مودی کے ہندوستان میں خوش آمدید
گذشتہ سال جب ہندوستان کے عام انتخابات میں گجرات کی خوشحال ریاست کے سابق وزیرِ اعلیٰ نریندرا مودی کامیاب ہوئے تو پوری دنیا کی نظریں ہندوستان پر لگی ہوئیں تھیں۔
خوشی سے لبریز لوگ یہ گردانتے نہیں تھک رہے تھے کہ ہندوستانی جمہوریت اس سے زیادہ بہتر نہیں ہو سکتی کیونکہ نئے وزیرِ اعظم لڑکپن میں ایک ریلوے اسٹیشن پر چائے بیچتے تھے، مگر پھر بھی سسٹم نے انہیں جگہ دی۔
کئی لوگوں نے پیشگوئی کی کہ ہندوستان میں اب سماجی و اقتصادی ناہمواری کے دن گنے جا چکے ہیں اور مودی ہی وہ رہنما ہیں جو ہندوستان کو اس کے مسائل سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارہ دلا دیں گے۔
پیغام واضح تھا: ہندو انتہاپسندی کی لہر آ رہی ہے اور اس کے ساتھ ہی ترقی اور عظمت بھی۔
ڈیڑھ سال بعد اب یہی لہر ایک ہلاکت خیز موڑ لے چکی ہے اور پورے ہندوستانی معاشرے کو لپیٹ میں لینے والی ہے۔
اور ظاہر ہے کہ اس لہر کا پہلا نشانہ پاک ہندوستان امن ہے۔
نئی حکومت منتخب ہونے کے وقت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے پاکستان کی جانب جو دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا، اب اسے واپس کھینچ لیا ہے اور کافی انتہاپسند رخ اختیار کر لیا ہے۔
اشتعال انگیز بیان بازی اپنی جگہ، گذشتہ چند ماہ میں پاک ہندوستان سرحد پر بڑھتے تنازع نے کئی معصوم جانیں لی ہیں اور ہندوستان کی انتہاپسندی رکنے میں نہیں آ رہی۔
پاکستان کی مخالفت فائدہ مند ہے
اس لہر کا دوسرا نشانہ کرکٹ ہے۔ ہندوستانی حکومت کے اقدامات سے شہہ پا کر شیو سینا (انتہاپسند ہندو تنظیم جس نے 2003 میں آگرا میں پچ کھود ڈالی تھی) کے کارکن پیر کے روز ہندوستانی کرکٹ بورڈ کے دفتر میں گھس گئے جہاں پاکستانی اور ہندوستانی کرکٹ حکام کی باہمی کرکٹ سیریز کا شیڈول طے کرنے کے لیے میٹنگ ہونی تھی جو کنٹرول لائن پر جھڑپوں کی وجہ سے کھٹائی میں پڑ چکی ہے۔
ہندوستان میں انتہائی دائیں بازو کے عناصر کا خوف اس قدر ہے کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے بے مثال کرکٹ امپائر علیم ڈار کو ہندوستان اور ساؤتھ افریقا کے درمیان ہونے والے میچ میں امپائرنگ کی ذمہ داری واپس لے لی گئی ہے کہ کہیں وہ پاکستان مخالف جذبات کا نشانہ نہ بن جائیں۔
اور کل شعیب اختر اور وسیم اکرم کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اس کے فوراً بعد شیو سینا نے پاکستانی اداکاروں فواد خان اور ماہرہ خان کو بھی دھمکیاں دیں جو فی الوقت فلم پراجیکٹس کے لیے ہندوستان میں موجود ہیں۔
اس کے علاوہ اطلاعات آ رہی ہیں کہ اس سال کبڈی ورلڈ کپ جو ہندوستان میں ہونا تھا، اب منسوخ ہو گیا ہے۔
گذشتہ ہفتے بی جے پی کے اپنے ممبر سدھیندرا کلکرنی کے چہرے پر کالک مل دی گئی کیونکہ انہوں نے پاکستان کے سابق وزیرِ خارجہ خورشید قصوری کی کتاب کی تقریبِ رونمائی منعقد کی تھی۔
اس سے پہلے مشہور گلوکار غلام علی کو پاکستانی قرار دے کر ان کا کنسرٹ بھی منسوخ کروایا جا چکا ہے۔
