مسلمانوں کی پسماندگی کا ذمہ دار کون؟
دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں میسوپوٹیمیا، مصر، ہڑپہ اور موہنجو داڑو کے نام نمایاں ہیں۔ ان تہذیبوں کے اثرات آج بھی ان علاقوں میں موجود ہیں۔ تہذیبوں کے عروج کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ماضی میں انسانوں کے اذہان کس حد تک ترقی یافتہ تھے۔ انسان کے اس ارتقائی دور کے ہر مرحلے میں ترقی کے معیارات تبدیل ہوتے رہے ہیں۔
تہذیبوں کی پشت پر نظریات بھی موجود رہے چاہے اس کی شکل جو مرضی ہو۔ مسلمانوں نے کم و بیش 800 سال تک دنیا کے بیشتر علاقوں میں براہ راست اور بلاواسطہ حکومتیں کی ہیں جس کے اثرات اس دور کی انسانیت پر بہرحال مرتب ہوئے۔ سائنس کے میدان میں مسلمانوں کی ابتدائی دور کی خدمات کو آج بھی مغرب کی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے، قدیم دور کے آپریشن کے آلات کے نمونے آج بھی سائنس کے طلباء کو دکھائے جاتے ہیں تاکہ انہیں اندازہ ہوسکے کہ قدیم دور سے جدید دور میں داخل ہونے میں کتنے مراحل طے کرنے پڑے۔
سائنس کے شعبے میں اگر نوبل انعام دینے کی ابتداء مسلمانوں کے دور حکومت میں ہوتی تو بیشتر انعامات مسلمانوں کے حصے میں آتے کیونکہ تعلیمی میدان میں ترقی کی سرپرستی سیاسی نظام کر رہا تھا جس نے نامور مسلم سائنسدان پیدا کیے۔
جانیے: مسلم سائنسدانوں کی روشن ایجادات
تاریخ کے بدلتے اسرار و رموز نے بہت کچھ بدل دیا، حکومت کرنے کے طریقے بدلے، معاشی ترقی کے تصورات بدلے گویا انسان کے ذہن کی ترقی کا سفر ابھی تک جاری ہے۔ اس جدید دور میں محض مسلمانوں کے شاندار ماضی پر اکتفا کر لینے یا پھر مسلمانوں کے سائنسی شعبے میں کارناموں کی لمبی داستانیں بیان کرنے سے دل کو جھوٹی تسلی تو دی جا سکتی ہے مگر مسلمانوں کی کھوئی ہوئی عظمت رفتہ کو ان کہانیوں سے دوبارہ زندہ کرنا اب ممکن نہیں ہے۔
اکیسویں صدی کے اس دور میں مسلمان عالمی سطح پر پسماندہ، ذہنی طور پر غلام اور علم کے میدان میں صرف ایک صارف کی حیثیت سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ مشین کی ایجاد تو ہوئی لیکن یہی مشین مسلمانوں کی پسماندگی کا سامان بھی پیدا کر گئی کیونکہ دنیا کی دوسری اقوام نے پرنٹنگ پریس کو اپنا کر دھڑا دھڑ کتابیں شائع کرنا شروع کیں، جبکہ ہمارے یہاں پرنٹنگ پریس قابلِ مذمت قرار پائی۔
لبرل خیالات کے حامی مسلمانوں کی ذہنی پستی اور علمی بدحالی پر تنقید کے پتھر مارتے ہیں لیکن یہ سب بے سود ہے۔ علم کے میدان میں جو جنگ دنیا میں برپا ہے، مسلمان ریاستیں اس سے راہ فرار اختیار نہیں کر سکتیں اور اگر اپنی روش نہ بدلی تو ان کی شناخت بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔
مسلمانوں کی پسماندگی کو صرف انفرادی طور پر دیکھنے یا پھر اسے محض مذہب کی عینک لگا کر دیکھنے سے مسائل کی نشاندہی صرف سطحی ہوگی اور اس کی گہرائی تک پہنچنا محال ہوجائے گا۔ یہ مسئلہ دراصل ریاست اور اقتدار میں رہ کر حکمرانی کرنے والے خاندانوں سے براہ راست منسلک ہے جو اپنی اپنی حکومتوں کو تحفظ دینے کی خاطر دانستہ طور پر اپنی قوموں کو جاہل اور ان پڑھ رکھنا چاہتے ہیں، وگرنہ مسلمان ممالک کے ذہین طبقے کے زرخیز دماغ ابھی تک بنجر نہیں ہوئے۔
دو سو سال کے ترقی کے اس سفر میں مغرب اپنی محنت اور تعلیم دوستی سے مسلمان اقوام کی پسماندگی پر مسلسل مہریں ثبت کر رہا ہے۔ نوبیل انعام کی ایک سو پانچ سالہ تاریخ میں مسلمانوں کے حصے میں صرف چار نوبیل انعام آئے۔ قوموں کی عظمت اس وقت دھندلا جاتی ہے جب وہ علم سے دوری اختیار کریں۔ علم سے بیگانگی کی صرف یہی زندہ مثال کافی ہے کہ صرف ایک ملک امریکا میں یونیورسٹیوں کی تعداد دنیا بھر کے مسلمان ملکوں میں یونیورسٹیز کی تعداد سے کئی گنا زیادہ ہے جبکہ امریکا کی آبادی صرف دو مسلمان ملکوں انڈونیشیا اور پاکستان کی مجموعی آبادی سے بھی کم ہے۔
