قندوز میں امید کا قتل
تین اکتوبر 2015 کو امریکی بمباروں نے قندوزمیں واقع ایم ایس ایف کے ہسپتال پر 60 منٹ تک مسلسل گولہ باری کی۔ یہ ہسپتال جنگ زدہ قندوز کا واحد معیاری مرکزِ صحت تھا جو کہ اب تباہ ہو چکا ہے۔
ڈاکٹر میتھیلڈ بیرتھلوٹ پاکستان، افغانستان، ایران اور فلسطین کےلئے میڈیسزسانز فرنٹئیر (ایم ایس ایف) کی آپریشنل مینیجر ہے۔ انہیں افغانستان میں کام کرنے کا 14 سالہ تجربہ ہے، اور پشاور اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) میں ایم ایس ایف کی سرگرمیوں کی بھی سربراہی کرتی ہیں۔
گزشتہ دنوں ان سے بات چیت کی گئی جس میں انہوں نے اس مرکز کی اہمیت کے ساتھ ساتھ اس کے دوبارہ تعمیر ہو سکنے کے امکانات پر روشنی ڈالی۔
سوال: اس بمباری کے اثرات کو محض ہسپتال کے اندر ہلاک اور زخمی ہونے والے افراد تک محدود نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس بحث میں ان کو بھی شاملِ کرنا ہوگا جو اس مرکز کی تباہی کی وجہ سے متاثر ہونگے۔ کیا آپ اس نقصان کی تفصیل بیان کرسکتی ہیں؟
ڈاکٹر میتھیلڈ بیرتھلوٹ: یہ مرکز اب قابلِ استعمال نہیں رہا ہے، بالخصوص ایمرجنسی خدمات کے لئے مختص حصہ، کیونکہ اس بمباری سے سب سے زیادہ متاثر یہی حصہ ہوا۔
ایم ایس ایف نے یہ مرکز 2011 میں تعمیر کروایا تھا اور تب سے اسے آزادانہ طور پر چلارہے تھے۔ صوبہ قندوز میں ٹراما کے مریضوں کے لئے سہولیات فراہم کرنے والا یہ واحد ادارہ تھا۔ 92 بستروں پر مشتمل ہسپتال میں ہرطرح کے مریض آتے تھے جن میں حادثات کے شکار، گھریلو تشدد اور خاندانی یا قبائلی جھگڑوں کی وجہ سے بندوقوں کا نشانہ بننے والے افراد شامل ہیں۔
اس ہسپتال کے لئے ایم ایس ایف کا سالانہ بجٹ تقریبا 70لاکھ ڈالرزتھا، جسے ایم ایس ایف اپنے نجی عطیات دہندگان کی مدد سے پوراکرتی تھی۔ جدید اور معیاری ٹیکنالوجی کی مدد سے بننے والے آلات ہسپتال میں نصب تھے۔ مثلا، ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کو جوڑنے کےلئے ہمارے پاس ایک جدید آلات تھے۔ ہمارے پاس ایک بہت ہی متحرک آئی سی یو، بلڈ بینک اور ایک لیب بھی تھی۔ ہمارے پاس ہڈی جوڑ کا ایک جدید شعبہ تھا۔ مریضوں کے لئے ہمارے پاس ریسپیریٹرز (سانس کی تکلیف دور کرنے کےلئے) موجود تھے۔ ہمارے پاس ایکس رے میشنیں تھیں، اور ایمبولینسز کے علاوہ فزیوتھیراپی کےلئے کافی سہولیات تھیں۔
یہ سامان اور آلات بہت قیمتی تھے، کیونکہ یہ تکنیکی اعتبارسے ایک اعلی درجے کا ہسپتال تھا۔ یہ قندوز میں واحد جگہ تھی جہاں جدید معیار کے مطابق صدمے کے مریضوں کا علاج ہوسکتا تھا۔
