پھلتا نہیں، پھولتا پاکستان
گھر کے قریب کسی بھی زچگی ہسپتال یا کلینک کا دورہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ وہاں ماہانہ معائنے یا زچگی کے لیے آئی ہوئی حاملہ خواتین کا رش ہوتا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں کے علاوہ نجی زچگی ہسپتال بھی 24 گھنٹے آباد رہتے ہیں اور ایمرجنسی میں رات گئے زچگیاں انجام دینے کے لیے ڈاکٹرز موجود ہوتے ہیں۔
ان تمام زچگی سہولیات کے علاوہ دیہی علاقوں میں ضلعی صحت مراکز اور بنیادی صحت مراکز کی عدم دستیابی یا تسلی بخش انتظامات نہ ہونے کے باوجود مقامی دائیوں کی مدد سے آبادی میں اضافے کا سلسلہ ہمیشہ سے جاری ہے۔
اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں ہسپتالوں، کلینکس اور دائیوں کی خدمات لیے بغیر بھی بچے پیدا ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر سابق صدر آصف علی زرداری کے کوئٹہ دورہ کے موقع پر بوجہء سیکیورٹی انتظامات ایک حاملہ خاتون کی زچگی ٹریفک میں پھنسے رکشے میں ہوئی۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم نواز شریف کے لاہور دورہ کے موقع پر بھی ایک خاتون کی زچگی کنال روڈ پر ٹریفک میں پھنسے رکشے میں ہوئی۔
بچے چاہے جہاں بھی پیدا ہوں، ویسے تو والدین کے لیے خوشی کا باعث بنتے ہیں۔ مگر کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ ان پیدا ہونے والے بچوں کے لیے موجودہ وسائل ضروریات کے مطابق ہوں گے اور جب وہ بڑے ہوں گے تو کیا وسائل میں اضافہ بھی ہونے والے آبادی کے تناسب سے ہوگا؟
آبادی میں ہونے والا اضافہ کسی بھی طرح موجودہ وسائل کے مطابق نہیں ہے اور اگر آبادی میں اضافہ اسی تناسب سے جاری رہا تو یقیناً وہ وقت دور نہیں جب لوگوں کے پاس پیسے تو ہوں گے مگر خریدنے کے لیے سامان نہیں ہوگا۔ کیا پیدا ہونے والے بچوں کے لیے درکار خوراک، تعلیم اور صحت کے مطلوبہ وسائل دستیاب ہیں؟ کیا پاکستان کے رہائشی علاقوں میں اتنی گنجائش ہے کہ تیزی سے بڑھتی آبادی کو برداشت کرسکیں؟
زیادہ بچے پیدا کرنے کا رجحان ویسے تو شہروں میں قدرے کم پایا جاتا ہے مگر دیہاتوں میں اب بھی کُنبے میں اضافہ سالانہ بنیادوں پر کرنا لازمی سمجھا جاتا ہے اور وسائل کی عدم دستیابی بھی کنبے میں اضافے کی شرح پر اثرانداز نہیں ہوتی۔ شہر کے لوگوں کے مطابق کم بچے پیدا کرنے کی وجہ موجودہ مہنگائی ہے اور والدین بچوں کی بہتر نشو و نما اور تعلیم و تربیت کے لیے دو یا زیادہ سے زیادہ تین بچوں پر اکتفاء کرتے ہیں۔
مگر دیہاتیوں کی سوچ شہریوں کی سوچ سے بالکل مختلف ہوتی ہے اور دیہاتی سمجھتے ہیں کہ جتنے زیادہ ہاتھ ہوں گے، اتنی ہی زیادہ کمائی ہوگی۔ کیونکہ وہ اپنی عقل و سمجھ کے مطابق، مستقبل میں کھیتوں میں کٹائی اور بوائی کرنے والے زیادہ ہاتھوں کے بارے میں سوچتے ہیں۔
آج کے حالات میں تو جو لوگ بہتر کماتے ہیں۔ وہ بڑھتی مہنگائی یا افراطِ زر میں اضافے کے باوجود گزر بسر کر لیتے ہیں۔ مگر مسئلہ وسائل کا تیزی سے کم ہونا ہے اور اس کی وجہ آبادی میں اضافہ اور نئے وسائل کی پیداوار یا تلاش نا ہونا ہے۔ حکومت 19 کروڑ عوام میں سے جن 2 فیصد کے قریب لوگوں سے ٹیکس لیتی ہے۔ وہ موجودہ حالات میں ہی ناکافی ہے اور ہر سال پیش کیے جانے والے بجٹ کا ایک بڑا حصّہ ملنے والی امداد اور قرضوں پر منحصر ہوتا ہے۔