پڑھیے: ڈھونگی سائنس
مسلمانوں کی علم کے شعبے میں شکست کے حوالے کے طور پر صرف اتنا کافی ہے کہ دنیا کی پانچ سو بہترین یونیورسٹیوں میں مسلمانوں کی ایک بھی یونیورسٹی شامل نہیں ہے۔ کیا علم کے خزانوں کو خریدنے کی ہم سکت نہیں یا پھر مسلمان ممالک کے سربراہان علم سے بیزار ہیں؟ آج ہم اپنی رسوائی کا خود ہی ماتم کر رہے ہیں اور احساس ندامت صرف ماتمی سنگت تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے۔
مسلمان ملکوں کی ترجیحات کیا ہیں؟ سربراہان مملکت کو عالمی سطح پر کس کس کی آشیر باد حاصل ہے؟ سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے ہوئے تو جن 22 ممالک کا دنیا کے نقشے پر وجود ہوا ان ممالک میں کن مسلمان خاندانوں کو تخت پر بٹھایا گیا؟ کیا ان خاندانوں کی حمایت خود عالمی طاقتیں نہیں کر رہیں؟ مسلمان ملک آج اندرونی فسادات اور جنگی جنون میں مبتلا ہیں اور یہ مسلم ممالک عالمی سطح پر اسلحہ فروخت کرنے والی کمپنیوں کی پرکشش منڈی ہیں۔
سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سویڈن کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2014 میں اسلحہ خریداری میں سرِفہرست ممالک میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکی اور عمان ہیں۔ سعودی عرب نے دو ہزار چودہ میں 80 ہزار 762 ملین ڈالرز، متحدہ عرب امارات نے 22 ہزار755 ملین ڈالرز، عمان نے 9 ہزار 623 ملین ڈالرز، عراق نے 9 ہزار 516ملین ڈالرز، مصر نے 4 ہزار 961 ملین ڈالرز، یمن نے 1 ہزار 715 ملین ڈالرز جنگی سازوسامان کی خریداری پر ہی خرچ کر ڈالے ہیں۔
امیر مسلمان ممالک کے پاس صرف تیل ہے یا پھر سونا لیکن یہ علم سے محروم ہیں جس کی بناء پر ان کی قومی سالمیت اس قدر بھاری اسلحے کی خریداری پر ہی منحصر ہے۔ ان ممالک کو جنگوں میں الجھایا گیا ہے اور یہاں کے حکمران اعلیٰ تعلیم کی اہمیت، ٹیکنالوجی اور ایجادات سے کوئی سروکار نہیں رکھتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کمپیوٹرز، ایٹمی ری ایکٹرز، فائبر آپٹکس، فیس بک، وائی فائی، واٹس ایپ وغیرہ جیسی تمام ایجادات مغربی ممالک کی جامعات میں ہو رہی ہیں جن کی سرپرستی وہاں کی ریاستیں خود سے کر رہی ہیں۔
یورپ، امریکا میں ایجادات ہوتی ہیں اور پھر وہ لوگ دوسری دنیا، تیسری دنیا کے ممالک کو فروخت کر کے اپنی معیشتوں کو مضبوط کرتے ہیں۔ مسلمان ممالک کے سربراہان اقتدار کی ہوس، ذاتی کاروبار کے پھیلاؤ اور پرتعیش زندگی گزار کر اپنی اپنی قوموں کے مستقبل کو تاریک کر رہے ہیں۔
جانیے: پاکستان میں تعلیم کی صورتحال اندازوں سے بھی زیادہ بدترین
سربراہان مملکتوں اور حکومتوں کی پالیسیوں کے باعث دنیا بھر کے مسلمانوں کو تنقید کا سامنا ہے۔ مسلم دنیا کا تعارف انتہا پسندی اور شدت پسندی کے طور پر ابھرا ہے، اس تاثر کے ذمہ دار عوام سے زیادہ حکومتیں ہیں جو عوام کے ذہن کو کنٹرول کرنے کے لیے تعلیمی منصوبے تشکیل دیتی ہیں یا پھر ایسے منصوبے جس سے ان کے مفادات کو ٹھیس نہ پہنچے۔
مسلمان حکمرانوں کا یہ رویہ کم وبیش تمام ممالک میں موجود ہے اور دلچسپ امر یہ ہے کہ ان ممالک میں موجود سیاسی خاندانوں کی سرپرستی بھی عالمی طاقتیں خود کر رہی ہیں۔ عالمی سطح پر مسلمان ملکوں کو علم کی طاقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے جو شاید ایٹمی طاقت سے زیادہ مضبوط بھی اور دیرپا جس کی بنیاد پر کوئی بھی قوم مستقل طور پر اپنی ترقی کا سامان پیدا کرسکتی ہے۔
جب تعلیم ترجیح ہوگی تو پھر خود بخود فرسودہ نظریات، تصورات، خیالات اور ذہنی الجھنیں دور ہوتی چلی جائیں گی اور قوموں کے اذہان کو مجموعی طور پر روشنی میسر آئے گی۔ اگر تعلیم ترجیح نہیں ہوگی تو دنیا کا ہمارے ساتھ موجودہ رویہ نہ صرف برقرار رہے گا، بلکہ اس میں مزید سختی آئے گی.
تبصرے (7) بند ہیں