• KHI: Fajr 5:00am Sunrise 6:18am
  • LHR: Fajr 4:21am Sunrise 5:44am
  • ISB: Fajr 4:22am Sunrise 5:48am
  • KHI: Fajr 5:00am Sunrise 6:18am
  • LHR: Fajr 4:21am Sunrise 5:44am
  • ISB: Fajr 4:22am Sunrise 5:48am
شائع October 20, 2015 اپ ڈیٹ October 23, 2015

قدیم اور جدید حیدرآباد میں نہ صرف بہت بڑا فرق ہے بلکہ بہت بڑا فاصلہ بھی دکھائی دیتا ہے۔ قدیم حیدرآباد کو دیکھتے ہی کشادہ سڑکوں، صاف ستھری گلیوں، فلاحی اداروں اور دیو قامت عمارات کی تصویر ذہن میں ابھرنے لگتی ہے۔ مگر جسے ہم جدید حیدرآباد کہتے ہیں، وہ تنگ سڑکوں اور گلیوں والا شہر ہے جس میں قائم ایک صدی پرانی کئی عمارات ہیں جو اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہیں، جنہیں دیکھ کر کچھ لمحات کے لیے حیدرآباد کے رہائشی خود کو خوش قسمت ضرور سمجھتے ہوں گے کہ ان کے شہر میں ایسی بھی عمارات موجود ہیں، جنہیں دنیا کی بہترین عمارات میں شمار کیا جاسکتا ہے۔

یہ وہی حیدرآباد ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں اس شہر میں آباد ہندو اس کے گلی کوچوں کو گلاب کے پانی سے دھویا کرتے تھے۔ ہیرآباد سے لے کر ٹاور مارکیٹ تک شہر خوشبو سے معطر ہوا کرتا تھا۔ اب اس شہر میں یہ سب باتیں ایک خواب لگتی ہیں۔ برصغیر کی تقسیم سے قبل یہ ایک چھوٹا مگر حسین شہر تھا۔ گنی چنی عمارتیں، سڑکوں پر دوڑتے ہوئے تانگے اور ان کو کھینچتے ہوئے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں ان کانوں کو ضرور سنائی دیتی ہوں گی جن کی آنکھوں نے اس شہر کا عروج بھی دیکھا ہے۔

حیدرآباد میں ٹھنڈی سڑک سے ہو کر گاڑی کھاتہ جانے والی سڑک کے برابر میں ایک عمارت پچھلے 118 برس سے سندھ میں بسنے والے لوگوں کے علم کی پیاس بجھا رہی ہے۔ یہ عمارت اس وقت ڈاکٹر این اے بلوچ ماڈل اسکول کے نام سے جانی جاتی ہے مگر اس کا حقیقی نام "نَو ودیالہ" (نئی درسگاہ) ہے۔‎

اسکول کے سیکنڈری سیکشن کا حصہ.
اسکول کے سیکنڈری سیکشن کا حصہ.

سرخ اینٹوں سے بنی ہوئی اس عمارت اور تعلیمی ادارے کے بانی رائے بہادر پربھداس آڈوانی تھے۔ ان کا جنم 1866 میں حیدرآباد میں ہوا۔ ان کا تعلق آڈوانی خاندان سے تھا جو حیدرآباد کے ہندو عاملوں سے تعلق رکھتا ہے۔ دیوان پربھداس ایک سیکیولر سوچ رکھنے والے روشن خیال اور انسان دوست شخصیت کے مالک تھے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے انجینیئر تھے مگر ان کو اس بات کی فکر تھی کہ حیدرآباد میں ایک ایسا تعلیمی ادارہ ہونا چاہیے جس میں سندھ کے بچے تعلیم حاصل کر سکیں۔

انہوں نے اپنی نوکری سے استعفیٰ دے کر تعلیم کے شعبے کو ترجیح دی۔ انہوں نے 1897 میں حیدرآباد شہر کے مرکز میں اس ادارے کی بنیاد رکھی۔ اس دو منزلہ عمارت میں قائم کردہ ادارے کا نام نَو ودیالہ ہائی اسکول فار بوائز اینڈ گرلز رکھا گیا جو اس وقت سے لے کر آج تک قائم ہے۔

حیدرآباد میں کئی ایسے فلاحی ادارے ہیں جو اس وقت یہاں آباد ہندوؤں نے قائم کیے تھے۔ انہیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ ہندوستان کی تقسیم بھی عمل میں آسکتی ہے، اس لیے انہوں نے ادارے بنائے، فلاحی کام کیے اور شہروں کو بہتر کرنے کے لیے اپنی توانائیاں خرچ کیں۔

اسکول کے بانی پربھداس آڈوانی کی تصویر.
اسکول کے بانی پربھداس آڈوانی کی تصویر.
راہداریاں وسیع اور ہوادار ہیں.
راہداریاں وسیع اور ہوادار ہیں.
اسکول بس جس نے طلبا کی کئی نسلوں کی خدمت کی ہے.
اسکول بس جس نے طلبا کی کئی نسلوں کی خدمت کی ہے.
عمارت کسی قلعے کی مانند دکھائی دیتی ہے.
عمارت کسی قلعے کی مانند دکھائی دیتی ہے.

پربھداس آڈوانی مذہبی امتیاز سے بالاتر تھے۔ انہوں نے اس عمارت کا نقشہ ہی اس طرح بنایا ہے کہ اسے دیکھ کر یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ وہ مذہبی رواداری پر یقین رکھتے تھے، جس میں مسجد کے محراب، چرچ اور ہندو مذہب کی کچھ نشانیاں نمایاں رکھی گئی ہیں۔ عمارت کی چھت کو دیکھا جائے تو شطرنج کی بساط معلوم ہوتی ہے، جبکہ اس کے دروازے اور کھڑکیاں محراب کی صورت میں بنائے گئے ہیں۔ اسکول کی دیواروں میں پیوست جالیوں میں این وی کا نشان نمایاں کیا گیا ہے جس کا مفہوم نَو ودیالہ ہے۔

چھت کے اوپر بنے ہوئے پرنالوں کو شیر کی شکل پر بنایا گیا ہے جس کے منہ کو کھلا چھوڑا گیا ہے تاکہ بارشوں کے موسم میں چھت پر جمع ہونے والا پانی ان کے ذریعے بہہ کر میدان میں گرے۔ اس عمارت کو بناتے وقت موسمی اور جغرافیائی حالات کو بھی ذہن میں رکھا گیا تھا۔ عمارت کی چھت کافی اونچی رکھی گئی ہے تاکہ گرمیوں میں گرم نہ رہے اور سردیوں میں زیادہ ٹھنڈی نہ ہو۔ نَو ودیالہ کے برآمدے کو کافی کشادہ رکھا گیا ہے، تاکہ ہوا کا گزر آسانی سے ہو سکے۔ اس عمارت کے اوپر کلاک بھی نصب کیا گیا ہے جو ایک صدی گزرنے کے بعد بھی صحیح سلامت ہے اور ہر گھنٹے بعد اس کی گھنٹی بجتی ہے۔

کلاک ٹاور اب بھی راہگیروں کو وقت کی اہمیت کا احساس دلاتا ہے.
کلاک ٹاور اب بھی راہگیروں کو وقت کی اہمیت کا احساس دلاتا ہے.
جالیوں میں این وی نمایاں نظر آتا ہے.
جالیوں میں این وی نمایاں نظر آتا ہے.
چرچ کی طرز پر رنگین شیشے سے کھڑکیاں بنائی گئی ہیں.
چرچ کی طرز پر رنگین شیشے سے کھڑکیاں بنائی گئی ہیں.
راہداریاں محرابی طرز پر ہیں.
راہداریاں محرابی طرز پر ہیں.
شیر کی شکل کا پرنالہ.
شیر کی شکل کا پرنالہ.

عمارت کی پشت پر ایک بہت بڑا میدان ہے۔ کسی زمانے میں یہ میدان پارک ہوا کرتا تھا اور کافی وسیع تھا، مگر اس پر قبضہ ہو جانے کے بعد اب وہ سکڑ گیا ہے۔ محرابوں میں رنگین شیشے لگائے گئے ہیں، اور ایک چھوٹا سا پارک بھی عمارت کے احاطے میں قائم کیا گیا ہے۔ کشادہ کلاس رومز، بڑا سا ہال، لائبریری اور وسیع برآمدوں سے اس عمارت کی خوبصورتی عیاں ہوتی ہے۔

