• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
شائع September 28, 2015

ضلع سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے مغرب کی جانب 6.6 کلومیٹر کی مسافت پر اوڈیگرام کے علاقے میں واقع سلطان محمود غزنوی کی ایک ہزار سال پرانی مسجد اس وقت کے فنِ تعمیر کا شاہکار ہے۔ اس کی چھت زمین سے 30 فٹ اونچی ہوا کرتی تھی۔ ماہانہ دو ہزار سے زائد سیاح آج بھی ملک کے کونے کونے سے اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔

تاریخ کے اوراق سے گرد ہٹائیں تو پتہ چلتا ہے کہ سلطان محمود غزنوی نے دو نومبر بروز منگل سنہ 971ء کو سبکتگین کے ہاں غزنی میں آنکھ کھولی تھی۔ وہ 997ء سے اپنے انتقال تک سلطنتِ غزنویہ کے حکمران تھے۔ انہوں نے غزنی شہر کو دنیا کے دولت مند ترین شہروں میں تبدیل کیا تھا اور ان کی وسیع سلطنت میں موجودہ مکمل افغانستان، ایران اور پاکستان کے کئی حصے اور شمال مغربی بھارت شامل تھا۔

مسلمان حکمرانوں میں سے وہ پہلے حکمران تھے جنہوں نے 'سلطان' کا لقب اختیار کیا۔ انہوں نے ہندوستان پر 17 بار حملہ کیا۔ انہی حملوں میں سے ایک اس نے راجا گیرا (جو موجودہ شمالی پاکستان کے علاقوں سوات وغیرہ کا طاقتور اور خوشحال بادشاہ شمار کیا جاتا تھا) کی سلطنت پر کیا۔

اوڈیگرام میں لب سڑک سلطان محمود غزنوی مسجد کی طرف نشاندہی کرتا ہوا بورڈ۔
اوڈیگرام میں لب سڑک سلطان محمود غزنوی مسجد کی طرف نشاندہی کرتا ہوا بورڈ۔
پہاڑی کے دامن میں مسجد کی طرف جاتا ہوا راستہ
پہاڑی کے دامن میں مسجد کی طرف جاتا ہوا راستہ
مسجد کی طرف جانے والا کچا راستہ
مسجد کی طرف جانے والا کچا راستہ
مسجد کی طرف جانے والے کچے راستے کی ایک اور تصویر
مسجد کی طرف جانے والے کچے راستے کی ایک اور تصویر
مسجد کے باہر معلوماتی بورڈ.
مسجد کے باہر معلوماتی بورڈ.
مسجد کی قلعہ نما بیرونی دیوار.
مسجد کی قلعہ نما بیرونی دیوار.
بیرونی دیوار کا ایک اور منظر.
بیرونی دیوار کا ایک اور منظر.

مشہور ہے کہ یہاں سلطان محمود غزنوی نے پیر خوشحال کو اپنی فوج کا سپہ سالار بنا کر ایک بڑی لڑائی لڑی۔ اسی معرکے میں پیر خوشحال بڑی بے جگری سے لڑا اور بالآخر زندگی کی بازی ہار بیٹھا۔ پیر خوشحال اب یہاں سوات میں ہی دفن ہے۔ اس معرکے میں سلطان کے دو بیٹے بھی سدھار گئے تھے اور وہ بھی سوات ہی میں مدفون ہیں۔ ایک خونریز لڑائی کے بعد راجا گیرا کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

راجا کی شکست کے بعد سلطان واپس غزنی چلا گیا اور 30 اپریل 1030ء کو انتقال کر گیا۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ضلع سوات سے واپسی کے وقت یہاں ایک مسجد تعمیر کرنے کا حکم صادر کیا تھا۔

مسجد کے باہر لگے ایک بورڈ پر مسجد کی مختصر تاریخ لکھی گئی ہے جس کے مطابق سلطان محمود غزنوی نے مسجد کی بنیاد 49-1048 میں ڈالی تھی۔ یہ شمالی پاکستان کی سب سے پرانی مسجد مانی جاتی ہے۔ اس کے احاطے سے 1984 میں ایک کتبہ دریافت ہوا تھا جس پر درج تھا کہ محمود غزنوی نے اپنے بھتیجے حاکم منصور کو اس کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔ حاکم منصور نے اپنے سپہ سالار نوشگین کی نگرانی میں اسے تعمیر کیا تھا۔ مذکورہ کتبہ ہاتھ آنے کے بعد ہی اٹلی کے ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے 1984 میں 'سلطان محمود غزنوی مسجد' کو دریافت کیا تھا۔

مسجد کا دروازہ جسے سیاحوں یا آثار قدیمہ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے ہی کھولا جاتا ہے۔
مسجد کا دروازہ جسے سیاحوں یا آثار قدیمہ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے ہی کھولا جاتا ہے۔
مسجد کے احاطے میں بنا ہوا راستہ.
مسجد کے احاطے میں بنا ہوا راستہ.
مسجد کے صحن میں اترنے والی سیڑھیاں.
مسجد کے صحن میں اترنے والی سیڑھیاں.
رہائشی کمروں کی طرف جانے والا راستہ۔
رہائشی کمروں کی طرف جانے والا راستہ۔
طالب علموں کے رہائشی کمروں تک جانے والا راستہ۔
طالب علموں کے رہائشی کمروں تک جانے والا راستہ۔
مسجد میں تازہ پانی لانے کی غرض سے اس دور میں بنائی گئی ایک لائن کا منظر۔
مسجد میں تازہ پانی لانے کی غرض سے اس دور میں بنائی گئی ایک لائن کا منظر۔
مسجد کا کچن.
مسجد کا کچن.

آج سے ایک ہزار سال پہلے بنائی گئی اس مسجد کا طرزِ تعمیر اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں پر گارڈز مسجد میں داخل ہونے سے پہلے سیاحوں کو ایک بات کی تلقین خاص طور پر کرتے ہیں کہ آپ کو مسجد کے احاطے میں کسی بھی چیز کو ہاتھ نہیں لگانا ہے۔ کیوں کہ اس سے ’’نیچر ڈسٹرب‘‘ ہونے کا احتمال ہے۔ بالفاظ دیگر ایک ہزار سال پہلے جو چیز جہاں رکھی گئی تھی، اگر اسے وہاں سے اٹھایا گیا، تو اس کی فطری کشش میں کمی واقع ہوجائے گی۔

مسجد تعمیر کرتے وقت اس کے صحن کے عین درمیان پانی کا ایک تالاب بنایا گیا تھا جسے آج بھی اسی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اُس دور میں لوگ نماز پڑھنے کی خاطر وضو اسی حوض کے پانی سے کیا کرتے تھے۔ اسی طرح مسجد میں داخل ہوتے وقت اس جگہ کو بھی دیکھا جاسکتا ہے جو پانی کی سپلائی لائن کہلاتی ہے۔ مسجد سے بارش یا پھر وضو کے استعمال شدہ پانی کو نکالنے کا طریقہ بھی اس دور کی انجینیئرنگ کا ایک شاہکار ہے۔

تقریباً ایک اسکوائر فٹ نالی باقاعدہ ایک سیڑھی کی شکل میں بنائی گئی ہے، جس کی مدد سے پانی مسجد کے احاطے سے باہر نکال دیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ مسجد کے ہال میں ایک محراب بھی نمایاں نظر آتی ہے۔ مسجد کی دیواریں عام پتھروں سے بنائی گئی ہیں۔ قبلہ رو کھڑے ہو کر بائیں جانب کی دیوار تیس فٹ اونچی ہے، یعنی آج کی تعمیرات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ کسی بھی تین منزلہ عمارت جتنی اونچی دیوار ہے۔

مسجد کی محراب.
مسجد کی محراب.
صحن میں بنے پانی کے حوض کا منظر جہاں نمازی وضو کیا کرتے تھے۔
صحن میں بنے پانی کے حوض کا منظر جہاں نمازی وضو کیا کرتے تھے۔
مسجد کے احاطہ سے وضو یا بارش کا پانی نکالنے کے لیے بنائی گئی سیڑھی نما نالی۔
مسجد کے احاطہ سے وضو یا بارش کا پانی نکالنے کے لیے بنائی گئی سیڑھی نما نالی۔
رہائشی کمروں کا ایک منظر۔
رہائشی کمروں کا ایک منظر۔
رہائشی کمروں کا ایک منظر۔
رہائشی کمروں کا ایک منظر۔
ستون جس پر مسجد کی چھت کھڑی رہتی تھی۔
ستون جس پر مسجد کی چھت کھڑی رہتی تھی۔
مسجد کی دوسری جانب سے لی گئی تصویر جس میں 30 فٹ اونچی دیوار دیکھی جاسکتی ہے۔
مسجد کی دوسری جانب سے لی گئی تصویر جس میں 30 فٹ اونچی دیوار دیکھی جاسکتی ہے۔

قبلے سے بائیں جانب محراب سے آگے ایک چھوٹا سا راستہ رہائشی کمروں کی طرف جاتا ہے۔ دراصل اس دور میں یہ مسجد مدرسے کے طور پر بھی استعمال ہوا کرتی تھی جس میں کئی طلبہ بیک وقت دینی علوم حاصل کیا کرتے تھے۔ قبلے سے دائیں جانب ایسے دو راستے اور بھی رہائشی کمروں کی طرف نکلتے ہیں، اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت مسجد میں زیرِ تعلیم طلبہ اور اساتذہ انہی کمروں میں رہائش پذیر تھے۔

