ہم اسکرینز کے قیدی کیوں ہیں؟
میں ہر ہفتے پریشان والدین کو سنتا ہوں جن کے لیے اپنے بچوں کو اسمارٹ اسکرین سے دور رکھنا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔
گذشتہ ہفتے کلینک کے دوران جب میں نے ایک بچے کو اپنا فون رکھنے اور گفتگو پر دھیان دینے کے لیے کہا تو وہ شدید غصہ ہوگیا۔ اس نے آفس کا فرنیچر توڑ دیا اور کھلونے اٹھا کر پھینک دیے کیونکہ اس کے لیے خود کو 'اینگری برڈز' سے دور کرنا ناممکن تھا۔
کچھ دن بعد میرے کلینک میں ایسی بچی آئی جو صرف اس لیے خودکشی کرنا چاہ رہی تھی کیونکہ کسی نے مشہور ویڈیو گیم مائن کرافٹ میں اس کے ورچوئل پیسے چرا لیے تھے۔
یہ فوری رابطے کا زمانہ ہے اور ہم ٹی وی، لیپ ٹاپ، ٹیبلٹس اور فونز کی اسکرینز کے سامنے غیر معمولی وقت گزار رہے ہیں۔ گلیوں، پارکوں، ریستورانوں، دفاتر کی کمرہء انتظار میں ہر جگہ لوگ اسکرینز پر آنکھیں جمائے نظر آتے ہیں۔ گھروں میں بھی شاید لوگ ہر وقت ٹی وی اور لیپ ٹاپ کو ہی تکتے رہتے ہیں۔
یہ رویہ ہماری جسمانی، سماجی اور ذہنی صحت پر اثرانداز ہو رہا ہے۔
ان چیزوں کا زیادہ استعمال بچوں اور نوجوانوں کی سماجی اور ذہنی نشونما کے لیے بہت نقصاندہ ہے۔ وہ زندگی کے اہم کام جیسے تخیل اور تخلیق، ہم جولیوں کے ساتھ ملنا جلنا، جسمانی ورزش اور دیگر اہم ہنر جیسے کہ مسائل کا حل اور جذبات پر قابو رکھنا نہیں سیکھ پاتے۔
آج کل یہ حال ہے کہ ایک ہی گھر میں رہنے والے لوگ ایک دوسرے کو فون کال یا ٹیکسٹ میسج کرتے ہیں، اور اس عادت کا ایک نقصان یہ ہے کہ دوستوں اور خاندان کے لوگوں کے درمیان تعلق کمزور پڑتا جاتا ہے کیونکہ لوگ معمول کی بات چیت کے دوران اپنے فون اور کمپیوٹر نکال کر ایک دوسری دنیا میں پہنچ جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
میں سال میں کئی دفعہ اپنے گھر میں باربی کیو پارٹیاں منعقد کرتا ہوں۔ سلام دعا اور خیر خیریت کے بعد مہمان سب سے پہلے جو چیز پوچھتے ہیں، وہ وائی فائی کا پاس ورڈ ہے۔ اب گذشتہ دو سالوں سے میں نے اپنے گھر کی ہر نمایاں جگہ پر وائی فائی کا پاس ورڈ آویزاں کر دیا ہے تاکہ تمام مہمان دیکھ سکیں۔ میں ایسا اس لیے کرتا ہوں کیونکہ میں ایک اچھا میزبان بننا چاہتا ہوں۔ مگر اس سے پارٹی کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ لوگ آپس میں باتیں کرنے کے بجائے اپنے اپنے فون میں مگن رہتے ہیں۔
اپنے انٹرن شپ کے سال کے دوران مجھے یاد ہے کہ ایک مریض نے ڈاکٹر کی تجویز کے باوجود ہسپتال چھوڑ دیا تھا کیونکہ اسے مریضوں کے لیے وائی فائی کی سہولت نہ ہونے پر غصہ تھا۔ پچھلے چند سالوں میں اب میں نے جتنے بھی ہسپتالوں کے ساتھ کام کیا ہے، ان میں مریضوں اور ان کے رشتے داروں کے لیے مفت وائی فائی کی سہولت دستیاب ہوتی ہے۔
اس سے بھی برا یہ ہے کہ اب ٹی وی اور ویڈیو گیمز بچے سنبھالنے لگے ہیں۔ جب والدین یا گھر کے دیگر افراد کہیں اور مصروف ہوں تو وہ ٹی وی چلا دیتے ہیں تاکہ بچے مصروف رہیں۔ اس طرح ہم بچوں کو ایک غیر حقیقی دنیا میں رہنے کی تربیت دے رہے ہوتے ہیں۔
بڑے ہونے پر ان بچوں کو رشتے قائم کرنے میں مشکل کا سامنا ہوسکتا ہے کیونکہ ٹی وی کی گود میں بڑے ہو کر یا سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے سماج میں زندگی گزارنا نہیں سیکھا جا سکتا۔