1947 میں جب سندھ یونیورسٹی کو قائم کیا گیا تو وہ پہلے کراچی میں تھی مگر 1951 میں جب حیدرآباد کو سندھ کا دارالحکومت قرار دیا گیا، تو یونیورسٹی کو بھی حیدرآباد منتقل کر دیا گیا اور نَو ودیالیہ کو یونیورسٹی آف سندھ کا کیمپس ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہاں قائم ہونے والا پہلا شعبہ فیکلٹی آف ایجوکیشن تھا جو اب بھی عمارت کے پچھلے احاطے میں قائم ہے۔ حیدرآباد شہر کے پھیلنے اور سندھ یونیورسٹی کے طلبہ کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ایک نئے کیمپس کی ضرورت محسوس کی گئی، تو 1955 میں یونیورسٹی کو جامشورو میں دریائے سندھ کے کنارے منتقل کر دیا گیا، اور نئے کیمپس کو علامہ آئی آئی قاضی کیمپس، جبکہ پرانے کیمپس کو ان کی اہلیہ ایلسا قاضی کے نام سے منسوب کر دیا گیا۔ اسی لیے اس عمارت کو اب اولڈ کیمپس یا یونیورسٹی آف سندھ ایلسا قاضی کیمپس کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

اب اس اسکول کا نقشہ وسیع پارک نہ ہونے کی وجہ سے کچھ اور ہو گیا ہے۔ اس وقت ماڈل اسکول کے پرنسپل احسان اللہ راشدی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک قدیم عمارت ہے اور اس کو بحال رکھنا ہمارا فرض ہے۔ مگر وہ اس بات پر بھی افسوس کرتے ہیں کہ اس ادارے کا نام اب نَو ودیالہ نہیں ہے، بلکہ اسے تبدیل کر کے مشہور محقق اور اسکالر ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ کے نام پر رکھ دیا گیا ہے۔

عمارت کے احاطے میں پربھداس آڈوانی کی سمادھی.
عمارت کے احاطے میں پربھداس آڈوانی کی سمادھی.
عمارت کے پچھلے حصے کو اسمبلی گراؤنڈ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے.
عمارت کے پچھلے حصے کو اسمبلی گراؤنڈ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے.
عمارت کے پچھلے حصے کو اسمبلی گراؤنڈ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے.
عمارت کے پچھلے حصے کو اسمبلی گراؤنڈ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے.
ہال میں علامہ آئی آئی قاضی کی تصویر آویزاں ہے.
ہال میں علامہ آئی آئی قاضی کی تصویر آویزاں ہے.
اسکول میں قائم علامہ آئی آئی قاضی چیئر.
اسکول میں قائم علامہ آئی آئی قاضی چیئر.

اس عمارت پر دور سے نگاہ ڈالی جائے تو کسی قلعے کی مانند دکھائی دیتی ہے۔ پربھداس آڈوانی نے اپنی ملازمت سے استعفیٰ دینے کے بعد نَو ودیالہ میں بحیثیت استاد خدمات سرانجام دیں، وہ یہاں پر اخلاقیات کا مضمون پڑھاتے تھے۔ انہوں نے نہ صرف اس ادارے کی بنیاد رکھی بلکہ سندھ میں نرسنگ کے شعبے اور کنڈر گارٹن (کے جی) کا تصور بھی انہوں نے ہی متعارف کروایا۔

کئی ایسے کردار ہیں جنہیں وقت کے بہتے دریا نے بہا دیا ہے۔ مگر آج بھی حیدرآباد میں کئی ایسی عمارات ہیں جنہوں نے وقت سے ہار نہیں مانی۔ پتھروں سے بنی ہوئی عمارات نہ تو بولتی ہیں اور نہ ہی دیکھ سکتی ہیں مگر ان کے ساتھ بتایا ہوا وقت ہمیں ان سے ایک رشتہ جوڑنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

پربھداس 73 برس کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے اور ان کی سمادھی نوَ ودیالہ کے احاطے میں ہی تعمیر کی گئی ہے جس پر کئی برسوں بعد پچھلے سال پھولوں کی چادر چڑھا کر تقریب رکھی گئی۔ مگر کیا یہ عمل بہتر نہیں ہے کہ اس عمارت کا نام ڈاکٹر این اے بلوچ ماڈل اسکول کے بجائے نَو ودیالہ بحال کیا جائے۔ اس تاریخی ادارے کی بنیاد رکھنے والے پربھداس آڈوانی کا اتنا تو حق بنتا ہے کہ ان کا قائم کردہ ادارہ اگر ان کے نام پر نہیں تو کم از کم اسی نام پر ہو جو انہوں نے خود رکھا تھا۔

— تصاویر بشکریہ لکھاری.