پاکستان کی مخالفت انتخابی و دیگر کئی فائدے فراہم کرتی ہے اور ہندوستان میں انتہائی دائیں بازو کی سیاست اسی پر منحصر ہے۔
بڑھتی ہوئی انتہاپسندی حیران کن نہیں
یہ تو ہوئے مشہور شخصیات کے واقعات، مگر ہندوستان کی مسلمان آبادی بھی بی جے پی حکومت کے تحت ایک بہت مشکل وقت گزار رہی ہے۔
ایک افسوسناک واقعے میں اترپردیش کے مسلمان رہائشی محمد اخلاق کو مبینہ طور پر گائے کا گوشت کھانے پر گھر سے نکال کر قتل کر دیا گیا کیونکہ ہندوؤں کے نزدیک گائے مقدس جانور ہے۔
ہندوستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان گائے کا گوشت ہمیشہ سے ہی ایک مسئلہ رہا ہے مگر گائے کے گوشت پر پابندی سے جذبات بھڑکنے لگے ہیں اور مزید پرتشدد واقعات کا خطرہ ہے۔
اخلاق کے معاملے میں یہ بعد میں ثابت ہوا کہ اس غریب شخص نے گائے نہیں بلکہ بکرے کا گوشت کھایا تھا۔ اس کے بعد مودی، جو ویسے تو اپنے بچپن کی جدوجہد کی کہانیاں سناتے ہوئے آبدیدہ ہوجاتے ہیں، دیگر ہندوستانیوں کی مشکلات کو مکمل طور پر بھول کر کئی ہفتوں بعد اس واقعے کی مذمت کرتے ہیں۔
اور بے جی پی حکومت میں صرف مسلمان برادری ہی مشکلات کا شکار نہیں۔ کچھ ہفتے قبل پٹیل برادری، جس کا مودی کا وزیرِ اعظم بنوانے میں اہم کردار ہے، کا اس وقت حکومت سے ٹاکرا ہوگیا جب حکومت نے پٹیل برادری کے مظاہرین سے کوئی رعایت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
مودی کے وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھانے سے قبل کئی لوگ ان کے انتہاپسند ماضی سے خوفزدہ تھے۔ مگر ٹوئٹر استعمال کرنے والے اور کرتا پہننے والے مودی نے اس بات کو یقینی بنایا کہ مخالف آوازوں کو ایسی سیاسی مہم کے ذریعے دبا دیا جائے جس میں دکھاوا زیادہ ہو اور حقیقت کم۔
ہندوستان میں انتہاپسندی کا حالیہ طوفان حیران کن نہیں ہونا چاہیے۔ آخر کار ایک ایسا شخص جس نے ذہانت میں محفوظ بدترین فسادات کی خود سربراہی کی ہو، وہ ملک کے بلند ترین عہدے پر فائز ہو کر فوراً رحم دل بن سکتا ہے؟ یہ امید بھی کیسے کی جا سکتی ہے؟
ماضی سے اگر ایک سبق سیکھا جا سکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ کرشماتی شخصیت رکھنے والے رہنماؤں نے اپنے اپنے ممالک میں فائدے سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے اور ہندوستان بھی اب اسی مرحلے سے گزر رہا ہے۔
جس طرح ذات پات اور مذہبی انتہاپسندی ہندوستان میں اپنا مکروہ سر اٹھا رہی ہے، اس کو دیکھتے ہوئے کئی لوگ مستقبل کے بارے میں فکرمند ہیں۔
ہاں ایسی کچھ سمجھدار آوازیں ضرور ہیں جو آنے والے خطرے سے خبردار کر رہی ہیں مگر جب باز دعوت اڑا رہے ہوں، گدھ پاس ہی بیٹھے ہوں، تو اس میں کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ فاختائیں خاموش ہو کر دور ہوگئی ہیں۔
اور یہ خاموشی انتہاپسندی میں ڈوبتے ہندوستان کی مدد نہیں کر سکتی۔ انتہاپسندی کی لہر سب کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے، اور یہ زعفرانی رنگ کے بجائے خونی رنگ کی ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں