جس دن بالاکوٹ کی موت ہوگئی
یہ ہفتے کا دن تھا، رمضان کا مہینہ، اور بی بی سی اسلام آباد میں میری ہفتہ وار تعطیل تھی۔ صبح 8 بج کر 50 منٹ پر زلزلے کے ایک جھٹکے نے مجھے بستر سے باہر نکال پھینکا۔ تھوڑی ہی دیر میں ٹی وی چینلز پر مارگلہ ٹاورز کے منہدم ہوجانے کی خبریں چلنا شروع ہوگئیں۔ میں فوراً اس جگہ پہنچا تو دیکھا کہ میرے ساتھی صحافی وہاں پہلے ہی پہنچ چکے تھے، چنانچہ میں گھر واپس آگیا۔ اس وقت تک اموات کی تعداد 20 تھی۔
11 بجے کے قریب مجھے بی بی سی کے دفتر سے فون آیا اور مجھے فوری طور پر دفتر پہنچنے کی ہدایت کی گئی۔
میں وہاں پہنچا تو ایک گاڑی مجھے زلزلے سے متاثرہ شمالی علاقوں تک لے جانے کے لیے تیار کھڑی تھی۔ کسی کو بھی یہ معلوم نہیں تھا کہ کتنی تباہی ہوئی ہے کیونکہ مواصلاتی نظام مکمل طور پر تباہ ہو چکا تھا۔
اس بدقسمت دوپہر میں شمال کی جانب نکلا تو مجھے معلوم نہیں تھا کہ میں بالاکوٹ کی تباہی رپورٹ کروں گا، جہاں ایک دن میں دس ہزار اموات ہو چکی تھیں۔ حکومت میں کسی کو یہاں ہونے والی تباہی کا ذرا بھی اندازہ نہیں تھا۔
تباہی کے آثار ایبٹ آباد سے ہی نظر آنے شروع ہوگئے تھے جہاں میں افطار کے لیے رکا تھا۔ زیادہ تر لوگوں نے مجھے مانسہرہ جانے کے لیے کہا۔
میں نے افطاری وہیں چھوڑی اور مانسہرہ کی راہ لی جہاں ضلع کا مرکزی ہسپتال پہلے ہی اپنی استعداد سے دوگنا زخمیوں اور لاشوں کو سنبھالے ہوئے تھا۔ ہسپتال کے پاس عارضی کیمپ قائم کیے گئے تھے۔ وہاں کئی لوگوں نے مجھے بتایا کہ سب سے زیادہ تباہی بالاکوٹ میں ہوئی ہے مگر مانسہرہ سے آگے کی سڑک مکمل طور پر تباہ ہو چکی تھی اس لیے میں نے پیدل جانے کا فیصلہ کیا۔
میں رضاکاروں کے ایک گروہ میں شامل ہوگیا جو بالاکوٹ جا رہے تھے۔ جب ہم اپنی منزل تک پہنچے تو رات کی سیاہی چاروں طرف پھیل چکی تھی۔ تقریباً تمام گھر منہدم ہو چکے تھے جبکہ ہزاروں لوگ ملبے تلے دبے ہوئے تھے۔
ایک چوک پر زخمی اور مردہ میرے سامنے پڑے تھے، لوگ میرے سامنے دم توڑتے رہے۔ ایک مقامی رہنما نے مجھے بتایا کہ کوئی مدد اب تک نہیں پہنچی تھی۔
کئی لوگوں نے مجھ سے پوچھا کہ اگر میں بالاکوٹ پہنچ سکتا ہوں تو امدادی ٹیمیں اور فوج اب تک کیوں نہیں پہنچی ہے؟ مجھے جھوٹ بولنا پڑا کہ وہ بس پہنچ ہی رہے ہیں، جبکہ مجھے کسی امدادی منصوبے کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔
میں نے شہر کا چکر لگانا شروع کیا تو کچھ والدین مجھے ایک جگہ لے گئے جہاں کبھی مقامی کالج ہوا کرتا تھا اور اب ملبے کا کا ڈھیر بن چکا تھا۔ سامنے عمارت کا ایک بڑا ٹکڑا پڑا تھا، جو کہ چھت کا حصہ تھا۔ مقامی لوگ نہایت پریشانی کے عالم میں اسے ہاتھ آنے والی ہر چیز یہاں تک کہ پتھروں سے کاٹنے کی کوشش کر رہے تھے، مگر کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ ملبے کے نیچے سے مجھے بچوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ جب میں ملبے کے قریب گیا تو پیچھے سے ایک خاتون چلائیں: "پیچھے ہٹو، میرا بچہ اندر ہے۔" میں فوراً واپس آگیا؛ وہ چیخ اب تک میرے کانوں میں گونجتی ہے۔
اگلے چند گھنٹے عذاب تھے۔ میں بچ جانے والوں کی دہائیاں ریکارڈ کرتا رہا۔ پھر میں مانسہرہ کے لیے نکل گیا، اسلام آباد واپس آیا، زلزلے کے بارے میں رپورٹ کیا، اور اگلی صبح ایک بار پھر بالاکوٹ کے لیے نکل گیا۔
اگلی صبح تک بھی کوئی امدادی ٹیم نہیں پہنچی تھی، مگر آس پاس کے دیہاتوں سے لوگ خوراک، کپڑوں اور دواؤں کے ساتھ پہنچ رہے تھے۔ چند فوجی اہلکار وہاں پر تباہی کا جائزہ لینے پہنچے تو لوگوں نے انہیں گھیر لیا اور ان سے اپنے پیاروں کو بچانے کی التجائیں کرنے لگے، اس وقت تک زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی اور شاید کچھ لوگ زندہ ہو سکتے تھے۔
مگر انہیں صاف الفاظ میں بتا دیا گیا کہ یہ ٹیم صرف سروے کے لیے آئی ہے اور امداد تب تک نہیں آ سکتی جب تک کہ وہ تباہی کی رپورٹ نہ تیار کریں۔ لوگ غصے میں آ گئے اور نعرے بازی شروع ہوگئی، جو جلد ہی ماتمی صداؤں میں تبدیل ہوگئی کیونکہ فوجی اہلکار اس دن زیادہ کچھ کیے بغیر ایبٹ آباد میں اپنے بیس کیمپ روانہ ہو چکے تھے۔
زلزلے کے چند ماہ بعد اس وقت کی حکومت نے 'نیو بالاکوٹ سٹی' آباد کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا اور اس کے لیے زمین بھی مختص کی۔ دس سال گزرنے کے باوجود بہت کم لوگ ہی نئے شہر منتقل ہوئے ہیں۔ بالاکوٹ میں آج زندگی معمول کے مطابق چل رہی ہے اور مقامی لوگ سیاحوں کا گرمجوشی سے استقبال کرتے ہیں۔ سیاح ناران جاتے ہوئے دوپہر کا کھانا کھانے کے لیے اکثر یہاں رکتے ہیں۔
اس ڈیوٹی نے مجھے زندگی بھر کے لیے جذبات سے عاری کر دیا۔ ستر ہزار لوگوں کی جان لینے والے زلزلے سے زیادہ بڑی آفت کوئی نہیں ہو سکتی۔ اس کے بعد میں نے دہشتگردوں کے ہاتھوں سوات، فاٹا اور اسلام آباد میں بے رحم قتل و غارت کی رپورٹنگ سپاٹ چہرے کے ساتھ کی۔ پاکستان میں ایک صحافی کی زندگی یہی ہے۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 8 اکتوبر 2015 کو شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں