• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

پاکستانی طلاق کو برا کیوں سمجھتے ہیں؟

شائع October 30, 2015 اپ ڈیٹ October 31, 2015
میری طلاق ایک اچانک لیا گیا جذباتی فیصلہ نہیں تھی۔ میں نے کاغذات پر دستخط کرنے سے پہلے اس پر شدت سے طویل غور و فکر کیا تھا۔ — فائل فوٹو۔
میری طلاق ایک اچانک لیا گیا جذباتی فیصلہ نہیں تھی۔ میں نے کاغذات پر دستخط کرنے سے پہلے اس پر شدت سے طویل غور و فکر کیا تھا۔ — فائل فوٹو۔

میں گھر کی سیڑھیوں پر کھڑی ہوتی ہوں، اور میرے دو بچے، ایک دو سال اور دوسرا ایک سال کا، ہاتھ میں ہاتھ ڈالے مجھے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ بڑا مجھے دیکھ کر مسکراتا ہے جبکہ چھوٹا پریشان نظر آتا ہے۔ میں ہاتھ ہلاتی ہوں، مڑتی ہوں، اور تہیہ کر لیتی ہوں کہ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھوں گی۔

اپنے بچوں کو کسی اور کے ساتھ چھوڑ کر جانا بہت مشکل ہے۔ اس سے بھی زیادہ سوہانِ روح یہ خیال ہے کہ میں نے اپنے بچوں کے لیے اس زندگی کا انتخاب کیا۔ میں نے اپنے بچوں کو اکیلے پالنے کا فیصلہ کیا۔

میری طلاق ایک اچانک لیا گیا جذباتی فیصلہ نہیں تھی۔ میں نے کاغذات پر دستخط کرنے سے پہلے اس پر شدت سے طویل غور و فکر کیا تھا۔

پاکستانیوں کو طلاق 'نہ' لینے سے ایک عجیب والہانہ لگاؤ ہے۔ ہاں میں اسے والہانہ ہی کہوں گی۔

یہاں تک کہ وہ پاکستانی جو کئی دہائیوں سے باہر رہ رہے ہیں، وہ بھی اس لفظ سے بے حد گھبراتے اور شرماتے ہیں، جیسے کہ ایک خیر خواہ نے کہا تھا،

"چاہے آپ زندگی میں کچھ بھی پا لیں، چاہے آپ کتنے ہی کامیاب کیوں نہ ہو جائیں، آپ کی کامیابی بے معنی اور آپ ناکام کہلائیں گے اگر آپ کی شادی کامیاب نہیں ہے تو۔"

مگر پھر بھی میں نے طلاق لینے کا فیصلہ کیا۔

بھلے ہی میرا فیصلہ واضح اور اچھی طرح سوچ بچار کے بعد لیا گیا تھا، مگر اس کے بعد بھی مجھے ہر پاکستانی کے سامنے اپنے اقدام کا مکمل جواز پیش کرنا پڑتا ہے۔

سب سے زیادہ پریشان کن تو خواتین کا رویہ ہوتا ہے۔ وہ آپ کو اوپر سے نیچے تک دیکھتی ہیں، اور آپ ان کی آنکھوں سے ہی ان کے ذہن میں مچی ہلچل پڑھ سکتی ہیں:

کیا وہ تم پر تشدد کرتا تھا؟ نہیں۔

تو پھر اس کے علاوہ وہ چاہے کچھ بھی کر رہا تھا، تم بچوں کی خاطر برداشت کیوں نہیں کر سکتی تھی؟

کیا وہ تمہیں طلاق دینا چاہتا تھا؟ نہیں۔

مگر تم نے اسے بچے ہونے کے باوجود چھوڑ دیا؟ ہاں۔ خاموشی، دھچکا، مگر کیوں؟

ایسا لگتا ہے کہ جب ایک عورت طلاق لیتی ہے تو وہ اور اس کے بچے عوامی ملکیت بن جاتے ہیں جن پر ہر کوئی راہ چلتا شخص تبصرہ بازی کر سکتا ہے۔

ان کی بدقسمتی کہ وہ مجھے کچھ کرنے سے جسمانی طور پر نہیں روک سکتے — ہاں اگر پاکستان میں ہوتے تو شاید ایسا بھی کر ڈالتے — مگر وہ زبانی حملوں سے بہرحال نہیں باز آتے۔

سب سے زیادہ جو چیز مجھے پریشان کن لگتی ہے وہ یہ عام تصور کہ طلاق میں نے بخوشی نہیں لی ہوگی۔ آخر بچے ہونے کے بعد کوئی عورت ایسا کر بھی کیوں سکتی ہے؟