دوسری طرف بڑھتی آبادی کے ساتھ وسائل کی طلب میں تو اضافہ ہو رہا ہے مگر ٹیکس دینے والوں کی تعداد بڑھنے کے بجائے کم ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ توانائی بحران اور دہشتگردی کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری بھی نہیں ہو رہی اور چلتی فیکٹریاں بھی سسکیاں لے کر چل رہی ہیں۔
مثال کے طور پر سال کی دو فصلوں ربیع اور خریف میں پیدا ہونے والا اناج ابھی تو پاکستانیوں کی ضرورت پوری کر رہا ہے بلکہ ضرورت سے زیادہ بچ جانے والے فروٹ، سبزیاں اور اناج بیرون ملک برآمد بھی کیے جاتے ہیں۔ مگر بڑھتی آبادی اور وسائل کی کمی کی وجہ سے برآمدات میں کمی ہو رہی ہے اور اس کی ایک وجہ اندرونِ ملک طلب میں اضافہ ہے۔ اس کے علاوہ سیاسی حالات بھی وسائل کی پیدوار پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
علاوہ ازیں حکومت صحت، تعلیم اور دیگر سہولیات جو مہیا کرتی ہے۔ اس میں اضافہ یا بہتری تو نہیں ہو رہی مگر آبادی میں اضافے کی وجہ سے ان ضروریات کی طلب بڑھتی جا رہی ہے. بڑھتی آبادی کا اندازہ شہروں میں چلنے والی ٹریفک کو دیکھ کر بھی لگایا جاسکتا ہے۔ جس میں اضافے کی وجہ سے سڑکیں مزید چوڑی کی جاتی ہیں اور زیرِ زمین پُل یا اوور ہیڈ پُل تعمیر کیے جا رہے ہیں۔
مگر سڑکوں کی چوڑائی اور سڑکوں کے اوپر یا نیچے پُل کب تک بنائے جائیں گے؟ ایک وقت آئے گا جب سڑکوں کو مزید چوڑا کرنا ممکن نہیں ہوگا اور پُلوں کی تعمیر بھی ممکن نہیں رہے گی۔ لوگوں کی قوتِ خرید انہیں گاڑیاں لینے کی اجازت تو دے گی مگر سڑکوں پر ٹریفک کی حالت خریدی گئی بہترین گاڑی کو گیراج میں ہی کھڑا رکھنے پر مجبور کرے گی، یا پھر حکومت کی جانب سے بڑھتی ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لیے گاڑیوں پر مزید ٹیکسز عائد کر دیے جائیں گے اور پارکنگ فیس بھی گاڑی کے استعمال پر پابندی لگائے گی۔
وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم یا عدم دستیابی کی وجہ مردم شماری کا نہ ہونا بھی ہے جس کی وجہ سے آبادی میں اضافے کا تعین ہی نہیں کیا جاتا اور آبادی کی ضروریات اور وسائل کی دستیابی میں تناسب بگڑ جاتا ہے۔ مردم شماری نہ ہونے کی وجہ سے انتخابات کے لیے کی جانے والی حلقہ بندیاں بھی تبدیل نہیں کی جاتیں۔ جبکہ حلقے میں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد میں اضافہ بڑھتی آبادی کے تناسب سے جاری رہتا ہے۔
اگر بروقت مستقل بنیادوں پر مردم شماری کروائی جائے تو آبادی میں ہونے والے اضافے پر نظر رکھی جا سکتی ہے اور جس کی وجہ سے مزید وسائل کی طلب اور رسد کو یقینی بنا کر ترقی کی منازل طے کی جا سکتی ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ حکومت مضبوط اور جامع اشتہاری مہم کے ذریعے لوگوں کو آبادی میں ہونے والے اضافے کے نقصانات بتا سکتی ہیں اور حکومت کی طرف سے کم بچے پیدا کرنے والے والدین کو سراہا کر اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
تبصرے (9) بند ہیں