اختر حفیظ سندھی زبان کے افسانہ نگار اور صحافی ہیں، اور ایک سندھی روزنامے میں کام کر ریے ہیں. ان سے ان کے ای میل ایڈریس akhterhafez@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

اختر حفیظ

اختر حفیظ سندھی زبان کے افسانہ نگار اور صحافی ہیں، اور ایک سندھی روزنامے میں کام کر رہے ہیں۔

ان سے ان کے ای میل ایڈریس akhterhafez@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (20) بند ہیں

Muhammad Abid Bhatti Oct 20, 2015 05:31pm
اختر حفیظ صاحب کا ایک اور اچھا مضمون، شکریہ اختر صاحب اور آپ جیسے دوسرے لھکاریوں کا جو کہ ہمیں ہماری تاریخ سے آشنا کر تے رہتے ہیں۔ معلوم نہیں کیوں ہم اپنی نئی نسلوں کو تاریخ کے اچھے ادوار کے بارے میں کوئی معلومات دینے سے قاصر ہیں۔حیدرآباد ایک ایسا شہر جس کی گرمیوں میں راتیں جنت کی راتیں ہوتی تھیں۔ انتظامیہ کی خاموشی اور اچھی پلاننگ نہ کرنے کی وجہ سے آج حیدرآباد پر ایک محاورہ صادق آتا ہے کہ اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی۔
Abubaker Shaikh Oct 20, 2015 06:11pm
Achi Tasweroon K Sath Eik Achi Taharir..Zabardast..
shamshad samo Oct 20, 2015 06:17pm
nice article, Sindhi-Hindhu philanthropists have the greatest contribution for the betterment of Human. they have made many schools, hospitals and charity institution those still nurturing the students. but one thing is that we have change the name of those institutions which were built by Hindhu-Sindhi Philanthropists.
sharamsar Oct 20, 2015 06:20pm
کرپشن کا الزام: پی ایس او کے سینئر مینیجر گرفتار when so junior officers are able to do a corruption in 7 digits, how can we save money to save national mouments. cheers
Malik USA Oct 20, 2015 08:05pm
Excellent. Due to you and like Baloch sb we could see and imagine that how much great past we had. We wish we could maintain. These people were free all communal feelings, this man could make a big temple but he gave us the teaching institution like Sir Syed Ahmad Khan, Aligarh Muslim University. It is our bad luck we could not even maintain its building and height is that we sold the its property
الیاس انصاری Oct 20, 2015 09:03pm
بہترین
علاوالدین Oct 20, 2015 09:27pm
اختر حفیظ صاحب آپ کا شکریہ ۔ یقیناََ ایک دلچسپ موضوع پڑھنے کو ملا۔ دسمبر 2013 میں سندھ یونیورسٹی میں کانفرس میں شرکت کی عرض سے گیا تھا تو باہر سے اولڈ کیمپس پر ایک نظر پڑی تھی، لیکن اندر نہ جانے کا افسوس آپ کے مضمون پڑھنے کے بعد ہو رہا ہے۔ سندھ یونیورسٹی میں قاضی کے نام کےکچھ تصاویر دیکھے ساتھ ہی ڈاکٹر تسنیم گل قاضی صاحبہ کا لیکچر بھی سنا۔ ٰآئی آئی قاضٰی اور قاضی فیملی یا قاضی قبیلے کے بارے میں اگر کچھ معلومات اس مضموں میں شامل ہوتے تو اس کے بارے میں بھی کچھ معلومات حاصل ہو جاتے۔
Saqib Shahan Oct 20, 2015 11:09pm
My school. Bachpan kee kitni yaden aah.
NB Oct 21, 2015 10:00am
Excellent photographs and good research...
Sahil Samejo Oct 21, 2015 11:28am
مادرِ علميءَ کي تاريخ جي صفحن ۾ محفوظ ڪرڻ تي اختر حفيظ جس لهڻي. يقين ٿي ويو ته سنڌ جا تاريخدان سجاڳ آهن........... ڏاڍي خوشي ٿي اهو فيچر پڙهي ۽ ڏسي. سلام پيش ڪريان ٿو اختر حفيظ ۽ ڊان نيوز کي. I Appreciate Akhtar Hafiz for saving the educational stuff of Sindh in the pages of history........ certainly the historian of Sindh are awaken. very much pleasure to seeing & reading this feature......... Salute to Aktar Hafiz and Dawnnews.tv
