پاکستان سپر لیگ کی کامیابی کیوں ضروری ہے؟
پاکستان کے پاس اب انڈین پریمیئر لیگ کی طرح پاکستان سپر لیگ ہے۔ یہ صرف وقت کی بات تھی کیونکہ ہندوستان کے بعد اگر کسی دوسرے ملک کے کرکٹ شائقین اس کھیل سے جنون کی حد تک عقیدت رکھتے ہیں، تو وہ پاکستان ہے۔
حال ہی میں بنگلہ دیش، سری لنکا اور یہاں تک کہ ویسٹ انڈیز نے بھی تھوڑی بہت کامیابی کے ساتھ آئی پی ایل کے اپنے اپنے ورژن لانچ کیے۔ مگر پاکستان میں چیزیں صفر سے آگے نہیں بڑھ سکیں جس کی کئی وجوہات میں سے بنیادی وجہ بین الاقوامی ٹیموں کا سکیورٹی خدشات کی بناء پر پاکستان میں میچ کھیلنے سے انکار تھا۔
مگر ایسا لگتا ہے کہ اب چیزیں درست سمت میں جا رہی ہیں۔ کئی سالوں کی غیر یقینی صورتحال کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے اب ستمبر میں پاکستان سپر لیگ کے لیے ٹھوس منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔ افتتاحی ایڈیشن فروری 2016 میں شروع ہوگا۔
یہ دوسری ٹی 20 لیگز کی طرح فرنچائز ماڈل پر ہی مبنی ہوگا جس میں پانچ فرنچائز — کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ اور اسلام آباد — چار صوبائی اور ایک وفاقی دار الحکومت کی نمائندگی کریں گی جبکہ انعامی رقم 10 لاکھ ڈالر ہوگی۔
اور پی ایس ایل میں بڑے ناموں کی کوئی کمی نہیں ہوگی۔ کرس گیل، کیرن پولارڈ، کیون پیٹرسن اور کمار سنگاکارا ان 100 سے زائد کھلاڑیوں میں شامل ہیں جنہوں نے ٹورنامنٹ میں شرکت کی حامی بھری ہے۔
زمینی حقائق
لیکن صرف ایک پریشانی جگہ کی ہے۔ بھلے ہی اس ایونٹ کا نام پاکستان سپر لیگ ہے، مگر یہ ایونٹ پاکستان میں نہیں ہو رہا۔ شروعات میں تو میچز کے لیے قطر کا نام تجویز کیا گیا تھا، مگر پھر پاکستان کرکٹ بورڈ نے فیصلہ کیا کہ پی ایس ایل کا پہلا ایڈیشن متحدہ عرب امارات میں ہوگا۔
پی سی بی کے پاس اس سلسلے میں زیادہ آپشن نہیں تھے۔ زیادہ تر بین الاقوامی ٹیمیں اب بھی پاکستان کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں۔ پاکستانی قومی کرکٹ ٹیم اپنے ہوم میچز امارات میں کھیلتی ہے۔ مئی میں پاکستان نے زمبابوے کا دورہ کیا مگر دوسری ٹیموں کے پاکستان آنے میں اب بھی بہت وقت باقی ہے۔
لیکن پھر بھی پی سی بی نے یہ ایونٹ اپنی سرزمین پر کروانے کے لیے سرتوڑ کوششیں کیں۔ انہوں نے اعلیٰ پائے کے بین الاقوامی کھلاڑیوں کو مینیج کر رہی ایجنسیوں کے ذریعے انہیں پاکستان میں کھیلنے کے لیے دعوت دی مگر منفی جواب ملا۔
کرس گیل اور کیون پیٹرسن جیسے زبردست ٹی 20 کھلاڑیوں کی شرکت کے بغیر پاکستان سپر لیگ ایک ناکام ایونٹ ثابت ہوتا اس لیے ایونٹ کو پاکستان سے باہر رکھنا کاروباری اعتبار سے ایک درست فیصلہ تھا۔
مثبت چیزوں پر توجہ دینا
ایک انٹرویو میں پی سی بی ایگزیکٹو کمیٹی کے سربراہ نجم سیٹھی پرامید تھے کہ پاکستان سپر لیگ کو بیرونِ ملک منعقد کروانا پاکستان کے لیے مددگار ثابت ہوگا۔ سیٹھی نے وضاحت کی کہ جگہ سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ پاکستان برانڈ میں کمرشل دلچسپی زیادہ ہوگی جس سے کھلاڑیوں کو زیادہ معاوضہ ادا کیا جا سکے گا۔
پاکستانیوں کا اپنے کھلاڑیوں کو اپنے سامنے کھیلتا نہ دیکھ سکنے کا افسوس اس امید سے کچھ کم ہوجاتا ہے کہ شاید اس سے پاکستان کرکٹ بالآخر بہتری کی جانب جائے۔
فیصل زیدی نامی ڈان کے ایک فری لانس صحافی اور کرکٹ شائق نے کہا کہ "پاکستان میں ایک عرصے سے بین الاقوامی کرکٹ منعقد نہیں ہوا ہے، اس لیے لوگ پاکستان سپر لیگ کا انعقاد پاکستان میں ہر حال میں چاہتے ہیں۔ لیکن اگر حقیقت پسندی سے دیکھیں تو ایونٹ پاکستان میں منعقد ہونے پر یہاں کوئی بھی نہیں آتا۔ پر اگر یہ امارات میں کھیلا جاتا ہے اور کامیاب ہوتا ہے، تو اس بات کی قوی امید ہے کہ ایک یا دو سیزن کے بعد یہ پاکستان منتقل کر دیا جائے گا۔"
مختصر فارمیٹ
پی ایس ایل کو آئی پی ایل سے دو مزید چیزیں ممتاز کرتی ہیں۔
پہلی چیز ٹیموں کی تعداد ہے۔ آئی پی ایل کے برعکس پی ایس ایل میں صرف پانچ ٹیمیں ہوں گی، جس کا مطلب ہے کہ مکمل ٹورنامنٹ صرف 24 میچز پر مشتمل ہوگا۔ یہ آئی پی ایل سے چھوٹا ہوگا جہاں آٹھ ٹیمیں تقریباً دو ماہ تک کھیلتی ہیں۔
دوسری چیز نیلامی کا نظام ہے۔ پی سی بی کیریبیئن پریمیئر لیگ کی طرح ڈرافٹ فارمیٹ اپنائے گا جس میں ہر کھلاڑی کو ایک مخصوص کیٹیگری میں ڈالا جاتا ہے اور پھر بیلٹ کے ذریعے اسے منتخب کیا جاتا ہے۔ سیٹھی کے مطابق اس سے پاکستانی کھلاڑیوں کو بین الاقوامی کھلاڑیوں جتنا معاوضہ ملنا ممکن ہوگا۔
پاکستانی کرکٹ کی غیر یقینی صورتحال کو دیکھتے ہوئے پی ایس ایل کے پہلے ایڈیشن کا شدت سے انتظار کیا جا رہا ہے۔ سب سے پہلی ترجیح یہ ہوگی کہ افتتاحی ایڈیشن بغیر کسی بڑے مسئلے کے نمٹ جائے۔
مگر اس سے بھی زیادہ اہم یہ کہ اگر پی ایس ایل پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی کا سبب بن جاتی ہے، تو یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہوگی نہ صرف پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیے، بلکہ کرکٹ کے لیے بھی۔
یہ مضمون سب سے پہلے اسکرول ڈاٹ ان پر شائع ہوا اور اجازت سے دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