آسٹریلیا میں رہنے والے ایک ماہرِ نفسیات عثمان خالد کے مطابق بچوں کو اسکرین کے سامنے رکھنا ان کی نفسیاتی نشونما میں خلل ڈال سکتا ہے، کیونکہ بچپن میں دماغ ترقی پذیر ہوتا ہے اور تیزی سے بڑھ رہا ہوتا ہے؛ ایسی صورت میں بچے حقیقی زندگی اور غیر حقیقی چیزوں میں فرق نہیں کر پاتے۔
کیونکہ یہ تمام ٹیکنالوجیز نئی ہیں، اس لیے ہمیں ان کے طویل مدتی اثرات جانچنے کے لیے کم از کم ایک دہائی تو لگے گی۔ مگر بچوں کے ڈاکٹروں کی تنظیم امیریکن پیڈیاٹرکس ایسوسی ایشن کے مطابق دو سال کی عمر سے قبل بچوں کو اسکرین کا سامنا بالکل نہیں کروانا چاہیے جبکہ اس کے بعد ایک دن میں دو گھنٹے سے زیادہ بالکل بھی نہیں، تاکہ موٹاپے اور دیگر جسمانی بیماریوں کا راستہ روکا جا سکے۔
ٹیکنالوجی کے فوائد کا کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ ایک ایسے زمانے میں جب پہنی جانے والی موبائل ٹیکنالوجی فیشن بن چکی ہے، تو آن لائن ڈیٹنگ بھی پہلے سے کہیں زیادہ مقبول ہے۔
پچھلے کچھ ہفتوں کے دوران میں نے اپنا فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کر دیے ہیں اور اب میں اپنی سماجی زندگی کا پہلے سے کہیں زیادہ مزہ لے رہا ہوں۔
اس جدید دنیا میں ٹیکنالوجی سے فرار ممکن نہیں ہے مگر ہم پھر بھی اپنی زندگیوں میں تبدیلی لانے کے لیے اقدامات اٹھا سکتے ہیں اور ان چیزوں سے خود کو نقصان پہنچانے کے بجائے ان سے فائدہ بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
تبدیلی کی ابتداء
میرے ایک دوست نے بھی اب تبدیلی کی ابتداء کی ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ اب جب وہ گھر جاتا ہے تو اپنا فون اور پیجر چند گھنٹوں کے لیے سائیڈ پر رکھ دیتا ہے۔ وہ کھانا ختم کرنے تک اپنی ای میلز اور ٹیکسٹ میسجز بھی چیک نہیں کرتا۔ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ وقت گزارتا ہے۔ فیملی روم میں بیٹھنے کا انتظام ایسا ہے کہ گھر والوں کا رخ ٹی وی کے بجائے ایک دوسرے کی جانب رہے۔ گھر میں رات کے کھانے سے پہلے کسی اسکرین کے استعمال کی اجازت نہیں ہے۔
سونے کے وقت گھر کی تمام ڈیوائسز کو چارجنگ پر دوسرے کمرے میں چھوڑ کر وائی فائی بند کر دیا جاتا ہے۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے بات کرتا اور کھیلتا ہے۔ گھر کے بچے گھر کے قوانین سے اچھی طرح واقف ہیں اور ٹی وی، فون اور کمپیوٹر وغیرہ پر بہت کم وقت ہی گزارتے ہیں۔
شروع شروع میں بچے بور ہونے کی شکایت کرتے اور اس تجسس کا شکار رہتے کہ ان کے دیگر دوست ڈیجیٹل دنیا میں کیا کر رہے ہیں جس تک ان کو رسائی نہیں، مگر گھر والوں سے مضبوط تعلق نے ان کی یہ پریشانی بھی جلد ہی ختم کر دی۔ والدین نے بچوں کے ساتھ ان کے اس مسئلے کے بارے میں کھل کر بات کی اور بچوں کو اپنی پریشانیوں کا ذکر ان سے کرنے کے لیے اچھا ماحول فراہم کیا۔
کیا ہم اپنے گھروں میں ایسی تبدیلی نہیں لا سکتے؟ دوسروں کی کی ہوئی غلطی سے سبق سیکھنے کے بجائے خود غلطیاں کر کے ہی سبق سیکھنا ہے؟
علامہ اقبال کے الفاظ میں کہیں تو:
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
تبصرے (1) بند ہیں