مسجد میں جگہ جگہ چھوٹے کتبے لگائے گئے ہیں جن سے نوواردوں کو اچھی خاصی رہنمائی مل جاتی ہے۔ اسی طرح مسجد کے احاطے میں بھی ایک کتبہ لگایا گیا ہے کہ یہاں پر کبھی اسٹوپا ہوا کرتا تھا اور بدھ مت کے پیروکار اپنی مذہبی رسوم یہاں ادا کیا کرتے تھے۔

اطالوی مشن کے پاکستان میں سربرای ڈاکٹر لوکا ماریا اولیویری کے مطابق ہر ماہ آثار قدیمہ سے دلچسپی رکھنے والے دو ہزار کے قریب لوگ اس تاریخی اثاثے کو دیکھنے آتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر سوات میں آثارِ قدیمہ پر خصوصی توجہ دی گئی، تو کوئی امر مانع نہیں کہ یہ نہ صرف خیبر پختونخواہ بلکہ پورے ملک کی معیشت پر مثبت اثرات مرتب نہ کریں۔

— تصاویر بشکریہ لکھاری۔


امجد علی سحاب فری لانس صحافی ہیں اور تاریخ و تاریخی مقامات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

امجد علی سحاب

امجد علی سحابؔ روزنامہ آزادی اسلام آباد اور باخبر سوات ڈاٹ کام کے ایڈیٹر ہیں۔ اردو بطور مضمون پڑھاتے ہیں، اس کے ساتھ فری لانس صحافی بھی ہیں۔ نئی دنیائیں کھوجنے کے ساتھ ساتھ تاریخ و تاریخی مقامات میں دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (16) بند ہیں

Javid Ahmad Sep 28, 2015 05:59pm
Great article, for a moment I felt like I was in that era. Well done Sahaab
Yusuf Sep 28, 2015 08:29pm
Great find!
TARIQ KHAN Sep 28, 2015 09:10pm
Grate work sir
Gulaley Sep 28, 2015 09:20pm
This is called professionalism. I asked for the writer's brief introduction Last time and "Dawn" made it possible now. Commendable job Mr. Sahab..... keep it up. At the end Thanks to the Dawn media for Highlighting our beautiful and Historical Swat. Looking for more like this Mr.
وارث خان Sep 29, 2015 10:01am
ايک جامع اور دلچسپي کے حامل معلوماتي کالم ەےـ
Samiullah Khatir Sep 29, 2015 11:41am
Great researched work done by Amjad Ali Shah. thumps up for the articulated article here in Dawn. Best of Luck Sir, surely you made me to visit the place next week Inshallah Samiullah khatir Timergara Dir Lower.
Zahid Gulzar Sep 29, 2015 03:25pm
I am very thank full to you for this nice collection and hope you work hard more search same like this Historical views. I love my beautiful Pakistan.
Mansour Haidar Raja Sep 29, 2015 05:02pm
زبردست ،،،،، اللہ پاک اس خیرکا اجر دے ۔۔۔ آمین
Iاحسان علی خان Sep 30, 2015 02:00pm
بہت عمدہ ۔۔۔معلوماتی اور دلچسپ فیچرز کا جو سلسلہ آپ نے شروع کیا ہے اسے اسی طرح جاری رکھیں گا۔
Zahid Khan Sep 30, 2015 05:31pm
Dear Mr Sahab, sb very very interesting and great research..... we can't mail it...... would you see to this that gets mail Please Thanking you
abdul rehman qazi Oct 01, 2015 12:27pm
aasalmo alikum bhai verey verey like muja bhoat aacha laga mashallha
mudassir iqbal umair Oct 02, 2015 01:14pm
swat ka wo pehlu ju hmari nazrun se oojal tha.buht khoob.
امیر احمد سواتے Oct 02, 2015 03:16pm
سوات کو جس رنگ میں آجکل میڈیا میں پیش کیا جا رہا ہے، اس میں ایک ایسی تحریر واقعی تسلی بخش ہے۔ ورنہ موت کے رقص کے علاوہ اور کچھ اخبارات پیش ہی نہیں کرتے۔ شکریہ لکھاری اور ڈان والوں دونوں کا ۔ امید ہے سوات کی مثبت عکاسی جاری رہے گی۔۔۔۔۔۔۔۔
Muhammad Oct 04, 2015 06:05pm
Amjad Ali Sahab Sir, Buhot khoob, aaj aap ne Swat ka aik our gosha benaqaab keya. Bas ab zaroorat is amar ki hy k humain koye mukhlis seyasi quwwat mely.
ejaz hussain Oct 06, 2015 09:15pm
Very nice post, we really loved what you have said, Pakistan has amazing places ۔
faizan Oct 08, 2015 05:45pm
'Article and really informative I wish I see it as early as possible