لیے خصوصی ہدایت دی گئی ہیں، ویسے ہی ہر شکایت اور ایف آئی آر کے سلسلے میں بھی اتنا ہی سنجیدہ رویہ اختیار کیا جائے تکہ عوام کو سستا اور فوری انصاف میسر آ سکے۔
تبصرے (3) بند ہیں