اور جب انہیں یقین آجاتا ہے کہ طلاق میں نے خود لی ہے، تو وہ میرے بچوں کو رحم بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں کیونکہ ان کی نظروں میں ان بچوں کی ماں جنونی ہے۔

ظاہر ہے کوئی بھی عورت جو کسی مرد کی موجودگی کے 'سہارے' کو خود چھوڑنا چاہے، پھر بھلے ہی وہ سہارا کس قدر لایعنی اور صدمہ انگیز کیوں نہ ہو، وہ اپنے بچوں سے پیار نہیں کرتی۔

ظاہر ہے کہ ایک عورت جو روزانہ پورا وقت کام کرتی ہے، اور جس کے بچے یا ڈے کیئر سینٹر یا نانی کے گھر میں پلیں بڑھیں، ایک ماں ہونے کے قابل نہیں ہے۔ آخر طلاق لینے کے بعد پڑھنے اور کام کرنے کا مقصد کیا ہے؟ آپ کو تو ایک کونے میں منہ چھپا کر بیٹھ جانا چاہیے۔

میں نے کہیں پڑھا تھا کہ پاکستانیوں میں اب طلاق کے متعلق خیالات تبدیل ہو رہے ہیں۔

یورپ میں رہنے والی پاکستانی برادری میں سوچ کی یہ تبدیلی ابھی بھی آنی باقی ہے۔ میں صرف ایک یا دو ایسی پاکستانی عورتوں سے ملی ہوں جنہوں نے میری طلاق کا سننے پر مجھے کہا کہ "مجھے یقین ہے تم اس کے بغیر بہتر ہو اور تمہیں اس سے اور زیادہ اچھا کوئی مل جائے گا۔" یہ دونوں ہی عورتیں حال ہی میں پاکستان سے یہاں آئی تھیں۔

ایسا لگتا ہے کہ باہر رہنے والے پہلی اور یہاں تک کہ دوسری نسل کے پاکستانی بھی طلاق کو پسند نہیں کرتے۔ وہ اس رومانوی (یا گمراہ کن کہیں؟) خیال کے ساتھ جڑے رہتے ہیں کہ ایک بار شادی کر لینے والی عورت کے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔

طلاق کے بعد زندگی کیسی ہوتی ہے؟

میں نے پاکستانی ریستورانوں، دکانوں، اور کمیونٹی سینٹرز سے دور رہنا شروع کر دیا ہے۔ لوگوں کو یہ بتانا کہ میں اور میرے سابق شوہر کے درمیان علیحدگی ہوچکی ہے، بہت 'قابلِ شرم' ہے، مگر مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ مجھے یہ اتنی شرمناک نہیں لگتی تھی جب تک کہ میں نے اس بات پر لوگوں کا ردِ عمل نہیں دیکھ لیا۔

اس بات پر شرم محسوس نہ کرنے والی عورت پاگل ہی ہوسکتی ہے۔ آخر کیسی بے دل لڑکی ہے جو یہ بات بتاتے ہوئے ٹکڑے ٹکڑے نہیں ہو جاتی؟

مگر جب میں پاکستان میں بسنے والوں اور یورپ میں رہنے والے پاکستانیوں کے ردِ عمل کا موازنہ کرتی ہوں تو مجھے شدید حیرانی ہوتی ہے۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ کراچی کے چھوٹے چھوٹے فلیٹوں میں رہنے والے لوگ مجھے زندگی جینے اور بہتر نظر آنے کے لیے ہمت دلاتے ہیں تاکہ میرے سابق شوہر کو احساس ہو کہ انہوں نے کسے کھویا ہے۔

مگر باہر بسنے والے پاکستانی مجھ سے توقع کرتے ہیں کہ میں بیٹھ جاؤں اور بس روتی رہوں، لمبی دوپہروں میں سب سے صرف یہ بات کروں کہ میری زندگی کس قدر مشکل ہوگئی ہے اور یہ تسلیم کروں کہ مجھے کتنا برا لگتا ہے۔

میں اپنے بچوں کو اپنی طلاق کے بارے میں بتانے کے بارے میں اور انہوں لوگوں کے زبان درازی سے محفوظ رکھنے کے بارے میں بہت سوچتی ہوں۔ لیکن آخر میں نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ میں انہیں لوگوں کی باتوں سے نہیں بچا سکتی۔

میں صرف اتنا کر سکتی ہوں کہ اپنے بچوں کو ایسا بناؤں جنہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی ان کے بارے میں کیا کہتا اور سوچتا ہے۔ ان کی ماں کے برعکس۔

انگلش میں پڑھیں.

امبر راشد

امبر راشد آئی ٹی کنسلٹنٹ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (31) بند ہیں

Farah Oct 30, 2015 07:28pm
Talaq Allah k nazdeek he na pasandeda amal hy.. Koi insan bura samjhta hy usy tu galat nae samjhta.. Lekin haram nae hy.. Is topic pr khayalat tabdeel krny ki zrurt waqae hy..
حسن امتیاز Oct 30, 2015 07:30pm
یہ سارا بلاگ ،اپنے موضوع سے ہٹا کر تھا۔ کسی جگہ ان بنیادی وجوہات کی نشان دہی نہیں کی گئی کہ آخر ہمارے معاشرے میں طلاق کو برا کیوں سمجھا جاتا ہے ۔ ویسے میرا سادہ سوال ہے ۔ وہ کون سا معاشرہ ہے جو طلاق کو اچھا سمجھتا ہے
mohammad ali Oct 30, 2015 07:37pm
assalam o alaecam Thanks for taking courage to talk about it.I am a man and successful professional in USA I have a sister who got divorced and not only the friends , our own family disowned her and her children . I have a unsuccessful; marriage but I and my children still suffer from pain every week if not every day.I dont find courage or confidence to take the step to have a better life for myself and may be for my children
نجیب احمد سنگھیڑہ Oct 30, 2015 07:43pm
جرمنی کے ایک گاؤں میں ایک قدیم رسم اب بھی جاری ہے کہ شادی کرنے والے جوڑے کی شادی سے پہلے آزمائش کی جاتی ہے کہ آیا وہ شادی کی زندگی بسر کرنے کے قابل ہیں یا نہیں- اس بابت شادی کی رسوم انجام دینے سے قبل دولہا اور دلہن کو ایک میدان میں لایا جاتا ہے جہاں ایک درخت ہوتا ہے جس کا اوپر کا حصہ کٹا ہوتا ہے- دولہا اور دلہن دونوں کو آرا دیا جاتا ہے اور درخت کی پیڑ کو کاٹنے کا کہا جاتا ہے- اس آزمائش کے ذریعے یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ دونوں دولہا اور دلہن آپس میں تعاون کرنے کے لیے کہاں تک آمادہ ہیں- یہ کام چونکہ دونوں کو مل کر انجام دینا پڑتا ہے اس لیے اگر ایک کو دوسرے پر بھروسہ نہ ہو تو یہ ہاتھ تو ہلاتے رہیں گے لیکن درخت کی پیڑ کاٹ نہیں سکتے- اگر ان میں سے ایک ابتدا کر کے خود کاٹنا شروع کرتا ہے اور دوسرا زور نہیں لگاتا تو کام زیادہ وقت میں ختم ہوتا ہے- جرمنی کے ان گاؤں والوں نے معلوم کر لیا ہے کہ کامیاب شادی کے لیے تعاون کی صلاحیت خاص شرط ہوتی ہے۔
نجیب احمد سنگھیڑہ Oct 30, 2015 07:44pm
شادی کی کامیابی کی پہلی شرط باہمی تعاون ہوتی ہے- شادی کا مقصد ایک ایسی بنیاد مہیا کرنا ہوتا ہے جسکی مضبوطی کے سہارے زندگی آگے بڑھتی ہے- یہ بنیاد ازدواجی رشتے میں مربوط دو ساتھیوں کے باہمی تعاون سے استوار ہوتی ہے اور یہ بنیاد محض دوسرے سے زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے ہی کے لیے نہیں رکھی جاتی بلکہ دوسرے کو بہت کچھ دینے کے لیے بھی رکھی جاتی ہے- حقیقی کامیاب شادی وہی ہوتی ہے جو سالہا سال گزرنے کے بعد بھی روزِ اول جیسی دکھائی دے اور یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب دونوں ساتھی ایک دوسرے کا احترام کریں- بدقسمتی سے ہمارے معاشرہ میں لوگ عام طور سے تعاون کے لیے تیار نہیں کیے جاتے- ہماری تعلیم اور تربیت ایسی ہے کہ جو انسان کو اپنی تنہا کامیابی کے لئے تیار کرتی ہے اور ہمیں زندگی میں سب کچھ اس لیے حاصل کرنا اور دوسروں کو کچھ نہ دینا سکھاتی ہے- جبکہ شادی ایک ایسی مہم ہے جس میں باہمی تعاون کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ مقابلہ بازی کی- ہمارے معاشرہ میں دو قسم کی شادیاں عام ہیں، پہلی خاندان یا برادری کے اندر جبکہ دوسری قسم خاندان سے باہر شادی کرنا جسے پنجابی زبان میں ‘اوبھڑ رشتہ‘ بھی کہا جاتا ہے-