Sharminda Oct 21, 2015 12:05pm
Bohat khoob.
Mukesh Kumar Oct 23, 2015 02:22pm
Sir I really appreciate you to this article, and also thanks to NV for his contribute, Sir another thing, During evening time, University Of Sindh has started a program, IBA Elsa Kazi University of Sindh!
Syed Qamar Ali Shah Oct 23, 2015 06:38pm
انداز بيان اهڙو جو مضمون ۽ تصويرن ۾ پڙهڻ وارو پورو گم ٿيو وڃي. بهترين ڪاوش تي توهان کي لک واڌايون.
A Sindhi Oct 23, 2015 06:59pm
Excellent AKhtar Dear, keep it up.
Mohsin Joyo Oct 24, 2015 12:02am
سائين گهر اڱڻ سوا ,اسڪول ميدان سوا اڻ پورا آهن .هي تصوير نو وداليا ماڊل اسڪول جي ميدان جي آهي جنهن جي هڪ ڪنڊ ۾ اسڪول جي باني راءِ بهادر پرڀاداس آڏواڻي جي سماڌي واقع آهي .انهي ميدان تي رانديون کيڏندي ڊوڙون پائيندي اسيمبلي ۾ پريڊ ڪندي ڪلاسن ڏانهن ويندا هئاسين .اوچتو رات وچ ۾ خبر پئي ت هڪ پوپ محقق جي آرشيواد سان جنهن جو هتي گهر آهي مسجد اڏي وئي ڳاله وڃي سڄي ميدان تي قبضي ۽ سماڌي کي ڊاهڻ تائين پهتي پوءِ اها ڀت کنئي وئي ..ان محقق پاڻ ب حياتي ۾ 100کان 500گز گهر وڌائي قبضو ڪيو ۽ پنهجن ٻين برادري جي ماڻهن کي آڻي سنڌ يونيورسٽي جي سينڊيڪيٽ مان مالڪاڻا قبضا منظور ڪرايا۽ پلاٽ الگ ورتا..پورهيو هڪڙن جو مارڪا ٻيا...
محمد صدیق تنظیمی Oct 25, 2015 04:06pm
بلاشبہ ایک خوبصورت تحریر ہے جو ماضی کے دریچوں سے تعلیم اور تاریخ ہر دو پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہے۔ تعلیم و تدریس کی جس شخص نے بھی خدمت کی ہے وہ قوم کا محسن ہے اور زندہ قومیں اپنے محسنوں کا احترام کرتے ہوئے اداروں کے ان کے ناموں سے موسوم کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتیں ۔ ایک ایسے سندھ میں جہاں بے نظیر بھٹو صاحبہ سے درجنوں ادارے منسوب کر دیئے گئے خواہ انہیں مرحومہ سے کوئی مناسبت تھی یا نہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ادارے کو فوری طور پر اس تاریخی ادارے کی بنیاد رکھنے والےآنجہانی پربھداس آڈوانی سے موسوم کیا جائے ودیالہ بحال کیا جائے
آصف ملک Oct 27, 2015 03:32pm
نہ صرف اس سکول کا بلکہ پاکستان بھر میں جتنے بھی اسطرح کے ادارے ہیں چاہے وہ ہسپتال ہوں یا کسی بھی قسم کا رفاہی ادارہ اس کا نام جو پاکستان بننے سے پہلے تھا اسی نام پر ہونا چاہئے ۔ کیونکہ جن لوگوں نے ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دئے ہوئے ہیں انکو خراج تحسین پیش کیا جاتا رہے۔
Zaheer Abbas Khokhar Oct 27, 2015 06:56pm
Can't control my emotions to see my school again although I am not in Pakistan anymore. Great article with detailed data and history. Appreciable efforts. It is only this outstanding building structure which can still sustain the ignorance and bias of Sindhi Corrupt and selfish politicians. Curse on Sindhi politicians who are ignorant and illiterate, they are way far from understanding the significance and importance of education, heritage, culture and civilization. They only excel at making illicit money. Please Akhtar Hafeez, keep such efforts alive. We r with you even if we forget to comment.
Rashid Oct 28, 2015 09:20pm
لاجواب لکائي هه
sadam hussain Oct 28, 2015 09:33pm
salam sir great work .sain awhan mhnjii yad tazzi kre chadiii man hin school man talim piraie aa xbrdust sain