قندوز میں واقع ایک اور ہسپتال افغان وزارتِ صحت کے زیر انتظام کام کرتا ہے، لیکن آلات ، سہولیات اور جدیدیت کے اعتبار سے اس کا ایم ایس ایف ہسپتال کے ساتھ موازنہ نہیں ہوسکتا ہے۔
اسلئے، قندوز کے دس لاکھ باشندوں کے لئے ہمارا ہسپتال امید کی کرن تھی۔ ہسپتال پر حملے سے قبل، جب قندوز کا قبضہ حاصل کرنے کے لئے جنگ چھڑی، طالبان نے وزارتِ صحت کے ہسپتال پر قبضہ کر لیاتھا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ایم ایس ایف کا ہسپتال قندوز کے لئے علاج معالجہ فراہم کرنے کا واحد غیر جانبدار اور آسان ذریعہ تھا۔
حملے کے بعد ہم نے اپنے بچ جانے والے مریضوں کو افغانستان میں موجود اپنے دیگر ہسپتالوں میں منتقل کردیا، مگر قندوز میں صورتحال اب گھمبیر ہو چکی ہے اور وہاں اب کوئی ادارہ موجود نہیں ہے۔
سوال : جب قندوز شہر پر طالبان نے حملہ کیا، تو کیا ایم ایس ایف نے وہاں سے نکل جانے کا سوچا؟
ڈاکٹر میتھیلڈ بیرتھلوٹ: طالبان نے قندوز شہر پر قبضہ حاصل کرنے کرنے کی دو مرتبہ کوششیں کیں، اور ہر دفعہ ہمیں ہسپتال میں بہت سارے زخمیوں کو داخل کرنا پڑا۔
ہم نے فیصلہ کرلیا تھا کہ بہت خطرناک اور غیر یقینی صورتحال ہے۔ ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ طالبان کا ایم ایس ایف کے کارکنوں، رضاکاروں اور مقامی آبادی کی طرف رویہ کیا ہوگا۔ ہمیں یہ بھی اندازہ تھا کہ افغان فوج شہر کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کے لئے حملہ کرسکتی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر ہم نے اسٹاف ممبرز کی تعداد میں کمی کر دی۔ کل ملا کر ہسپتال میں 9 قومیتوں، بشمول افریقی، آسٹریلوی، ایشیائی اور یورپ کے 15 غیر ملکی تھے۔ لیکن 29 ستمبر کے بعد ہم نے صرف 9 غیر ملکیوں کو ہسپتال میں رکھا۔ ان کی مدد کے لئے مقامی اور افغان شہریت رکھنے والے ایم ایس ایف کے کارکن موجود تھے۔ اس مرکز میں کام کرنے والے افغان شہریوں کی تعداد 360 کے لگ بھگ ہے۔ اس میں ڈاکٹرز نرسز، ڈرائیورز، کھاناپکانے والے اور کپڑے دھونے والے اور دیگر وہ تمام افراد شامل ہیں جن کی مدد سے کسی بھی ہسپتال کو چلایا جاسکتا ہے۔ غیر ملکی بنیادی طورپر مقامی کارکنوں کی تربیت کے لئے موجود ہوتے ہیں، کیونکہ اگر ہمیں ایک نہ ایک دن وہاں سے سامان باندھ کر اگر نکل بھی جانا پڑے تو تب بھی افغان شہری اپنے ملک میں خدمات فراہم کرنے کے لئے موجود ہوں گے۔ یہ بنیادی طور پر مہارتوں اور علم کے تبادلے کا ایک نظام ہے۔ مثلا، غیر ملکی سرجنز مقامی ڈاکٹرز کو بہت کچھ سکھاتے ہیں جب کہ وہ اعلی تعلیم یافتہ مقامی ڈاکٹرز اور دیگر ماہرین سے سیکھتے بھی ہیں۔