نجیب احمد سنگھیڑہ Oct 30, 2015 07:44pm
لڑکا اور لڑکی جس قدر ایک دوسرے کے ہم خیال ہوں، جس قدر ان کے خاندان اور حالات ایک دوسرے کے قریب اور متوازی ہوں، ان کی آرزوئیں اور خواب آپس میں زیادہ رکھتے ہیں تو شادی کے بعد ان کی ازدواجی زندگی بڑے پُرمسرت طریقے سے گزرتی ہے اور اختلاف کے بہت کم مواقع آتے ہیں- یہ سب خصوصیات خاندان برادری کے اندر شادی کرنے میں ملتی ہیں- خاندان برادری کے رشتے پسندیدہ رہے ہیں اور اس ادارہ میں شادیاں اکثر و بیشتر کامیاب رہتی ہیں- نیز خاندان میں شادی کرنے سے لڑکی کو بھی ایڈجسٹمنٹ کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا نہیں پڑتا، وہ اپنے خاوند کے گھر قدم رکھتی ہے تو اسے اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا، جانے پہچانے ماحول میں آ کر وہ کچھ اس طرح گُھل مل جاتی ہے کہ گھر والے اسے پرائی بیٹی نہیں سمجھتے-
نجیب احمد سنگھیڑہ Oct 30, 2015 07:45pm
آج خاندان سے باہر شادی کا رحجان بڑھ رہا ہے اور طبی طور پر بھی اس کے کافی فوائد ہیں کہ وراثتاً آنے والی بیماریوں کا خاتمہ ہوتا ہے- لیکن فیملی سے باہر شادی کے نقصانات بھی کافی ہیں اور کافی حد تک اسکی کامیابی ‘معجزہ‘ ہی کہلاتی ہے- اس قسم کی شادی میں لڑکی جب اپنے خاوند کے گھر آتی ہے تو کُلی طور پر اجنبیت کا احساس و ماحول اسکا سواگت کرتا ہے اور اسکو وہاں کے ماحول میں بیٹھنے کے لئے کافی جدوجہد بھی کرنی پڑتی ہے اور بعض دفعہ تو اپنی ‘سیلف‘ کو بھی قربان کرنا پڑتا ہے- ظاہر ہے کہ لڑکی چونکہ ایک نئے ماحول میں آتی ہے، ایڈجسٹمنٹ کرنا بھی اسی کی ذمہ داری ہوتی ہے نہ کہ لڑکے والے اپنے گھر میں لڑکی کے ماحول کو لاگو کریں گے اور یہ بات ‘جمہوری‘ لحاظ سے بھی درست ہے !
نجیب احمد سنگھیڑہ Oct 30, 2015 07:45pm
نئی نئی شادی میں رخنہ پڑنے، اسکی ناکامی، اس میں روڑے اٹکنے کی وجوہات تو بہت سی ہیں لیکن یہاں پر چند چیدہ وجوہات کو بیان کیا جائے گا- سب سے پہلی اور بڑی وجہ ‘غلط فہمی‘ ہے- ہوتا کچھ یوں ہے کہ بغیر سوچے سمجھے، غوروفکر کیے بغیر چھوٹی چھوٹی باتوں کو سنجیدگی سے لے لیا جاتا ہے، مزاح میں کہی ہوئی بات کو سنجیدگی سے لے لیا جاتا ہے اور سنجیدگی سے کہی ہوئی بات کو مزاح میں لے کر نظرانداز کر دیا جاتا ہے- کسی بات کو کئی ‘موڈز‘ سے کہا جاتا ہے، غصہ سے، مذاق سے، سنجیدگی سے، ہنسی مزاح کے لئے، ماحول کو خوشگوار بنانے کے لیے وغیرہ وغیرہ- لیکن عموما ً لڑکا جب کہ خصوصاً لڑکی اس بات کو سمجھنے سے قاصر رہتی ہے اور اپنی ناتجربہ کاری، کم عقلی، لاعلمی اور جذباتی پن کی وجہ سے یا احساسِ برتری کی برقراری کے لیے خاوند سے ہونے والی باتیں جا کر اپنے گھر والوں کو بتا ڈالتی ہے جس سے دونوں خاندانوں میں دوری کے جراثیم در کرنا شروع ہو جاتے ہیں- اس صورتحال سے بچنے کا صرف ایک ہی ‘نسخہ کیمیا‘ ہے کہ لڑکی اور لڑکا دونوں عہد کریں کہ وہ آپس کی باتیں کسی تیسرے فریق کو نہیں بتائیں گے-
نجیب احمد سنگھیڑہ Oct 30, 2015 07:46pm
شادی میں دگرگوں حالات پیدا ہونے کی دوسری وجہ ‘مَیں‘ ہوتی ہے- شوہر چاہتا ہے کہ بیوی اسکی ہمیشہ نگرانی اور خدمت کرے اور بیوی چاہتی ہے کہ شوہر ہمیشہ اس کے ناز نخرے اٹھائے اور اس کے ارد گرد ‘بھمبھیری‘ بن کر گھومتا رہے اور اس کی خدمت کرتا رہے- بالفاظ دیگر ‘زن مریدی‘ کا عملی ثبوت بہم دے- بیوی کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ ‘اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا‘- اسی طرح لڑکی والے بھی یہ خواہش رکھتے ہیں کہ لڑکا ان کے گھر پھیرے مارتا رہے تاکہ وہ اپنے محلہ داروں کو دکھا سکیں کہ دیکھو ‘ہماری پَگ اتنی اونچی ہے کہ لڑکا گھر داماد بنا لیا ہے‘- اور یہ بات کسی ‘خالص‘ لڑکے کے شانِ شایان کے خلاف اکثر ہوتی ہے- ظاہر ہے کہ کسی کی ‘میں‘ کو ختم کر کے اپنی ‘میں‘ ٹھونسی جائے گی تو پھر گڑ بڑ تو ضرور ہو گی-
نجیب احمد سنگھیڑہ Oct 30, 2015 07:48pm
تیسری وجہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش ہے-خاوند یا بیوی دونوں اپنی اپنی ‘امارات‘ یا فرنیچر و جہیز وغیرہ کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں اور ‘احساسِ کمتری‘ میں مبتلا کرنے کے لیے مختلف قسم کی بلواسطہ اور بلاواسطہ ‘سازشیں‘ کرتے ہیں اور یہ بات دراصل ‘مادہ پرستانہ‘ ذہنیت کو ظاہر کرتی ہے-حالانکہ اشیاء تو ٹوٹتی بنتی رہتی ہیں اور یہ بھی روپے کی طرح ‘ہاتھ کا میل‘ ہی ہوتی ہیں، ان کو اولیت دینا، ان کو موضوعِ بحث بنانا ذہنی ناپختگی کو ظاہر کرتا ہے- چونکہ کوئی فریق بھی نہیں چاہتا کہ وہ ‘نیچے‘ آئے لہٰذا بات بگڑنا شروع ہو جاتی ہے اور نفرت کے بیچ پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں-چوتھی وجہ ساس اور سسر کا رویہ بھی ہے- یہ ایک عام بات ہے کہ ساس اور سسر چاہتے ہیں کہ بہو ان کی خدمت کرتی رہے، ان کی ٹانگیں دبائے، ان کا خیال رکھے، ان کو وقت دے وغیرہ وغیرہ- نارمل حالت تک تو بہو کو ایسا کرنا زیب دیتا ہے لیکن جب بہو کولہو کا بیل بن جاتی ہے تو معاملہ الٹا ہو جاتا ہے- ساس اور سسر کو بہو سے زیادہ خدمت لینی نہیں چاہیے کہ ‘ہان نوں ہان پیارا ہُندا اے‘ کے مصداق نوجوان، نوجوانوں ہی کی کمپنی میں زیادہ تر رہنا پسند کرتے ہیں-
نجیب احمد سنگھیڑہ Oct 30, 2015 07:48pm
شادی میں اتار چڑھاؤ کی پانچویں اور بڑی وجہ لڑکی کا خواب ‘اپنا گھر‘ ہوتا ہے- اس بابت لڑکی کی سہیلیاں وغیرہ اس کو پہلے ہی سے ‘پٹیاں‘ پڑھا چکی ہوتی ہیں کہ کسی نہ کسی طرح ‘مُنڈے‘ کو اپنے ‘قابو‘ کرنا ہے- اس خواہش کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے شادی کو ابھی ایک ماہ ہی ہوا ہوتا ہے کہ لڑکی اپنے ‘تیر‘ چلانا شروع کر دیتی ہے اور وقتاً فوقتاً ساس اور سسر کی باتوں کو ‘منفی‘ بنا کر خاوند سے کہتی ہے کہ اگر میں یہ کروں یا وہ کروں تو وہ برا مناتے ہیں وغیرہ وغیرہ- ایسی باتیں اگر سمجھدار خاوند کو کہی جائیں تو وہ تاڑ جاتا ہے کہ بیوی اس کے سبب کیا چاہتی ہے یعنی علیحدہ گھر- اس بابت سمجھدار خاوند تو اپنی بیوی کو دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیتا ہے کہ ساس اور سسر کی باتیں خود سنبھالو اور مجھے نہ بتایا کرو- ظاہر ہے کہ خاوند کو ایسی باتیں بتا کر لڑکے کو اپنے والدین کے خلاف کرنا ہی مقصد ہوتا ہے جو کہ نہ ہی اخلاقی طور پر درست ہے اور نہ ہی دینی طور پر- خاوند کو اس کے والدین سے لڑوا کر بیوی دراصل اندرکھاتے خاوند پر بہت بڑا ظلم کرتی ہے کہ وہ والدین سے لڑکے کو علیحدہ کروا کر دراصل اس کے پاؤں تلے سے جنت کھسکانا چاہتی ہے-
نجیب احمد سنگھیڑہ Oct 30, 2015 07:50pm
چھٹی وجہ بلاوجہ روک ٹوک، جابجا پابندیاں، پہرہ داری اور شک شبہ کی باتیں ہوتی ہیں- آزادی صحیح معنوں میں محبت کا اظہار ہوتی ہے- اگر یہ نہ دی جائے تو پھر شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں- ہم دیکھتے ہیں کہ آسمان پر ایک پرندہ اڑ رہا ہے، وہ بہت خوبصورت نظر آتا ہے- ہم اس کی خوبصورتی سے متاثر ہو کر اسے پکڑ لیتے ہیں اور ایک سنہرے پنجرے میں بند کر دیتے ہیں- کیا یہ پرندہ وہی پرندہ ہوگا؟ ظاہری طور پر تو یہ وہی پرندہ ہوتا ہے، وہی جو آسمان پر اڑ رہا تھا لیکن گہرائی میں یہ وہی پرندہ نہیں رہتا، کیونکہ کہاں ہے اس کا آسمان، کہاں ہے اس کی آزادی؟ مان لیا کہ یہ پنجرہ لڑکے والوں کے لیے قیمتی ہو- تاہم یہ پرندے کے لیے قیمتی نہیں ہے- پرندے کے لیے تو آسمان پر آزاد ہونا ہی زندگی میں سب سے قیمتی ہے اور یہی بات نئی نویلی دلہن پر صادق آتی ہے- شادی کا مقصد ایک دوسرے کے ساتھ مل کر نشوونما پانا ہوتا ہے اور نشوونما کے لیے آزادی ضروری ہوتی ہے- اگر آزادی نہ ہو تو محبت مر جاتی ہے یا وہ محض ‘مشین‘ کا روپ دھار لیتی ہے- آزادی دینا بھروسہ کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا !
نجیب احمد سنگھیڑہ Oct 30, 2015 07:51pm
میاں بیوی کی علحیدگی کی نوبت آ جائے تو یہاں سوال ہے کہ معاملہ ٹھنڈا کرنے کے لیے کیا کیا جائے؟ صلح صفائی یا علیحدگی کا فیصلہ کون کرے؟ تصفیہ کون کرے؟ کیا ہم یہ تصفیہ ان لوگوں پر چھوڑ دیں جنہوں نے خود اچھی تعلیم و تربیت نہیں پائی جو شادی کی ذمہ داری سے ناواقف ہوں؟ یہ لوگ تو طلاق کو ایسی نظر سے دیکھیں گے جیسا کہ شادی کو دیکھا یعنی طلاق کو معمولی بات سمجھیں گے، لہٰذا شادی کا تصفیہ یا فیصلہ اس قسم کے لوگوں کے سپرد نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس قسم کے لوگوں سے لڑکی اور لڑکے دونوں کے اقارب کو مشورے لینے چاہیئں- باریک بینی سے مسئلہ کی وجوہات کا کھوج لگانا ہی دراصل تصفیہ کر سکتا ہے اور یہ کام کوئی اللے تللے لوگ نہیں کر سکتے، بلکہ یہ معاملہ کسی تعلیم یافتہ، غیرجانبدار، اندروں بیں، تجربہ کار شخص کے سامنے رکھا جائے تو علیحدگی کی نوبت ہی نہیں آ سکتی اور صلح صفائی ہو جاتی ہے- ہر فریق کو اپنی خامیوں کا پتہ لگ جاتا ہے- لیکن معاشرہ میں ‘ناک‘ کو فوقیت و اولیت دینے کی وجہ سے ان باتوں کو مدِنظر نہیں رکھا جاتا نتیجتاً دو دل ‘ناک‘ کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں- دو دل ٹوٹے، دو دل ہارے دنیا والو صدقے تمہارے ۔۔۔ :)
Naveed Chaudhry Oct 30, 2015 08:27pm
Asalam O Alikum, This seems to be a sad but brave story. Without going into details let me tell you that it is normal in western world that a mother will leave her children with somebody else while she is away ( Working or any thing else. ) Why Pakistanies do not like sepration bitween Husband a wife ( Talaq or Khula ) is our religious and social values. On Religious side it is said to be most unliked act which is permitted. Please note it is permitted. Once done we should accept both parties as normal. They had issues which were not resolved but it is past and now we should treet them normal people. Same is true for remarying. They are jusr an other person. May GOD ALLMIGHTY show and keep us on right path. Ameen.
Ahmed Zarar Oct 30, 2015 09:02pm
Normally person has his own mind after 35 either man or woman.Then he or she can make a clean and a clear judgement of gainer or looser.
shahid Oct 30, 2015 09:37pm
Allah pak ap ko asania aur khushia dy.
Siddiqui Oct 30, 2015 09:54pm
Nice article. If it happened for the right reasons, Good Luck, our society needs to mature. If you got divorced to prove a point to the world then you did for the wrong reason. He would realize or not that he lost you, but your kids certainly lost the "Dad".
رمضان رفیق Oct 30, 2015 10:18pm
کہانی کی یہ سائیڈ تو سمجھ آگئی۔۔کچھ فوائد تو بتائے ہوتے کہ اس مشکل فیصلے سے آپ کو آسانی کیا ہوئی؟ کیا باقی دیسیوں کو بھی لوگوں کی رائے نظر انداز کرتے ہوئے آپ کی نقش قدم پر چلنا چاہیے؟ لمبی دوپہروں میں اب حضور کا شغل کیا ہے وغیرہ۔۔۔۔۔ باقی جتنا آپ نے لکھا بہت خوبصورت ہے۔۔ترجمہ کرنے والے نے بھی حق ادا کیا ہے۔ اس لئے ان اڑتالیس کمنٹس کے نیچے لکھنے کی بجائے یہاں لکھ رہا ہوں۔۔۔۔
ثنا Oct 31, 2015 04:22am
میں نے بھی طلاق لے لی کیو ں کے میرا میاں خراٹے بہت لیتا تھا
Majid Ali Oct 31, 2015 05:42am
This is not like why in Pakistan peoples does not like divorced women or men it is our religion it is permit-able but not good. You can not compare the western society with our society in west it is not bad for men and women live together without marriage even they have kids without marriage. As far as kids concern something in west when kids get younger they have their girlfriend and boyfriend and it is not bad they can start their own life without marriage... nowadays divorce ratio is high the major reason is from both side none of the person want to compromise....I agree we should not dislike a person only because he/she got divorced.
Shafqat Satti Oct 31, 2015 07:58am
agar Wife aur Husband main na hal honay wali sorat e hal ho to us main divorce lainay main koi buraye nahin ha,laikan ap isko is tarah na defend karain k ye qabl e rashk mehsoos ho,ap ye bay shak batain k agar dono life partners main bahut ikhtilafat hain to divorce lainay main koi burye nahin ha,agar divorce say faida ho raha ho to,aur ap nain ye bailkul nahin zikar kia k apko kia masla tha jiski waja say ap nain ye step liya,aur koi aur b lay sakay..sirf ye kaha k tareef nahi ki gayee.,
Kamran Khan Oct 31, 2015 03:38pm
Talaq Allah k nazdeek he na pasandeda amal hy,Aj kal k Admi boht saber waly hain un k muqbaly main Oratin nhi Oratin Saber nhi kerti Saber say kaam layna cheeahy ortion ko her chez possible hy if hum chahy to mujhy is baat ke samjh nhi ati Nikha Molna Sahib Perahty hain Orat ke jab merzi poree na kero Court chali jati hain ? pata nhi humhry mashery main saber kub aya ga Hum ko saber say kaam layan cheya 1st shadi kerni nhi chahey if ho jay to merty dum tk nebhan chaheya Hallat achy bury atay hain hum que negitive sochty hain q. hum apni galti que tasleem nhi kerty dossron pay nazer rakhty hain hum ko apni galti per nazer rakhni chahey main Genral baat ker rhah ho kisi ko bhe bura nhi khta bus intna khow ga k Saber say kaam layna chaey Bus.. Wife Achi ho ya achi na ho Bus merty dum tak sateh dayna cheay if hum Saber say her kamm ko lay gay to Sb Teek ho ga Waqat k intazarr kerna chey zaror acha waqat a jay ga. Talaq kisi surat main nhi danee chay. Allah hum sub ke Seedha way dekahy Amen
