ضلع سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے مغرب کی جانب 6.6 کلومیٹر کی مسافت پر اوڈیگرام کے علاقے میں واقع سلطان محمود غزنوی کی ایک ہزار سال پرانی مسجد اس وقت کے فنِ تعمیر کا شاہکار ہے۔ اس کی چھت زمین سے 30 فٹ اونچی ہوا کرتی تھی۔ ماہانہ دو ہزار سے زائد سیاح آج بھی ملک کے کونے کونے سے اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔
تاریخ کے اوراق سے گرد ہٹائیں تو پتہ چلتا ہے کہ سلطان محمود غزنوی نے دو نومبر بروز منگل سنہ 971ء کو سبکتگین کے ہاں غزنی میں آنکھ کھولی تھی۔ وہ 997ء سے اپنے انتقال تک سلطنتِ غزنویہ کے حکمران تھے۔ انہوں نے غزنی شہر کو دنیا کے دولت مند ترین شہروں میں تبدیل کیا تھا اور ان کی وسیع سلطنت میں موجودہ مکمل افغانستان، ایران اور پاکستان کے کئی حصے اور شمال مغربی بھارت شامل تھا۔
مسلمان حکمرانوں میں سے وہ پہلے حکمران تھے جنہوں نے 'سلطان' کا لقب اختیار کیا۔ انہوں نے ہندوستان پر 17 بار حملہ کیا۔ انہی حملوں میں سے ایک اس نے راجا گیرا (جو موجودہ شمالی پاکستان کے علاقوں سوات وغیرہ کا طاقتور اور خوشحال بادشاہ شمار کیا جاتا تھا) کی سلطنت پر کیا۔
مشہور ہے کہ یہاں سلطان محمود غزنوی نے پیر خوشحال کو اپنی فوج کا سپہ سالار بنا کر ایک بڑی لڑائی لڑی۔ اسی معرکے میں پیر خوشحال بڑی بے جگری سے لڑا اور بالآخر زندگی کی بازی ہار بیٹھا۔ پیر خوشحال اب یہاں سوات میں ہی دفن ہے۔ اس معرکے میں سلطان کے دو بیٹے بھی سدھار گئے تھے اور وہ بھی سوات ہی میں مدفون ہیں۔ ایک خونریز لڑائی کے بعد راجا گیرا کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
راجا کی شکست کے بعد سلطان واپس غزنی چلا گیا اور 30 اپریل 1030ء کو انتقال کر گیا۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ضلع سوات سے واپسی کے وقت یہاں ایک مسجد تعمیر کرنے کا حکم صادر کیا تھا۔
مسجد کے باہر لگے ایک بورڈ پر مسجد کی مختصر تاریخ لکھی گئی ہے جس کے مطابق سلطان محمود غزنوی نے مسجد کی بنیاد 49-1048 میں ڈالی تھی۔ یہ شمالی پاکستان کی سب سے پرانی مسجد مانی جاتی ہے۔ اس کے احاطے سے 1984 میں ایک کتبہ دریافت ہوا تھا جس پر درج تھا کہ محمود غزنوی نے اپنے بھتیجے حاکم منصور کو اس کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔ حاکم منصور نے اپنے سپہ سالار نوشگین کی نگرانی میں اسے تعمیر کیا تھا۔ مذکورہ کتبہ ہاتھ آنے کے بعد ہی اٹلی کے ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے 1984 میں 'سلطان محمود غزنوی مسجد' کو دریافت کیا تھا۔
آج سے ایک ہزار سال پہلے بنائی گئی اس مسجد کا طرزِ تعمیر اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں پر گارڈز مسجد میں داخل ہونے سے پہلے سیاحوں کو ایک بات کی تلقین خاص طور پر کرتے ہیں کہ آپ کو مسجد کے احاطے میں کسی بھی چیز کو ہاتھ نہیں لگانا ہے۔ کیوں کہ اس سے ’’نیچر ڈسٹرب‘‘ ہونے کا احتمال ہے۔ بالفاظ دیگر ایک ہزار سال پہلے جو چیز جہاں رکھی گئی تھی، اگر اسے وہاں سے اٹھایا گیا، تو اس کی فطری کشش میں کمی واقع ہوجائے گی۔
مسجد تعمیر کرتے وقت اس کے صحن کے عین درمیان پانی کا ایک تالاب بنایا گیا تھا جسے آج بھی اسی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اُس دور میں لوگ نماز پڑھنے کی خاطر وضو اسی حوض کے پانی سے کیا کرتے تھے۔ اسی طرح مسجد میں داخل ہوتے وقت اس جگہ کو بھی دیکھا جاسکتا ہے جو پانی کی سپلائی لائن کہلاتی ہے۔ مسجد سے بارش یا پھر وضو کے استعمال شدہ پانی کو نکالنے کا طریقہ بھی اس دور کی انجینیئرنگ کا ایک شاہکار ہے۔
تقریباً ایک اسکوائر فٹ نالی باقاعدہ ایک سیڑھی کی شکل میں بنائی گئی ہے، جس کی مدد سے پانی مسجد کے احاطے سے باہر نکال دیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ مسجد کے ہال میں ایک محراب بھی نمایاں نظر آتی ہے۔ مسجد کی دیواریں عام پتھروں سے بنائی گئی ہیں۔ قبلہ رو کھڑے ہو کر بائیں جانب کی دیوار تیس فٹ اونچی ہے، یعنی آج کی تعمیرات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ کسی بھی تین منزلہ عمارت جتنی اونچی دیوار ہے۔
قبلے سے بائیں جانب محراب سے آگے ایک چھوٹا سا راستہ رہائشی کمروں کی طرف جاتا ہے۔ دراصل اس دور میں یہ مسجد مدرسے کے طور پر بھی استعمال ہوا کرتی تھی جس میں کئی طلبہ بیک وقت دینی علوم حاصل کیا کرتے تھے۔ قبلے سے دائیں جانب ایسے دو راستے اور بھی رہائشی کمروں کی طرف نکلتے ہیں، اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت مسجد میں زیرِ تعلیم طلبہ اور اساتذہ انہی کمروں میں رہائش پذیر تھے۔
مسجد میں جگہ جگہ چھوٹے کتبے لگائے گئے ہیں جن سے نوواردوں کو اچھی خاصی رہنمائی مل جاتی ہے۔ اسی طرح مسجد کے احاطے میں بھی ایک کتبہ لگایا گیا ہے کہ یہاں پر کبھی اسٹوپا ہوا کرتا تھا اور بدھ مت کے پیروکار اپنی مذہبی رسوم یہاں ادا کیا کرتے تھے۔
اطالوی مشن کے پاکستان میں سربرای ڈاکٹر لوکا ماریا اولیویری کے مطابق ہر ماہ آثار قدیمہ سے دلچسپی رکھنے والے دو ہزار کے قریب لوگ اس تاریخی اثاثے کو دیکھنے آتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر سوات میں آثارِ قدیمہ پر خصوصی توجہ دی گئی، تو کوئی امر مانع نہیں کہ یہ نہ صرف خیبر پختونخواہ بلکہ پورے ملک کی معیشت پر مثبت اثرات مرتب نہ کریں۔
— تصاویر بشکریہ لکھاری۔
امجد علی سحاب فری لانس صحافی ہیں اور تاریخ و تاریخی مقامات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (16) بند ہیں