29 ستمبر کو ہمیں اندازہ ہوگیا کہ اب شہر میں لڑائی ہونے جارہی ہے۔ ہم نے وہاں رہنے یا پھر نکل جانے کے بارے میں سوچا۔ ہم نے اپنے آپ سے پوچھا کہ کیا ہم قندوز میں کوئی اضافی خدمات فراہم کررہے ہیں؟ ہمارے نکل جانے سے اہلیانِ قندوز کو مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا؟ اور جواب ایک قوی "ہاں" تھا، کیونکہ ہمارا ہسپتال اس وقت قندوز میں واحد باضابطہ مرکزِ صحت تھا۔ وزارتِ صحت کے ہسپتال پر طالبان کے قبضے کے بعد وہاں ہماری موجودگی کی وجہ سے مقامی آبادی کو بہت زیادہ فائدہ ہورہا تھا۔ اس لیے ہمیں وہیں رہنا تھا۔
سوال : کیا ایم ایف کو اندازہ تھا کہ ان کے ہسپتال پر بممباری کی جائے گی؟
ڈاکٹر میتھیلڈ بیرتھلوٹ: ہسپتال عموما جنگوں کے دوران بھی محفوظ جگہیں ہوتی ہیں۔ ہم نے تمام ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کیں تھیں۔ ہم نے یقینی بنایا تھا کہ اس جھگڑے میں شامل تمام فریقوں کو پہلے سے معلوم ہو کہ یہ ایک ہسپتال ہے اور اس لئے اسے نقصان سے بچایا جائے۔ اگر آپ کبھی پاکستان میں ایم ایس ایف کے کسی مرکزِ صحت تک چلے جائیں تو آپ دیکھیں گے کہ جابجا نمایاں مقامات پر لکھا ہوا ہے کہ یہ ہسپتال ہے اور یہاں اسلحہ لے کر آنا ممنوع ہے۔ ہم پوری دنیا میں اس طرح کام کرتے ہیں، کیونکہ یہ ہمارا اصول ہے کہ ہم بغیر تعصب کے سب کو علاج معالجے کی خدمات فراہم کریں۔ ہم طبی ضروریات کی بنیاد پر مریضوں کو ان کی سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہوکر داخل کرتے ہیں ۔ ہم نے پورے ہفتے اسی اصول کو جاری اور قائم رکھا۔ ہر ایک کو ہسپتال میں بغیر اسلحے کے داخل ہونے اور طبی ضروریات کی تشخیص، کے اصولوں کے بارے میں معلوم تھا۔
ہم نے 29 ستمبر کو امریکیوں، افغان فوج اور طالبان سے رابطہ کیا۔ ہم نے بنیادی طور پر سب کو یہی بتایا کہ ہم یہاں کام کرنے کے لئے آئے ہیں، ازراہِ کرم ہمیں کام کرنے دیجئے، اور یہ کہ یہ ایک ہسپتال ہے، براہِ کرم اس کی طرف گولیاں نہ چلائیں، اور اس کے تقدس کا خیال رکھیں۔ ماضی کی طرف دیکھتے ہوے ہمیں یقین تھا کہ جنگ کے دوران اس طرح کی چیزوں پر مکمل طور پر یقین نہیں کیاجاسکتاہے۔ لیکن اس لمحے میں، ہمیں یقین تھا کہ ہسپتال محفوظ ہے۔ اسی لئے ہم نے کام کو جاری رکھا۔
سوال : ہمیں حملے کے بارے میں بتائیں۔ یہ سب کیسے ہوا، اور اسکا نتیجہ کیا تھا؟
ڈاکٹر میتھیلڈ بیرتھلوٹ: ہم نے پیر 29 ستمبر سے جمعہ تک 400 سے زائد مریضوں کو ہسپتال میں داخل کیا، ہمارے پاس تین آپریشن تھیٹرز تھے اور اس دوران تینوں مسلسل استعمال میں تھے۔ اگرچہ ہسپتال میں صرف 92 مریضوں کو داخل کرنے کا انتظام تھا، لیکن ہم نے مجبوری کے عالم میں 150 مریض داخل کرنے کےلئے عارضی انتظامات کر رکھے تھے۔ ہمیں راہداریوں، آپریشن تھیٹرز اور دیگر جگہوں پر بستر لگانے پڑے تھے۔ حملے کی رات کو ہسپتال میں ایم ایس ایف کے 80 کارکن موجود تھے۔ کچھ کو منصبی فرائض کے حساب سے اس وقت وہاں پر نہیں ہونا چاہیے تھا، لیکن ان غیر معمولی حالات میں انہوں نے مریضوں کےلئے اپنی خدمات فراہم کی تھیں۔
حملے کی رات کو ایک ٹیم موجود تھی جنہوں نے ایک مریض کا آپریشن کرنا تھا۔ ریکوری کے کمرے میں تین مریض موجود تھے، جن کا آپریشن شام کو ہوچکا تھا۔ اس کے علاوہ ڈاکٹروں اور نرسوں کی ایک اور ٹیم بھی تھی جو آپریشن اور وارڈز میں مریضوں کی تیمار داری کررہے تھے۔ دوسرے حصے میں ہسپتال میں داخل 105 مریض اور عملے کے علاوہ ایم ایس ایف کے غیر ملکی ورکرز اور دیگر افراد موجود تھے۔
بمباری رات کے تقریبا 2 بجے شروع ہوئی، اور اس کا رخ عمارت کے سامنے والے حصے پر تھا۔ جب پہلا بم گرااس وقت ایک ٹیم آپریشن تھیٹر میں ایک مریض کے ساتھ موجود تھی۔ اسی عمارت میں انتہائی نگہداشت کا ایک یونٹ (آئی سی یو) اور آپریشن کے بعد بحالی کا ایک کمرہ بھی تھا۔ عمارت کا دوسرا حصہ جہاں وارڈز تھے محفوظ رہا۔ کچھ مریض اپنے ساتھ آنے والے افراد کے ساتھ ہسپتال کے نیچے موجود ایک تہہ خانے میں چھپنے میں کامیاب ہوگئے۔ غیر ملکیوں نے بھی اسی محفوظ عمارت میں پناہ لی۔
پراجیکٹ کوآرڈینیٹر نے فورا کابل میں موجود ہیڈ آف مشن کو اطلاع بھیجی اور انہیں درخواست کی کہ عسکری حکام کو فون کر کے بتایا جائے کہ ہسپتال پر حملہ ہورہا ہے، اور انہیں ہسپتال کا محل وقوع (جی پی ایس) دوبارہ بتادے تاکہ بمباری رک سکے۔ ہیڈ آف مشن نے فورا واشنگٹن میں امریکی حکومت سے رابطہ کیا اور ان سے حملے روکنے کی درخواست کی۔ بدقسمتی سے ایک گھنٹے تک (2 سے 3 بجے تک) حملے جاری رہے۔ ہسپتال پر دس دس منٹ کے وقفے سے پانچ دفعہ بمباری کی گئی۔
حقیقت میں کیا ہوا، اس کے بارے میں مختلف آراء ہیں، اور بہت ساری توجیہات پیش کی گئی ہیں۔ اس لیے ہم بہت زیادہ غصے میں ہیں، کیونکہ ہمیں نہیں بتایا جارہا کہ اصل ذمہ دار کون ہے۔ ہم مطالبہ کر رہے ہیں کہ آزادانہ تحقیقات کے ذریعے ہمیں بتایا جائے کہ درحقیقت کیا ہوا۔ کیونکہ ایک گھنٹے تک بمباری نہیں رکی، اور آخر میں جتنے بھی مریض پہلی عمارت میں موجود تھے موت کے منہ میں چلے گئے۔ دس مریض جو آپریشن تھیٹر اور وارڈ میں تھے، ہلاک ہوئے۔ تین بچوں سمیت چھ دیگر مریضوں جو انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں تھےاور بھاگ نہیں سکتے تھے وہ بھی اس بمباری کا نشانہ بنے۔ بجائے اس کے کہ ہسپتال میں ان کا علاج ہوتا، انہیں ہسپتال کے اندر بمباری کی وجہ سے مرنا پڑا۔
مریضوں کے ساتھ ساتھ ایم ایس ایف عملے کے 12 افراد بھی مرنے والوں میں شامل تھے۔ ان میں تین ڈاکٹرز، ایک خاکروب، چار نرسز، دو چوکیدار، ایک فارمسیسٹ اور شعبہ معلومات کا ایک شخص شامل تھا۔ یہ سارے افراد ایم ایس ایف کے ساتھ عرصہ دراز سے منسلک تھے۔ کچھ فورا موت کے گھاٹ اتر گئے جب کہ کچھ بمباری کے تھوڑی دیر بعد زندگی کی بازی ہار گئے ۔ مرنے والے تمام افراد ایک ہی عمارت میں موجود تھے۔
سوال : افغان عملے کے ساتھ کام کرنے کا آپ کا تجربہ کیسا تھا؟
ڈاکٹر میتھیلڈ بیرتھلوٹ: افغان عملہ لوگوں کی بے لوث خدمت کرتا ہے۔ وہ کئی سالوں سے ہمارے ساتھ کام کر رہے تھے۔ ایم ایس ایف کے ساتھ کام کرکے وہ جتنی تنخواہ حاصل کرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ وہ نجی اداروں کے لئے کام کر کے حاصل کر سکتےتھے یا وہ اپنے نجی کلینک کھول سکتے تھے، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا تھا۔
انہوں نے ایک غیر سرکاری ادارے کے ساتھ کام کرنے کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ یہ اپنے لوگوں کی خدمت کے جذبے سے سرشارتھے۔ ایم ایس ایف کی مہیا کردہ خدمات نجی شعبے میں بہت مہنگی ہیں، جن تک رسائی دیگر حالات میں نادار افراد کے بس کی بات نہیں تھی۔ جو افغان ہمارے ساتھ کام کررہےتھے انہیں معلوم تھا کہ وہ اپنے معاشرے کی غیر معمولی خدمت کر رہے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ان میں سے کچھ نے اپنی زندگیاں اس لیے کھو دیں، کیونکہ وہ اپنے لوگوں اور اپنے پیشے کے ساتھ مخلص تھے۔
افغان حکومت نے الزام لگایا ہے اور امریکی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان اس سہولیت کا غلط استعمال کررہے تھے، اور یہاں سے ان پر حملے ہو رہے تھے۔ اس پر آپ کا کیا ردِ عمل ہے؟
جب ہم نے پہلی بار امریکی بمبار طیاروں سے حملے کے بارے میں سنا تو ہم سکتے کے عالم میں آگئے کیونکہ ان کے جنگی ہوائی جہاز پہلی جنگِ عظیم کے زمانے کے نہیں ہیں۔ ان کے پاس جدید ترین آلات (جی پی ایس) ہیں، انہیں معلوم ہے کہ کس طرح کسی مقام کا تعین کرنا ہے۔ ہم یہ سمجھنے سے مکمل طور پر قاصر ہیں کہ یہ معلوم ہونے کے باوجود کہ یہ ایک ہسپتال ہے انہوں نے بمباری کیوں جاری رکھی ؟ اور اب ہمیں افغان وزارتِ داخلہ اور امریکی فوج کے ترجمان سے یہ معلوم ہوا ہے کہ انہیں یقین تھا کہ ہسپتال میں طالبان جنگجو موجود تھے۔ افغان حکام کا دعوی ہے کہ انہوں نے 15 طالبان مار دیے ہیں۔