Kamran Khan Oct 31, 2015 04:14pm
Talaq Allah k nazdeek he na pasandeda amal hy, Allah hum sub Saber kerny waly bany or Seedha Way Dekhay...Ameen
SARWAT ULLAH Oct 31, 2015 09:43pm
IF DIVORCE IS UN AVOIDABLE,,THEN NO NEED TO DRAG THE RELATION,,YES DIVORCE,,BUT AFTER THAT MARRY AGAIN FOR NORMAL LIFE,,AFTER ALL,DIVORCE IS SOME THING UN ACCEPTABLE FOR PEOPLE BUT MARRIAGE IS ALWAYS WELCOMED IN HEALTHY SOCIETIES.
sohail ahmed Oct 31, 2015 10:36pm
Bilkul buri baat hai talaq, ni honi chahiye , insaan ko kuch bardasht bhi seekhni chahiye , har baat ko aurtein ego banaleti hain , chahti hain k khud unki respect ho aur wo kisi ki na karen , mardon ko badnaam kardia hai , par ache mardon se theek chalti ni , mere lafz shayad bure lagen par haqeeqat hai.
محمد ارشد قریشی ( ارشی) Oct 31, 2015 11:36pm
طلاق کو کوئی بھی انسان اور معاشرہ اچھا نہیں سمجھتا ۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اگر ایک ساتھ زندگی گذارنا مشکل ہورہا ہے تو طلاق ہی واحد راستہ ہے طلاق وہ حلال عمل جس کو اللہ نے ناپسند کیا لیکن اس کی اجازت بھی دی،
Liaqat Ali Nov 01, 2015 04:32pm
بعض اوقات میاں بیوی کا تعلق بچوں کی نفسیات پر طلاق کے اثرات سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے. مگر پھر بھی ایک ایسا جھول بچوں کی زندگی میں رہ جاتا ہے جسے "فرار" کہا جا سکتا ہے. یاد رکھیں کہ بچوں کی زندگی میں آگے چل کر شادی کے علاوہ ہزاروں معاملات ہوتے ہیں، مگر یہ 'لیک آف کمپرومائز' انکی سائیکی بن جاتا ہے. جو انکی لائف کو خشک غیر لچکدار چھڑی کی طرح بنا دیتا ہے. مگر ایسے لوگوں کے لیے "میری اپنی بھی کوئی لائف ہے؟" کا ڈنکا ہے، بجاتے رہیں خوشی سے، شادی پر بھی اور پھر طلاق پر بھی. اور ہم جیسے ناقص العقل لوگ انگلیاں دانتوں تلے دباتے سوچتے رہیں کہ مکمل رضامندی سے کی ہوئی شادی اور مکمل رضامندی سے لی ہوئی طلاق میں آخر کوئی تو ناراضی کا پہلو ہوگا ہی!
Gondal Nov 01, 2015 05:09pm
Allah k nazdeek sub say na-pasandeeda amal talaq hy.. Or hum isay khuch samajty he nae.. afsoos...!!!!
Farhaj Ali Khan Nov 01, 2015 09:05pm
This girl wrote a very daring column but she is afraid of showing face. tell her , She is super girl. People who can express their point of view with courage they are superior. So miss consultant you are superior .... take the best care of yourself & guide your children they are also superior if they are daring . otherwise they have failed their Ammi ji.
shoaibkhkan Nov 01, 2015 11:35pm
ager koe larka gusse ma talaq ka alfaz kah de or usko apne alfaz yad be na ho or pher who miya bevi dono peyar be ho or larka bhulai to kya us larki ko ana chahi ha k nahi or back waqt 3 talaq ka gusse ya galte se bolne k bare ma ap ki kya rae ha plzzzzzzzzzzz sher kare
shoaibkhkan Nov 01, 2015 11:47pm
3 back waqet ager galti se bol de ya gusse ma to ap kya samjhte ho ho ge ya nahi

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024