• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

سرمایہ جیتے گا

شائع October 7, 2015 اپ ڈیٹ October 9, 2015
سرمائے کی طاقت سے لڑے جانے والے انتخابات میں سیاسی نظریات کی موت ہوچکی ہے اور نظریہ ضرورت ہی سکہء رائج الوقت ہے۔ — خاکہ خدا بخش ابڑو۔
سرمائے کی طاقت سے لڑے جانے والے انتخابات میں سیاسی نظریات کی موت ہوچکی ہے اور نظریہ ضرورت ہی سکہء رائج الوقت ہے۔ — خاکہ خدا بخش ابڑو۔

پاکستان میں سیاست، سیاسی جماعتیں اور سیاست میں عملی حصہ لینے والے کرداروں میں سے ہر وہ کردار زیادہ بااثر ہو کر اُبھرا جس کی پشت پر سرمائے کی طاقت تھی، اور یہ رجحان گزشتہ ایک دہائی کی سیاست میں مزید تیزی سے سامنے آیا ہے۔ پاکستان میں رائج سیاسی تصورات میں سرمائے کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اور اس کا آغاز سیاسی جماعتوں سے ٹکٹ کی خریداری، جس کو ٹکٹ فیس اور پارٹی ڈونیشن کے جیسے نام دیے جاتے ہیں، سے لے کر انفرادی طور پر سیاسی مہم جوئی میں خرچ ہونے والے پیسوں تک جاری رہتا ہے۔

لاہور کے حلقہ این اے 122 میں ضمنی انتخابات میں دو بڑی سیاسی جماعتیں میدان میں اپنے اپنے تگڑے اُمیدواروں کو اُتار چکی ہیں۔ مسلم لیگ نواز کا تگڑا اُمیدوار 2013 میں انتخابات جیت کر قومی اسبملی میں اسپیکر کی نشست پر براجمان ہوا اور پاکستان تحریکِ انصاف کے موجودہ اُمیدوار عبد العلیم خان اسی حلقے سے مسلم لیگ ق کے دور میں وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ یہ حلقہ ان دونوں اُمیدواروں کا آبائی سیاسی حلقہ ہے اور تین ہفتوں سے جاری انتخابی مہم کو دیکھ کر بہت سے حقائق واضح ہوئے ہیں۔ سیاست میں پیسے کی چمک کس طرح سے ووٹرز کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے، اس کا عملی مظاہرہ اس حلقے میں ضمنی انتخاب کی تیاری سے ہوتا ہے۔

لاہور کے علاقے دھرم پورہ سے لے کر گڑھی شاہو، شادمان، اچھرہ، ریلوے اسٹیشن، اپر مال روڈ تک جگہ جگہ پاکستان تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ نواز کے اُمیدواروں کے بڑے بڑے بینرز، فلیکس، پوسٹرز، گاڑیوں پر اشتہارات، رکشوں کی پشت پر رہنماؤں کی تصاویر سے لے کر گلی محلوں میں کھلنے والے ایک ایک دفتر میں ہونے والے تمام اخراجات اُمیدوار براہ راست خود برداشت کر رہے ہیں۔

اس وقت لاہور کا یہ حلقہ سیاسی گہما گہمی کا مرکز اور رنگ برنگی تصویروں سے سجا ہوا ہے لیکن اس سجاوٹ کے پیچھے وہ سرمایہ ہے جو ان اُمیدواروں کی جیب سے خرچ ہو رہا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اگر دونوں سیاسی جماعتوں کے کارکن سیاسی دفاتر کھولیں تو ان دفاتر کے لیے کرایہ، کُرسیوں کی خریداری اور روز مرہ کی بنیاد پر دس ہزار روپے چائے پانی کا خرچ بھی اُمیدواروں کی جیب سے ہی ادا ہو رہا ہے۔

مجھے انتہائی معزز شخصیات نے ایک امیدوار کے حوالے سے براہ راست بتایا ہے کہ اگر کوئی شخص سات ووٹوں کی یقین دہانی کروائے گا تو اُسے ایک موٹر بائیک بھی اُمیدوار کی جانب سے خرید کر تحفے میں دی جائے گی بشرطیکہ اگر وہ جیتا۔ سرمائے کی طاقت نے ووٹوں کو خریدنے کا عمل صرف یہیں تک نہیں محدود رکھا بلکہ حلقے میں خطِ غربت سے نیچے کی زندگی گزارنے والے ووٹرز کے گھروں کا راشن پانی بھی انہیں اُمیدواروں کی جیب سے جا رہا ہے۔

غربت کا سیاسی استحصال کرنے کا یہ بہترین موقع ہے کہ انہیں چند ہزار روپوں کے عوض خرید کر جیتنے کی راہ ہموار کی جائے۔ سیاسی میدان میں جیت کے لیے اُمیدوار کسی مقصد کے تحت یہ کروڑوں روپے حلقے میں ووٹرز پر نچھاور کرتا ہے، لیکن ہمارا بے شعور ووٹر ابھی اس کو سمجھنے سے عاری ہے۔

حکمران سیاسی جماعت کی جانب سے بے روزگار نوجوانوں کو نوکری کا لالچ دیا جا رہا ہے۔ سرمائے کی طاقت کی بناء پر غریبوں کی غربت کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور اس سیاسی جنگ کو سرمائے کی چمک نے اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔ لاہور کے اس ضمنی انتخاب کو حکمران جماعت نے اپنی سیاسی زندگی اور سیاسی موت تصور کر رکھا ہے اور اس کے لیے حکومتی وسائل بھی بھرپور طریقے سے استعمال ہو رہے ہیں۔

وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے بیٹے حمزہ شہباز خود اس حلقے میں سیاسی مہم جوئی کرنے کے لیے کودے ہیں اور ان کے ساتھ سرکار کا تعلقات عامہ کا شعبہ بھی متحرک ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ وفاق سے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار، وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور لاہور میں موجود تمام ممبرانِ قومی اسمبلی کو بھی یہ ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ حلقے میں متحرک ہوں جس کے لیے یہ تمام موصوف سرکاری فنڈز اور وسائل کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں۔ حکمران جماعت نے اپنی طاقت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے حلقے کی تمام سیاسی مہم جوئی کو پاکستان ٹیلی ویژن پر براہ راست دکھانے کا ٹھیکہ بھی لے لیا ہے، لیکن یہ ٹھیکہ بلامعاوضہ ہے کیونکہ سارے اخراجات عوامی ٹیکسوں سے ہی پورے کیے جائیں گے۔

سرمائے کی طاقت کے بل بوتے پر لڑے جانے والے اس انتخاب میں سیاسی نظریات کی موت ہو چکی ہے اور نظریہ ضرورت ہی سکہء رائج الوقت ہے۔ تگڑا سیاسی پہلوان وہی ہے جس کے پاس پیسوں کی ریل پیل ہے اور وہ اس پیسے سے ووٹرز کی وقتی ضروریات کو پورا کرنے کی سکت رکھتا ہے۔

اس ساری سیاسی مہم جوئی سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جمہوری حکومتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ عوام کو غربت کی لعنت اور بے روزگاری کی مصیبت میں مبتلا رکھیں کیونکہ یہی ان کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ یہ جمہوریت جمہور میں سے اُن افراد کے مجموعے پر مشتمل ہے جو سرمائے کی طاقت رکھتے ہیں، جمہوریت کے نام پر ووٹوں کو اس انداز میں خریدنے کا تعلق بھی معاشی طاقت سے ہے۔

سیاسی جماعتوں کی اسی حکمت عملی کی بناء پر اس جمہوریت کو سرمایہ دارانہ جمہوریت ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے، اور برحق دیا جاتا ہے کیونکہ اس میں جمہور، یعنی غریب اور متوسط طبقے کی نمائندگی صنعت کاروں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا وہ ٹولہ کر رہا ہے جس نے جمہوریت کے نام پر اس ملک کے عوام کو غربت، بے روزگاری، بدامنی، دہشت گردی، سماجی انتشار، بھوک اور قتل و غارتگری کے سوا کچھ نہیں دیا۔

اکمل سومرو

اکمل سومرو سیاسیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں akmalsoomroCNN@

ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (4) بند ہیں

نجیب احمد سنگھیڑہ Oct 07, 2015 07:37pm
جمہوریت اک طرزحکومت ہے کہ جس میں، بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔ ووٹ کی خرید و فروخت وہاں پر ہوتی ہے جہاں پر لوگوں کا شعور اسقدر بلند نہ ہو کہ وہ کھرے اور کھوٹے میں فرق کر سکیں اور لانگ ٹرم منصوبہ بندی کی اہمیت نہ سمجھتے ہوں۔ پاکستان پیپلز پارٹی ایک ایسی جماعت ہے جس کے سپورٹرز ووٹ کی خرید و فروخت نہیں کرتے اور ووٹ جذباتی طور پر کاسٹ کرتے تھے یا ہیں۔ آج پیپلز پارٹی کا پنجاب میں صفایا ہو گیا ہے لیکن اس کے ووٹر کہاں گئے؟ یہ وہ واحد پارٹی ہے جس کے ووٹرز اگر پارٹی سے ناراض ہوں تو ووٹ نہ پارٹی کو دیں گے اور نہ کسی اور جماعت کو۔ پیپلز پارٹی کی اہمیت اس لیے ختم ہو گئی ہے کیونکہ آج کی نسل ضیاء ازم کی چھتری تلے پروان چڑھی ہے۔ لیکن میں بھی تو اسی نسل کے تحت پروان چڑھا ہوں پھر پیپلز پارٹی کو ہی ووٹ کیوں دیتا ہوں؟ صرف اس وجہ سے کہ ضیاءازم کا اثر نہیں لیا اور ضیائی اساتذہ اگر سامنے آتے تو ابا جی میرے سکول کی کلاس کا سیکشن تبدیل کروا دیتے تھے۔ سبحان اللہ! :)
Tallal Raza Oct 07, 2015 11:20pm
The democracy in Pakistan is so-called democracy just for "Haves" and Lord Acton rightly said "power corrupts and absolute power corrupts absolutely" so the distribution of power should be balancing and process of accountability should be improved. but the main problem is people's ignorance , and for that, we have to wait a long way to go. media can be crucial if it ignores it interest.
Imran Oct 08, 2015 05:45am
پیپلز پارٹی نے اندرون سندھ میں لوگوں کو جاہل رکھا ہے اگر زمیندر کہتاہے کہ بھٹو کو ووٹ دو تو وہ کسی اور کو ووٹ نہیں دیتے
Rehan Oct 08, 2015 10:45am
Dear Akmal , Though i am a supporter of PML(N)but its a matter of time that we as nation been ignored socially ,morally,economicaly by our all political parties.i have feeling like if you are good in acting you can be a good politicion as how we can see now adays in this election campaign which is gonna held in lahore (NA-122).Politicians will prepare their Speaches to catch voter hearts by promising to solve their problems.but in real we never see any politician who even stayed in the constituancy after wining the election most of them went to islamabad. Until when these politicians will play with our nation , If i am not wrong i heard its written in "Quran" Leaders will be imposed on nations as their deeds. we as nation must improve ourself first if we really want "CHANGE" or "NAYA PAKISTAN"

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024