دو آتشہ اور طلسماتی حسن: مریم ساہرا ازیرلی
ایک حسن وہ ہوتا ہے جس کو دیکھ کر آنکھوں کو یقین نہ آئے، ہم اسے دیکھ رہے ہیں، جس کی موجودگی بھی عدم محسوس ہو، جس کو چھو کر بھی یہ احساس جنم لے کہ شاید یہ کوئی خوبصورت دھوکہ ہے، مگر ان تمام تر شبہات کے باوجود وہ ایک اٹل حقیقت کی طرح ہمارے سامنے موجود رہے تو اس حسن کو طلسم کہا جا سکتا ہے۔ اس کی نگاہ میں تلوار اور خاموشی میں طوفان بپا ہوتے ہیں جن کے سامنے کوئی ٹھہر نہیں سکتا، اس کو روکنے والے اس کے ساتھ ہی بہہ جاتے ہیں، ایسا ہی دوآتشہ اور کرشمہ ساز حسن سرزمین ترکی میں پیدا ہوا اور لطیف ہنر کے ذریعے دلوں میں گھر کرتا چلا گیا۔ اس کا نام مریم ساہرا اُزیرلی ہے۔
مریم ترکی کی مقبول ترین اداکارہ ہے۔ اس کا حسن آنکھوں کو خیرہ کر دینے والا ہے۔ شاید جمالیاتی حسن کی تکمیل ایسے ہی حسن سے ممکن ہوا کرتی ہے۔ مریم صرف ترک ہی نہیں بلکہ اس کی رگوں میں جرمن ماں کا خون بھی دوڑ رہا ہے۔ اس طرح یہ جرمنی کے ساتھ ساتھ ترکی سے بھی بے پناہ اُنسیت رکھتی ہے۔ اپنے کریئر کا آغاز جرمنی سے کیا، لیکن شہرت ترکی میں حاصل ہوئی۔ اس کے پاس دونوں ملکوں کی شہریت بھی ہے۔ والد سے ورثے میں ترکی کی ثقافت ملی، جبکہ والدہ نے جرمنی کے فنونِ لطیفہ اس کے سپرد کیے۔
یہ ترکی اور جرمنی کی ثقافت کا حسین امتزاج ہے، جس کے دو آتشہ حسن نے اس کی شخصیت کے دو رُخے پن کی کشش کو مزید بڑھا دیا۔
مریم کی پیدائش کا سن 1983 ہے۔ کم عمری میں بھی اتنی جلدی کامیابیاں سمیٹ لینے میں بہت حد تک اس کے جمالیاتی حسن کا کرشمہ ہے۔ یہ چار بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی ہے۔ ترکی اور جرمنی میں شہرت سمیٹنے کے بعد پاکستان میں جب ترکی ڈرامے نشر ہونا شروع ہوئے تو اس کے حسن نے یہاں کے ناظرین کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیا۔ یہ پاکستانی ناظرین کے لیے بھی اب جانا پہچانا چہرہ ہے۔ اس کا سب سے مقبول کھیل ”حریم سلطان“ تھا۔ ترکی میں اس کھیل نے مقبولیت کے نئے ریکارڈز قائم کیے۔ پاکستان میں اسے ”میرا سلطان“ کے نام سے ایک نجی چینل سے نشر کیا گیا۔
یہ ڈراما ترکی ٹیلی ویژن کی ایک ڈراما سیریز Muhtesem Yuzyil کا ایک حصہ ہے، جس میں اس کا کردار سلطان کے حرم میں ایک ملکہ کا ہوتا ہے۔ سلطنتِ عثمانیہ کے تناظر میں بنایا جانے والا یہ ڈراما اپنے تاریخی کرداروں کی وجہ سے ناظرین کو اپنے سحر میں گرفتار کرنے میں کامیاب رہا۔ اس کامیابی میں بہت بڑا حصہ مریم کی شاندار اداکاری اور قاتل حسن ہے، جس کی دھار سے اب پاکستانی ڈرامے کے ناظرین بھی متاثر دکھائی دیے۔
مریم کو حریم سلطان سے اداکاری کی دنیا میں تسلیم کر لیا گیا۔ اس نے پوری دنیا میں اپنی صلاحیتوں کو منوایا اور اپنی جداگانہ شناخت بنائی۔ اس نے اپنے ٹیلی ویژن کریئر کا آغاز 2008 میں کیا اور 2011 تک 3 منتخب ڈراموں میں کام کیا۔ اس کے پہلے ڈرامے کا نام Inga Lindstrom تھا۔ دوسرا ڈراما A Case for Two جبکہ تیسرا ڈراما حریم سلطان تھا۔ تیسرے ڈرامے نے اس کو ڈرامائی انداز میں شاندار شہرت اور کامیابی سے نوازا۔
مریم کو فلمی کریئر کا آغاز کرنے میں بھی کوئی مشکل پیش نہیں آئی کیونکہ یہ ٹی وی پر اپنی اداکاری کے جوہر دکھا رہی تھی۔ اس نے اپنے مختصر فلمی کریئر میں 4 فلموں میں کام کیا، جن میں Das Total ،Sterne Uber Dem Eis ،Journey of No Return اور ایک مختصر فلم شامل تھی۔ ان فلموں میں اس نے اپنی عمر کے لحاظ سے طالب علم، فضائی میزبان اور اسی طرح کے کردار ادا کیے۔ پہلی مرتبہ منجھا ہوا کردار اسے حریم سلطان ہی میں ملا۔
مریم نے جرمنی میں ہی ہوش سنبھالا۔ جب اس کو محسوس ہوا کہ اس میں اداکاری کی صلاحیتیں ہیں، تو اس نے فیصلہ کیا کہ اس کو اپنے آپ کو دریافت کرنا چاہیے، یہی سوچ کر مریم نے 2000 سے لے کر 2003 تک جرمنی میں اداکاری کی باقاعدہ تربیت لی اس کے بعد عملی طورپر اس شعبے میں قدم رکھا۔
اس نے اداکاری کی تربیت حاصل کرنے کے بعد کئی ایک مقامی پروڈکشن کمپنیوں کے ساتھ کام بھی کیا، پھر ترکی میں ڈرامے کی صنعت پر نمودار ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے صفِ اول کی اداکاراؤں میں شمار ہونے لگی۔ مریم کو جرمن زبان بہت اچھی آتی ہے لیکن ترک زبان بہت روانی سے نہیں بول سکتی لیکن یہ اپنے پیشے سے مخلص ہے، یہی وجہ ہے کہ اس نے ترک ڈرامے حریم سلطان کے لیے ترک زبان سیکھی اور اپنے لب و لہجے پر کام کیا اور تلفظ کو بھی درست کیا۔
مریم کو اداکاری کے علاوہ گھڑ سواری اور تیراکی کا شوق ہے اور باسکٹ بال کا کھیل بھی پسند کرتی ہے۔ یہ وہ سارے کھیل ہیں جو آپ کی خوب صورتی اور فٹنس میں اضافہ کرتے ہیں، شاید یہی راز ہے کہ یہ اتنی دلکش ہے۔ استبول کی مشہور سڑکوں پر اسے پیدل چلنا اچھا لگتا ہے۔
اس کا پسندیدہ کھانا شپ گیتی اور کباب ہیں۔ نیلا اور سرخ رنگ پسند کرنے والی اس اداکارہ کے مقبول ترین کردار کے لباس کا رنگ بھی سرخ ہی ہے۔ اسی لیے اس پیراہن میں یہ اور طلسم ہوشربا لگتی ہے۔ اس کی شخصیت میں گزرتے وقت کے ساتھ بہت بدلاؤ بھی آیا ہے، کبھی یہ کسی کالج کی لڑکی تو کبھی یہ کسی دربار کی ملکہ محسوس ہوتی ہے۔ اس کی شخصیت کا یہ دوہرا طلسم اس کے کریئر میں بھی اس کا معاون رہا۔
مریم کے سب سے مقبول ڈرامے ”حریم سلطان“ کی مصنفہ میرال اوکئے نے لکھا تھا۔ ان کا 2012 میں انتقال ہوا۔ انہوں نے اس کھیل میں تاریخی ماخذات کو استعمال کرتے ہوئے بہترین کہانی لکھی اور تاریخی حقائق کو فکشن کے انداز میں پیش کیا۔ سولہویں صدی کی سلطنت عثمانیہ اور حریم سلطان کی حکمرانی۔ اس ڈراما سیریز کو ”شاندار صدی“ بھی کہا جاتا ہے۔ حرم اور عدالت کے مابین سازشوں کے سلسلے کو ڈرامائی شکل دی گئی ہے۔ اس ڈرامے میں مریم نے روکسیلانا کا کردار نبھایا ہے، جو سلطنت کی نمایاں عورتوں میں سے ایک اور سلطان کی بااثر بیوی تھی۔ اس نے اپنے شوہر کے بل بوتے پر اپنی طاقت میں اضافہ کیا اور سلطنت عثمانیہ کی سیاست پر اثر انداز ہوئی۔
اس ڈرامے کے تین سیزن ہیں۔ پاکستان میں صرف پہلا سیزن نشرہوا۔ یہ ڈراما پاکستان کے علاوہ افغانستان، البانیہ، آذر بائیجان، بوسنیا، بلغاریہ، مصر، یونان، ہنگری، ایران، لبنان، مشرقِ وسطیٰ، مراکش، رومانیہ، روس، تیونس اور دبئی میں بھی نشر ہو کر مقبولیت حاصل کر چکا ہے، اسی لیے مریم کو اب ایک بین الاقوامی اداکارہ کی حیثیت سے جانا جاتا ہے اور اس کے کریئر کی کامیابیوں میں یہ شہرت بہت کام آئے گی۔
ترکی میں اس ڈرامے کے حوالے سے کچھ تنازعے بھی سامنے آئے، جن میں سب سے متنازع پہلو یہ تھا کہ اس ڈرامے میں کچھ تاریخ حقائق مسخ کیے گئے ہیں اور یہ کھیل نوجوانوں پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔ پاکستان میں بھی اس ڈرامے کے کچھ پہلوؤں پر تنقید ہوئی، مگر تمام تر اعتراضات کے باوجود اس ڈرامے نے مقبولیت حاصل کی،جس میں مریم کا کلیدی کردار ہے۔
مریم کی اداکاری کا سفر جاری ہے۔ اتنی کم عمری میں ڈھیر ساری کامیابیاں سمیٹنے والی اداکارہ ابھی زندگی میں بہت کچھ حاصل کرنے کی تمنا رکھتی ہے اور اسی لیے یہ سخت محنت کررہی ہے تاکہ دنیائے اداکاری میں اپنی شہرت اور کامیابی کے تناسب کو برقرار رکھ سکے۔ خوب صورت اور دلکش اداکارہ اپنے کام سے ناظرین کے دل میں ایک طویل عرصے تک راج کرنے کی خواہش رکھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ ابھی تک اپنے کام سے اتنی ہی مخلص ہے۔ اس کا حسن چڑھتے ہوئے سورج کی مانند ہے، جب طلوع ہوتا ہے، تو اپنی روشنی سے دیکھنے والوں کو خیرہ کردیتا ہے، اس کے آس پاس کی ہر شے دمکنے لگتی ہے۔ اسی موسم کا نام مریم ہے۔
بلاگر فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (17) بند ہیں