لیکن اگر ہم اپنی فہرست میں موجود مقتول افراد کے نام دیکھتے ہیں تو ہمیں صرف عملے کے ارکان، مریض اور ان کے رشتہ دار نظر آتے ہیں۔ ہسپتال کے ملبے سے ہمیں کوئی طالبان نہیں ملا۔ یہ بالکل غیر مناسب ہے کہ دشمن جنگجووں کو مارنے کے لئے ایک ہسپتال کو ملیا میٹ کر دیا جائے، اور پھر اس حملے کو جائز قرار دینےکی کوشش کی جائے۔ جب انہوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ انہیں معلوم تھا کہ یہ ایک ہسپتال ہے، ہمیں بہت زیادہ پریشانی ہوئی۔
اگر انہیں معلوم تھا، تو گویا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک ہسپتال پر بم گرانے کے جنگی جرم کا اعتراف کر رہے ہیں۔ ہمارے لئے ایک انتہائی پریشان کن صورتحال تھی، اور اسی لئے ہم نے شفاف اور آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے، تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ درحقیقت کیا ہوا۔
فوج کا کہنا ہے کہ انہوں نے خود تحقیقات شروع کر دیں ہیں، لیکن غالبا ہمیں اس تحقیقات کے تمام تفصیل تک رسائی نہیں ہوگی۔ وہ نتائج بیان کریں گے، لیکن ہم حملہ کرنے والوں کے بیان کردہ نتائج کو تسلیم نہیں سکتے ہیں۔ ہم ایک اور تحقیقات چاہتے ہیں جو کہ ایک آزاد ذریعہ کرے۔
حملے کے بارے میں بہت سارے بیانات جاری کئے جارہے ہیں، اور ہمیں ایسا لگتا ہے کہ کوئی بھی حقیقت کو بیان نہیں کرنا چاہتا ہے۔ لیکن ہمیں بھی نہیں معلوم ہے کہ حقیقت کیا ہے۔ صرف یہ واضح ہے کہ اس حملے میں کن افراد کی اموات واقع ہوئی ہیں۔
کیا ایم ایس ایف کو ایسا لگتا ہے کہ یہ حملہ پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت کیا گیا، تاکہ ہسپتال کے ایمرجنسی روم اور ٹراما سینٹر کو تباہ کیا جاسکے؟ دوسرے حصوں پر بمباری کیوں نہیں کی گئی؟ ایک گھنٹے کی بمباری صرف ان حصوں پر کیوں؟
ہم جاننا چاہتے ہیں کہ کیا ہوا۔ ہم اپنے ساتھیوں کی خاطر تمام تفصیل سے آگاہ ہونا چاہتے ہیں۔ کیونکہ افغانستان کے ایک حصے میں حملہ ہوچکا ہے، تو ہم کیسے یقین کریں کہ دوسری جگہوں میں ایسا نہیں ہوگا؟ ہمارے پاس صرف سوالات ہیں: کیا یہ واقعی ایک غلطی تھی؟ کیافوج کے عہدوں میں کوئی مسئلہ تھا؟
جینیوا کنوینشن کے مطابق زیر استعمال ہسپتالوں کو جنگوں کے دوران نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا ہے۔ اور اگر کوئی ایسا کرے تو اسے جنگی جرائم میں شمار کیا جاتاہے۔
سوال : کیا وزارتِ صحت کے ہسپتال میں ٹراما اور ہنگامی حالات کی سہولیات نہیں تھیں؟
ڈاکٹر میتھیلڈ بیرتھلوٹ: سرکاری ہسپتال 200 بستروں پر مشتمل تھا، لیکن آپریشن کے لئے مختص بستروں کی تعداد ہماری طرح 100 نہیں تھی۔ آرتھوپیڈک سرجری کی خدمات صرف ہم مہیا کر رہے تھے، سرکاری ہسپتال کے پاس یہ سہولت موجود نہیں تھی۔ جنگ کے دوران آپ کو آرتھوپیڈک (ہڈی جوڑ) آپریشن کی شدید ضرورت ہوتی ہے، لیکن ان کے پاس ایم ایس ایف کے پاس موجود سہولیات کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھا۔
سوال : اب یہ لوگ کہاں جائیں گے؟
ڈاکٹر میتھیلڈ بیرتھلوٹ: ہم نے 3 اکتوبر کو ہفتے کے دن اپنی ٹیم قندوز سے نکال دی ہے۔ ہم نے زخمیوں کو فورا افغانستان میں موجود دیگر ہسپتالوں میں منتقل کر دیا ہے۔ لیکن ہم نے قندوز میں موجود ہسپتال کو چھوڑ دیا ہے کیونکہ اب وہ قابلِ استعمال نہیں رہا ہے۔ آپریشن کی سہولیات تباہ ہو چکی ہیں، اور بموں نے عمارت کو زمین بوس کر دیا ہے۔ ٹراما سینٹر، اور انتہائی نگہداشت کا مرکز بھی تباہ ہو چکے ہیں۔ اب وہاں کوئی چیز قابلِ استعمال نہیں ہے اور وہاں کام کرنا اب ناممکن ہو چکا ہے۔
اب علاقے میں صرف وزارتِ صحت کا ہسپتال موجود ہے لیکن وہ جنگ کی وجہ سے مریض داخل کرنے سے قاصر ہیں۔ ان کے پاس بجلی نہیں ہے، اور ان کے پاس ادویات کی کھیپ بھی موجود نہیں ہے۔ وزارتِ صحت کے بہت سارے ملازمین بھی شہر کو چھوڑ چکے ہیں کیونکہ وہ غیر محفوظ تھے۔ وزارتِ صحت کے ہسپتال میں کام بالکل بھی نہیں ہورہا ہے۔
قندوز میں جو کچھہ ہم کر رہے تھے، آج وہ صلاحیت کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔اگر جنگ جاری رہتی ہے تو ٹراما سے دوچار افراد، زخمیوں، کی مدد کرنے کے لئے کوئی سہولت موجود نہیں ہے۔ اندازہ لگائیں کہ تین لاکھ نفوس پر مشتمل شہر اور دس لاکھ کی آبادی والے صوبے میں زخمیوں کی مدد کرنےوالا کوئی بھی نہیں ہے۔ پورے صوبے میں جنگ جاری ہے۔ اس صورتِ حال میں مقامی آبادی کےلئے کسی بھی ہسپتال کے نہ ہونے کے خوفناک نتائج ہوسکتے ہیں۔
مجھے نہیں معلوم کہ ہم وہاں واپس جائیں گے یا نہیں، کیونکہ ہمارے حفاظت اور تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ ہم شاید ہسپتال کو دوبارہ تعمیر کربھی لیں، لیکن اپنے ساتھیوں کو واپس نہیں لاسکتے ہیں۔.
سوال : کیا آپ کو لگتا ہے کہ افغان حکومت اپنی شہریوں کو جنگ زدہ علاقے میں ہنگامی طبی خدمات سے محروم کر کے ان کے قتل کے جرم میں شریک ہونا چاہےگی؟
ڈاکٹر میتھیلڈ بیرتھلوٹ: ہم تمام ممکنات کے بارے میں سوچ رہے ہیں، لیکن میں ایسے لوگوں کا تصور بھی نہیں کرسکتی ہوں شعوری طور پر جان بوجھ کر ایسا کریں گے۔ شاید انسان اس قابل ہے کہ اپنے دشمنوں کو سزا دینے کے لئے ایسے غیر انسانی کام کر سکے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے دوران فرانس میں ایسے مقامات تھے جہاں پر ہسپتالوں پر بمباری کی گئی۔ یہ سب آج یمن اور شام میں بھی ہورہا ہے۔ بعض اوقات لوگ سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹرز بھی جنگ میں ملوث ہیں۔ بطور ڈاکٹر میں یہ چیز نہیں سمجھ پائی ہوں، کیونکہ یہ پیشہ غیر جانبداری سے متعلق ہے۔
ترجمہ: نور پامیری