ذمہ دارانہ اختتام؟
افغان فورسز کے لیے گذشتہ دو ہفتے نہایت مشکل رہے ہیں؛ سکیورٹی حالات پر ان کی گرفت مضبوطی کے قریب بھی نہیں ہے۔ نیٹو کے فضائی حملوں کی مدد کے بغیر افغان طالبان کو شکست دینے کی ان کی صلاحیت مشتبہ ہے۔ جنگ زدہ شمالی علاقے میں افغان فوج کی ناکامی نے کابل کی جنگی حکمتِ عملی میں موجود کمزوریوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قابلیت کو فاش کر دیا ہے۔
قندوز شہر میں طالبان نے پچھلے 15 سالوں میں اپنی سب سے بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ علی الصبح وہ شہر میں داخل ہوئے اور فوج، پولیس اور انٹیلیجنس اہلکاروں کے پسپا ہونے پر دوپہر تک شہر پر قبضہ کر لیا۔ قندوز کا طالبان کے ہاتھ میں جانا کابل کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے۔
اس حیرت انگیز فوجی ناکامی نے افغان فورسز کی طالبان سے نمٹنے کی قابلیت کی قلعی کھول دی ہے جو آئندہ چند مہینوں میں مزید مضبوط ہوں گے۔ دوسری جانب علاقوں کے طالبان کے ہاتھ میں چلے جانے سے اشرف غنی کی انتظامیہ کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا، جو اپنا اصلاحات کا پرعزم ایجنڈا نافذ کرنے میں ناکام ہیں۔ صدر کے لیے ایک بڑی مشکل یہ بھی ہے کہ قریبی صوبہ بغلان، اور جوزجان کا ضلع زر آب بھی پکے ہوئے سیب کی طرح طالبان کی جھولی میں گرنے والے ہیں۔
نیٹو کے جنگی مشن کے اختتام کے دس ماہ بعد بھی سرکاری فورسز عالمی افواج کی فضائی مدد پر بہت حد تک منحصر ہیں۔ فوج کے سکڑتے ہوئے حجم، اموات کی بڑھتی ہوئی تعداد اور طالبان کے تیز ہوتے ہوئے حملوں نے فوج اور پولیس کی طاقت کو بالکل ختم کر دیا ہے۔
مقامی افسران کو قندوز میں طالبان کارروائی کی کئی ماہ پہلے سے اطلاع تھی مگر انہیں اس کی کوئی فکر نہیں تھی۔ نہ صرف یہ کہ وہ دہشتگردوں کے حملے کے خلاف حفاظتی اقدامات کرنے میں ناکام رہے، بلکہ جب شہر پر حملہ ہوا تب وہ اس سے لاعلم تھے۔
شہر کو واپس حاصل کرنے کے لیے کئی گھنٹوں بعد جب فوجی آپریشن شروع کیا گیا تو بدخشاں، بغلان، تخر اور قندوز میں پانچ مزید ضلعوں میں جنگجوؤں کے داخل ہونے کی خبریں سامنے آئیں۔ خود میں جنگجوؤں کا مقابلہ کرنے کی سکت نہ دیکھتے ہوئے سکیورٹی اہلکاروں نے بھاگ جانے میں ہی عافیت سمجھی۔
اور بھاگ جانے والی اس فوج کی اپنے اقدام کے حق میں دلیل یہ تھی کہ انہوں نے شہریوں کو ہلاکت سے بچانے کے لیے ایسا کیا۔ حقیقت میں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اس کے بجائے اس غلط اقدام کی وجہ سے اطلاعات کے مطابق کئی مزید شہر طالبان کے قبضے میں چلے گئے۔
یوں تو اب جوابی حملے میں زیادہ تر جنگجوؤں کو نکال دیا گیا ہے، مگر قندوز کے کئی حصوں پر اب بھی 'نئے حکمران' قابض ہیں۔ بیرونی فوجیوں کے انخلاء کے بعد دراندازی کو روکنے میں حکومت کی مشکلات اس شہر کے قبضے سے واضح ہیں۔ یہ طالبان کے لیے نہایت حوصلہ افزاء ہے کیونکہ انہیں اپنے روایتی گڑھ مشرق اور جنوب کے علاوہ اب شمال میں ایک اہم جگہ پر قبضہ مل گیا ہے۔
قندوز شہر، جو طالبان کی جانب سے 2001 میں خالی کیا گیا آخری شہر تھا، پر طالبان کے قبضے کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ یہ قومی اتحادی حکومت کو ایک سال مکمل ہونے پر ہوا۔ صرف کچھ سو جنگجوؤں نے 7 ہزار افغان فوجیوں کو کچھ ہی گھنٹوں میں شکست دے ڈالی۔
شہر پر قبضہ بھلے ہی کچھ دن کے لیے ہو، لیکن یہ جنگجوؤں کے لیے ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ جنگجوؤں نے بینکوں کی تجوریاں خالی کر دیں جبکہ جدید اسلحہ اور بکتر بند گاڑیاں چھین کر لے گئے۔ اس زبردست جیت نے نئے طالبان رہنما ملا اختر منصور کی طاقت اور عزم میں اضافہ کیا ہے۔
تحریک کے اندر اور باہر موجود انہیں کمزور سمجھنے والے لوگ بھی اب یہ بات ماننے پر مجبور ہیں کہ ملا منصور ملک کے دوسرے حصوں میں بھی ایسی ہی جنگی کامیابیاں دلوا سکتے ہیں۔ ان کی قیادت میں اب اس گروہ کے پاس دولتِ اسلامیہ پر اپنی برتری کا اظہار کرنے کی وجہ موجود ہے۔
زوال پذیر تجارتی مرکز قندوز ایک عرصے سے خراب حکمرانی، نااہلی، سکیورٹی اداروں اور شہریوں کے درمیان چپقلش، کمزور اداروں اور عدم تحفظ سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وسط ایشیاء اور روس تک منشیات کی اسمگلنگ کے روٹ پر واقع یہ شہر کئی صوبوں کے سنگم پر واقع ہے اور اس کی سرحد تاجکستان کے ساتھ لگتی ہے۔
ملک میں 14 سال تک مضبوط بین الاقوامی افواج کی موجودگی کے باوجود عرب، ازبک، چیچن، اوئیغور، پاکستانی اور کئی دیگر طرح کے جنگجو قندوز کے دیہی علاقوں میں موجود ہیں۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ قندوز کا طالبان کے ہاتھ میں جانا کھیل تبدیل کر سکتا ہے کیونکہ اشرف غنی کی اپنے مسلح مخالفین کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی برباد ہو چکی ہے۔ خوشگوار تجزیے جن کے مطابق غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان خود کو جنگجوؤں سے بچا پائے گا، غلط ثابت ہو چکے ہیں۔
اس پورے تناظر سے ایک بات اور واضح ہے کہ کس طرح اقوامِ عالم نے افغانستان کو نظر انداز کیا ہے، جسے 1989 میں سوویت یونین کے انخلاء کے بعد بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا تھا۔ صدر اوباما کے امریکی فوجیوں کو اچانک واپس بلانے کے ٹائم ٹیبل کا جائزہ لیا جائے، تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ "اچھائی کے لیے لڑی گئی جنگ" ایک ذمہ دار اختتام کو پہنچی ہے؟
لکھاری پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک فری لانس صحافی ہیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 4 اکتوبر 2015 کو شائع ہوا۔