آپ جب کمہار کے چاک کو تیز گھومتا دیکھتے ہیں اور انگلیاں گیلی اور مہکتی مٹی میں سے کوئی آبخورے کی تخلیق کرنے میں ادھر ادھر حرکت میں ہوتی ہیں، ان لمحوں میں آپ اگر دل کی آنکھوں سے دیکھیں تو اس گیلی مٹی اور بھیگی ہوئی انگلیوں میں سے اک پگڈنڈی سی اگ آتی ہے۔
اگر آپ اس پگڈنڈی پر چلنا شروع کریں تو ماضی کے ان شب و روز میں جا پہنچیں گے جہاں مٹی اور کمہار کے رشتہ کی ابتدا ہو رہی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ایشیا میں سب سے پہلے برتن ایران میں بنے۔ ایران میں جو کالے برتن 10,000سے 15,000 قبل مسیح میں بنے وہ بعد میں 'آمری' میں بنے۔ چار ہزار قبل مسیح میں ایرانی کمہاروں نے سرخ رنگ کے برتنوں پر پرندوں، جانوروں اور بیل بوٹوں کی صورتیں بنانا شروع کی، پھر یہ پرندے اور جانور رینگتے رینگتے سیستان، بلوچستان اور وادیء سندھ میں پہنچے۔
اور پھر مٹی، شعور اور انگلیوں کے رشتے نے اس فن کو ایک نئی جہت دی۔ اس فن نے ہر اس جگہ ڈیرے ڈال دیے جہاں انسان سانس لیتا تھا۔ کیا کسی نے خوب کہا ہے کہ، اس دھرتی پر جہاں جہاں کھیت ہوں گے وہاں وہاں مٹی کو مان دینے والا کمہار بھی ہوگا۔
میں جب ٹنڈو باگو کے چھوٹے سے شہر میں آچار کمہار کی آوی (بھٹی جس میں مٹی کے برتنوں کو پکایا جاتا ہے) پر پہنچا تو ہوا نہ ہونے کی وجہ سے دھواں ایک لکیر سا بناتا سیدھا اوپر جا رہا تھا۔ کچھ نوجوان مٹی کو بڑی نفاست سے گوندھ رہے تھے، کچھ بچوں کے کھلونوں کو رنگ دے رہے تھے، ایک نوجوان چاک پر برتن بنا رہا تھا۔ پھر ڈھلتی شام کی خاموشی میں مجھے کچھ کوٹنے جیسی آواز آئی۔ ماستر اسماعیل کنبھار (کمہاروں کو ان کے کام کی وجہ سے سندھ میں 'کنبھار' کی ذات سے پکارا جاتا ہے) نے میرے ان پوچھے سوال کا جواب دیا، "یہ چاٹی بن رہی ہے۔"




اور پھر میں نے چاٹی بنتے دیکھی۔ میں حیران تھا کیونکہ اگر یہ فقط محنت کا کام ہوتا تو ہر کوئی کر لیتا۔ مگر یہاں محنت کے علاوہ پرسکون بھی رہنا پڑتا ہے، اپنی انگلیوں پر بھرپور اعتماد کرنا پڑتا ہے، اور اہم بات کہ مٹی یہاں محترم ہے۔ اگر مٹی کی عزت دیکھنی ہے تو کمہاروں کے ان آنگنوں میں دیکھںی چاہیے جہاں برتن بنتے ہیں۔ اور پھر اس احترام کے ساتھ محبت کی قند بھی شامل ہوتی ہے۔
یہ جب مٹی کو گوندھتے ہیں تو ان کی نظر مٹی سے نہیں ہٹتی۔ جس چیز سے آدمی محبت کرے اس سے نظر ہٹ بھی کیسے سکتی ہے۔ پھر جب اس مٹی سے مختلف شکلوں کے برتن جیسے صراحیاں، آب خورے، چاٹی، تس (جس میں آٹا رکھا جاتا ہے)، کنے (سالن پکانے کی ہانڈی)، بچوں کے کھلونے، کوزے اور بہت ساری چیزیں چاک پر ڈھالی جاتی ہیں، تو آپ کو ان انگلیوں اور آنکھوں میں پیار، محبت اور شفقت نظر آئے گی۔
"کبھی تاڑ کے درخت سے تاڑی نکلتے دیکھی آپ نے؟" اسماعیل کنبھار نے پوچھا اور میں نے نفی میں جواب دیا۔
"ایک زمانے میں جھمپیر کی طرف تاڑ کے بڑے باغ ہوتے تھے۔ یہاں بھی ہوتے تھے تلہار کے قریب، تو ان کے اوپر والے حصے پر کٹ لگا کر کوزے لٹکا دیے جاتے۔ کوزے کیونکہ گرمی میں گرم نہیں ہوتے، اس لیے تاڑی خراب نہیں ہوتی تھی۔ پھر جب کوزے بھر جاتے تو کچھ لوگ اس ٹھنڈی تاڑی کو پیتے اور کچھ گڑ بھی بناتے اس سے۔ اور یہ کوزے ہم بناتے تھے۔" میں جھمپیر گیا ہوں، اب وہاں تاڑ کے کچھ ٹںڈ مںڈ سے بے رنگ درخت ہیں اور ساری دنیا سے لاتعلق ہو کر کھڑے ہیں۔ وہ باغات اب بھی ان خیالوں میں ہرے بھرے ہیں جنہوں نے اپنے زمانے میں ان کو دیکھا تھا۔




