"بجلی کی تقسیم، بلز کی وصولی صوبوں کی ذمہ داری"
اسلام آباد: اس وقت جبکہ نئی حکومت بجلی کے بحران کے حل کے لیے مختلف طریقہ کار پر غور کررہی ہے، کل بروز بدھ مورخہ 19 جون کو سپریم کورٹ کی جانب سے ایک تجویز سامنے آئی ہے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین ججز پر مشتمل ایک بنچ نے اٹارنی جنرل منیر اے ملک سے کہا ہے کہ وہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے رائے لیں کہ کیا یہ ممکن ہے کہ صوبے بجلی اپنی ضروریات کے مطابق وفاق سے خریدیں اور گھریلو و صنعتی صارفین سے اس کی وصولیابی کرلیں، بجلی کی قیمت ان کے این ایف سی ایوارڈ کے حصے میں سے منہا کرلی جائے گی۔
صوبائی حکومتیں جو اپنے اپنے صوبوں میں امن و امان کو برقرار رکھنے کی ذمہ دار ہیں، انہیں اس بات کا بھی ذمہ دار بنایا جائے کہ وہ بجلی کے واجبات وصول کریں اور جو بل ادا کرے اس کے لیے بجلی کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔اس طرح وفاقی حکومت متعلقہ اداروں کو ذمہ داریاں دے کر اس معاملے سے سبکدوش ہوجائے گی۔
سپریم کورٹ کی جانب سے یہ تجویز ملک میں غیرمعمولی لوڈشیڈنگ کے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران سامنے آئی۔
اٹارنی جنرل اور نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) اور پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی (پیپکو) کے مینجنگ ڈائریکٹر زرغم اسحاق خان ، دونوں ہی نے عدالت کو یقین دلایا کہ وہ اس تجویز پر غور کریں گے اور انہوں نے حکومت سے ہدایات حاصل کرنے کے لیے کچھ وقت بھی طلب کیا ۔
پشاور الیکٹرکسٹی کمپنی (پیسکو) کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے نجی رکن نعمان وزیر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ پٹے داروں کی بڑی تعداد کو دریا کے بہاؤ پر بجلی پیدا کرنے کے لیے لائسنس جاری کیے تھے، شمالی علاقوں میں اس طریقے سے تیس ہزار میگاواٹ تک کی بجلی پیدا کی جاسکتی تھی۔ لیکن بجائے تعمیراتی کام کا آغاز اور بجلی کے جنریٹنگ یونٹوں کی تنصیب کرنے کے یہ پٹے دار اس بات کا انتظار کررہے ہیں کہ مہنگے داموں بڑے سرمایہ کاروں کو یہ لائسنس فروخت کرسکیں۔
اور پھر جب خیبر پختونخوا کی حکومت نے ان کی تاخیر پر اعتراض کیا تو ان پٹے داروں نے عدالتوں سے اسٹے آرڈر لے لیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر اس طرح کے منصوبوں میں پنجاب یا کسی بھی صوبے کے صنعتکار سرمایہ کاری کریں تو وہ دریا کے بہاؤ کے ذریعے بجلی پیدا کرکے اس کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنا سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی مشورہ دیا کہ مہنگا فرنس آئل کا استعمال تھرمل پاور جنریشن میں استعمال کرنے کے بجائے، کول واٹر پیسٹ کو بطور ایندھن اس میں استعمال کرنا چاہئیے۔
عدالت نے پیپکو کے مینجنگ ڈائریکٹر سے اس کے امکان کی جانچ پڑتا ل کے متعلق دریافت کیا۔
نعمان وزیر نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ بجلی کے بلوں کے نادہندگان کی ایک بڑی تعداد جن میں خاص طور پر مختلف علاقوں کے عام صارفین شامل میں، جو بجلی تو مسلسل استعمال کررہے ہیں، لیکن بل ادا نہیں کرتے۔ اگر یہ بجلی کے بقایاجات ادا کردیں اور بل ادا کرتے رہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ بجلی فراہم کرنے والی کمپنیاں بھی مسلسل بجلی فراہم نہ کریں۔
عدالت نے خیبرپختونخوا کے چیف سیکریٹری کو حکم دیا کہ وہ متعلقہ معلومات، بشمول عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی ایک فہرست کے ساتھ ان کا موجودہ اسٹیٹس اور ان کی نوعیت بھی پیش کریں۔
پیپکو کے سربراہ نے پرائیویٹ پاور انفرانسٹرکچر بورڈ (پی پی آئی بی) اور آلٹرنیٹیو انرجی ڈیویلپمنٹ بورڈ (اے ای ڈی بی) سے ان لائسنس ہولڈرز کی ایک فہرست طلب کی جنہوں نےاب تک تھرمل پاور پروجیکٹ کی تنصیب نہیں کی ہے۔اس کے علاوہ انہوں نے اس بات کی وجہ بھی جاننا چاہی کہ مذکورہ پلانٹ اب تک نصب کیوں نہیں کیے گئے ہیں۔
عدالت نے پی پی آئی بی اور اے ای ڈی بی کو نوٹسز جاری کردیے۔
زرغم خان نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اگر مطلوبہ رقم 33 کھرب روپے ادا کردیے جائیں تو اگلے دو ہفتوں کے اندر لبرٹی پاور کمپنی اور حبکو نارووال کے دو پلانٹ کے پیدوار شروع کرنے کا امکان ہے۔
عدالت نے صنعتوں اور دیگر صارفین کو بجلی کی یکساں تقسیم کے فارمولے کے حوالے سے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں این ٹی ڈی سی اور ڈسکوز کی صنعتکاروں کے ساتھ بات چیت کے متعلق دریافت کیا ۔
زرغم خان نے صوبے کے حساب سے بجلی کی دستیابی اور طلب اور اصل فراہمی کے حوالے سے تفصیلات جمع کرائیں۔ جس کے مطابق پنجاب میں روزانہ کی طلب 12080 میگاواٹ جبکہ فراہمی 7740 میگاواٹ ہے۔ سندھ میں بجلی 1403 میگاواٹ فراہم کی جارہی ہے، جبکہ طلب 2200 میگاواٹ ہے۔خیبر پختونخوا میں فراہمی 1870 میگاواٹ ہے، جبکہ طلب 2700 میگاواٹ ہے۔ بلوچستان 701 میگاواٹ فراہمی اور طلب 1200 میگاواٹ ہے۔اسلام آباد میں 1169 میگاواٹ فراہمی جبکہ طلب 1600 میگاواٹ ہے اور آزاد کشمیر میں فراہمی 250 میگاواٹ جبکہ 980 میگاواٹ طلب ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں