ڈاکٹر عاصم کو مرضی کی طبی سہولیات کا حکم
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے رینجرز کو سابق وفاقی وزیر پیٹرولیم اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن سندھ کے چیئرمین ڈاکٹر عاصم حسین کو اُن کی مرضی کی طبی سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت کردی ہے.
گذشتہ روز ڈاکٹر عاصم حسین کی اہلیہ زرین حسین کی جانب سے ان کو ہسپتال سے ڈسچارج کرنے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی.
جسٹس سرمد جلال عثمانی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے ڈاکٹر عاصم حسین کو ہسپتال سے ڈسچارج کرنے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران ڈاکٹر عاصم حسین کی اہلیہ کے وکیل عابد زبیری نے موقف اختیار کیا کہ سندھ ہائی کورٹ نے رینجر حکام کو ہدایت کی تھی کہ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر عاصم کی صحت ٹھیک ہے اور رینجرز حکام مطمئن ہیں تو وہ انہیں اپنے ہمراہ لے جا سکتے ہیں، جس پر رینجرز حکام ڈاکٹر عاصم کو اپنے ہمراہ لے گئے .
عابد زبیری کے مطابق ان کے موکل کو میڈیکل بورڈ کی تسلی کے بغیر ڈسچارج کرایا گیا جبکہ انھیں مناسب طبی سہولیات بھی فراہم نہیں کی جارہیں.
جس پر جسٹس سرمد جلال عثمانی نے استفسار کیا کہ کیا ڈاکٹر عاصم رینجرز کے پاس محفوظ نہیں ہیں، اس سے قبل بھی کراچی میں اہم مقدمات کے گواہان کو قتل کیا گیا ہے، آپ کے خیال میں ڈاکٹر عاصم کو ہسپتال میں دی جانے والی سیکیورٹی کی سہولیات ٹھیک ہیں تو ہم اُن کو ہسپتال منتقل کرنے کی ہدایات جاری کر دیتے ہیں.
عابد زبیری نے عدالت کے روبرو کہا کہ رینجرز کی تحویل میں ڈاکٹر عاصم کو بہتر طبی سہولیات نہیں مل رہیں.
جس پر عدالت نے وفاق، سندھ حکومت اور رینجرز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے رینجرز کو ڈاکٹر عاصم کو علاج کی بہترین سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت کردی.
بعد ازاں کیس کی سماعت 8 اکتوبر تک ملتوی کر دی گئی.
ڈاکٹر عاصم کا علاج: 'اہلخانہ کے الزامات بے بنیاد'
اس سے قبل سابق وفاقی وزیر پیٹرولیم اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن سندھ کے چیئرمین ڈاکٹرعاصم حسین کو طبی سہولیات فراہم نہ کرنے کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر رینجرز نے سندھ ہائی کورٹ میں جواب جمع کرادیا۔
یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے ڈاکٹر عاصم حسین کے اہلخانہ نے سندھ ہائی کورٹ میں رینجرز کے خلاف توہینِ عدالت کی درخواست دائر کی تھی، جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ رینجرز کی جانب سے ان کے شوہر کو مناسب طبی سہولیات فراہم کرنے سے متعلق عدالتی حکم پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا.
مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران رینجرز کے قانونی افسر کرنل امجد نے جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ کے سامنے جواب جمع کرایا، جس میں ڈاکٹر عاصم کے اہلخانہ کی جانب سے رینجرز پر لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر موقف اختیار کیا گیا کہ ڈاکٹر عاصم کو رینجرز کی تحویل میں مناسب طبی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں.
پیرا ملٹری فورس نے اپنے جواب میں کہا کہ رینجرز کے پاس ماہر ڈاکٹر اور آلات موجود ہیں اور ڈاکٹر عاصم کو ہر قسم کی ادویات اور علاج فراہم کیا جارہا ہے.
مزید پڑھیں:دل میں تکلیف، ڈاکٹر عاصم ہسپتال منتقل
سماعت کے دوران ڈاکٹر عاصم کے وکیل کی جانب سے جواب داخل کرنے کی مزید مہلت مانگی گئی، جس پر عدالت نے کیس کی سماعت 13 اکتوبر تک ملتوی کردی اور ڈاکٹر عاصم کے وکیل کو ہدایت کی کہ وہ آئندہ سماعت پر اپنا جواب داخل کرائیں.
یاد رہے کہ ڈاکٹر عاصم حسین کو رواں برس 26 اگست کو اُس وقت حراست میں لیا گیا تھا جب وہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن سندھ کے ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں : ایچ ای سی چیئرمین ڈاکٹر عاصم حسین 'زیرِحراست'
27 اگست کو رینجرز نے انھیں کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کرکے 90 روز کا ریمانڈ حاصل کیا تھا.
بعد ازاں 29 اگست کو رینجرز نے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں سابق وفاقی وزیر پیٹرولیم اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) سندھ کے چیئرمین ڈاکٹر عاصم حسین کی میڈیکل رپورٹ پیش کی تھی جس میں ان کو صحت مند قرار دیا گیا تھا۔
رینجرز کے افسر نے عدالت کو بتایا تھا کہ ڈاکٹر عاصم حسین میٹھا رام ہسپتال کی ذیلی جیل میں زیرِ حراست ہیں جہاں 24 گھنٹے ایک ڈاکٹر اور 2 نرسیں ڈاکٹر عاصم کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں : ڈاکٹر عاصم حسین 90 روز کیلئے رینجرز کے حوالے
واضح رہے کہ ڈاکٹر عاصم حسین، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف زرداری کے قریبی ساتھی ہیں اور ان کی گرفتاری کو کراچی میں جاری آپریشن کے دوران پیپلز پارٹی قیادت کے خلاف پہلا بڑا ایکشن قرار دیا گیا.
ڈاکٹر عاصم حسین کی تمام اراضی کے ماسٹر پلان اور ان اراضیوں پرتعمیرات کی قانونی حیثیت کی جانچ پڑتال جاری ہے اور کراچی میں ان کے تمام ہسپتالوں کی تفصیلات بھی کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) سے طلب کی جاچکی ہیں.
ڈاکٹر عاصم حسین 2009 میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر سندھ سے سینیٹر منتخب ہوئے، انھوں نے 2012 تک وزیر پیٹرولیم و قدرتی وسائل اور وزیراعظم کے مشیر برائے پیٹرولیم کے فرائض انجام دیئے.
2012 میں وہ سینیٹ سے اس وقت مستعفی ہو گئے تھے جب سپریم کورٹ نے دہری شہریت پر اراکین پارلیمان کو نا اہل قرار دیا تھا، ذرائع کا کہنا تھا کہ ان کے پاس کینیڈا کی بھی شہریت تھی۔
پیپلز پارٹی نے 2013 کے عام انتخابات کے بعد انھیں سندھ کے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا چیئرمین مقرر کیا تھا۔
تبصرے (1) بند ہیں