"کیا یہ صحیح ہے کہ آج سے چالیس پچاس برس پہلے جب شادیاں ہوتی تھیں تو کھانے پینے کے سارے برتن آپ دیتے تھے؟" میں نے سوال کیا۔
سوال پوچھ کر جب میں نے اسماعیل کی طرف دیکھا تو ایک خوشگواری کا احساس اس کے چہرے کی زمین پر دھان کی طرح لہلہا رہا تھا۔
"وہ بھی کیا دن تھے۔ شادی ہونے کا پہلا پتہ علاقے کے کمہار کو پڑتا تھا کہ کس کی شادی ہونے والی ہے۔ اس زمانے میں شادیاں اتنی مختصر نہیں ہوتی تھیں۔ دو دن دو راتیں تو خوراک کا بندوبست ہوتا اور اس کے لیے دیگوں کے سوا کھانے کے سارے برتن جیسے پلیٹیں، پانی پینی کی چھلیں (گلاس سے چھوٹا پانی پینے کا برتن)، آب خورے، چاول دھونے کی کونڈیاں، ہم بناتے اور سچ پوچھیں تو دل سے بناتے تھے۔ مٹی کے پکے ان برتنوں میں کھانا کھانا اور آبخوروں سے قدرتی طور پر ہوتا ٹھنڈا پانی، اللہ اللہ کیا دن تھے۔ نہ کوئی بیماری نہ کوئی پریشانی، بھلا مٹی سے بنا آوی سے پکا سرخ برتن بھی کوئی بیماری دے سکتا ہے کیا؟"
ماضی میں "آہت" ایک رشتہ تھا جو گاؤں والوں اور ہنرمندوں کے بیچ میں ہوتا اور بڑا مضبوط ہوتا۔ ہنرمند جیسے بڑھئی، لوہار، نائی، کمہار وغیرہ سارا برس اپنی خدمات گاؤں والوں کو فری میں مہیا کرتے۔ اور جب فصلیں تیار ہوتیں تو ان سب کو ان کا معاوضہ اناج کی صورت میں ادا کر دیا جاتا تھا۔
ان سب سے زیادہ محنت والا کام ہوتا 'کمہاروں' کا۔ کہتے ہیں کہ ایک برتن جب آپ کے ہاتھوں تک پہنچتا ہے تو پچاس سے زائد مرحلوں سے گذرتا ہے۔ اس محنت اور مٹی سے محبت کا انعام کمہار کو جو ملا وہ بھی بڑا محترم ہے۔
میں نے خالد کنبھار سے پوچھا کہ "کمہاروں کا مزاج دوسری ذاتوں سے کچھ الگ ہے یا میں غلط محسوس کرتا ہوں؟"
"آپ کا اندازہ صحیح ہے۔ اس کے اسباب ہیں، سندھ میں کمہاروں کو گھر کی بیٹی سمجھا جاتا ہے۔ ایک عزت و احترام کا رشتہ ہے جو ہم نے اس معاشرے میں اپنی محنت اور محبت سے بویا ہے۔ ہم کہاں بھی چلے جائیں تو ہم سے پردہ نہیں کیا جاتا۔ اب تو شاذ و نادر ہوتا ہوگا لیکن ایک زمانے میں ہماری عورتیں جب گاؤں میں برتن لے جاتیں تو گھر میں اگر کوئی مرد ہوگا تو اس کے سر پر ہاتھ رکھے گا اور بڑی عزت سے پیش آئے گا۔ گاؤں والوں اور کمہاروں میں یہ ایک ایسا رشتہ ہے جس کو بڑی گہرائی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ وہ لوگ جو آپ کو گھر بیٹھے پانی کے مٹکے، آٹا گوندھنے اور رکھںے کے برتن، پیالے اور بہت ساری چیزیں جو انہوں نے اپنے سارے خاندان کے ساتھ بیٹھ کر بنائیں اور آپ کے خاندان کو دیں، تو یہ محبت اور احترام کا رشتہ ہی ہوا نا۔ تو ہمارا یہی رشتہ ہے یہاں کے گاؤں اور پگڈنڈیوں سے۔"





ہوا نہیں تھی اور گرمی تھی مگر چاک پر اشرف کنبھار مسلسل گیلی مٹی کو شکلیں دے رہا تھا۔ ہم باتیں کرتے جاتے مگر اس کا دھیان گھومتی مٹی سے نہیں ہٹتا تھا۔ البتہ جب چاک کے گھومنے کی رفتار کچھ سست پڑنے لگتی تو وہ لکڑی کی ڈنڈی اٹھاتا اور زور سے چاک کو گھما دیتا اور پھر اس کی انگلیاں کچھ بنانے میں مصروف ہوجاتیں۔
اشرف آچر کنبھا' کا بیٹا ہے۔ آچر کنبھار اپنے برتن بنانے کی کاریگری کی وجہ سے پورے ملک میں مشہور تھا، یہاں تک کہ وہ لندن تک گیا۔ میں نے اشرف سے جب اس کے باپ آچر کے متعلق پوچھا، تو اس نے اپنے بھائی کو کہہ کر گھر سے فریم کی ہوئی تصویر منگوائی۔ وہ بڑے احترام سے تصویر لایا اور مجھے دکھائی۔ یہ تصویر لندن میں 'لوک ورثہ' کی طرف سے لگائے گئے پاکستانی ہنرمندوں کے میلے کی تھی۔ آچر کنبھار چاک پر برتن بنا رہا ہے اور اس وقت کی وزیرِ اعظم محترمہ بینظیر بھٹو نیچے بیٹھ کر آچر کے برتن بنانے کے فن کو بڑے غور سے دیکھ رہی ہیں۔
لوگ تو کب کے پنچھیوں کی طرح اڑ گئے، بس تصویریں اور لمحے رہ جاتے ہیں۔ میں نے تصویر دیکھ کر واپس کی، آچر کے بیٹے نے بڑے احترام سے مجھ سے تصویر لی، اسے لپیٹا اور واپس گھر لے گیا۔ میں نے محسوس کیا کہ تصویر اس سارے خاندان کے لیے ایک غرور تھا۔
"آپ کیا کیا بنا سکتے ہیں؟" میں نے اشرف سے سوال کیا
"سب بنالیتے ہیں۔ برتن، مٹکے، بچوں کے کھلونے جیسے، جھولنا، گھوڑے، اونٹ، ہاتھی، بیل گاڑی، چڑیا، مور، سب بنا لیتے ہیں۔"
"کوئی فرق پڑا ہے پہلے اور آج میں؟"
"ہاں بہت فرق پڑا ہے۔ سب تو بدل گیا ہے۔ مٹی کے برتنوں کی جگہ المونیم اور اسٹیل نے لے لی، مٹکوں کی جگہ پر پلاسٹک کے کولر آگئے۔ بچوں کے کھلونے بھی پلاسٹک میں بن گئے۔ شادیوں میں اب ہم کو پوچھتے کہاں ہیں۔ سارا سامان اسٹیل اور لوہے کا بنا ہوا ہے اور ڈیکوریشن کے دکان گلی گلی میں کھلے ہوئے ہیں۔ بس اب دور دراز گاؤں میں مٹکے وغیرہ بک جاتے ہیں۔ چھوٹے موٹے میلوں اور محرم میں بچوں کے کھلونے، مٹکے اور چاٹیاں وغیرہ بک جاتی ہیں۔ بس خاندانی کام ہے چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا، پر بہت کچھ تبدیل ہوگیا ہے۔ لوگ حقیقت کو کب پوچھتے ہیں۔ بس جو فیشن آیا، اس کے پیچھے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔" اشرف گیلی مٹی سے چھوٹے، ننھے منے آب خورے بناتا جاتا اور باتیں بھی کرتا جاتا۔




ایک طرف اس کے بھائی بچوں کے کھلونوں کو رنگوں سے رنگتے جاتے، ایک طرف مٹی گوندھتی جاتی، اور چاک کا پہیہ گھومتا جاتا۔ گیلی مٹی اور انگلیوں کی حرکت سے نہ جانے کیا کیا بنتا جاتا۔
میں یہاں کچھ گھنٹے ہی رہا، مگر میں نے مٹی کی محبت اور چاہت کی پگڈنڈیوں پر صدیوں کا سفر کیا۔ سارے فن محترم ہیں، اس لیے کہ ان سے ہمارا ہزاروں برسوں پر پھیلا محنت اور محبت کا رشتہ ہے۔ مگر ایسا مٹی کا عشق کسی اور فن میں نہیں ہے۔ ایسی شائستگی، اتنا احترام، اتنی تگ و دو، اتنی برداشت کسی اور فن میں نہیں ہے۔
آج بہت سارے لوگ بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوں گے، مگر تپتی دھوپ میں نیم کی چھاؤں میں رکھے آب خورے سے جس نے ٹھنڈا اور میٹھا پانی پیا ہوگا اس کو اس ٹھنڈک اور پانی میں رچی مٹی کی سوندھی خوشبو آج بھی محسوس ہوتی ہوگی، کیونکہ کچھ محنتیں اور محبتیں ہم کبھی بھول نہیں سکتے، اور بھولنا چاہیے بھی نہیں، کیونکہ فطرت سے ہم نے رشتہ توڑ کر نقصان ہی اٹھایا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (18) بند ہیں